اچھی خبر کا انتظار
خبریں ہیں کہ ایک ڈھونڈو ہزار ملتی ہیں مگر کوئی خبر بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچتی نظر نہیں آتی۔ ایک جمود سا طاری ہے جس سے پورا ملک گزر رہا ہے۔ جہاں لاہور سے شروع ہونے والا لانگ مارچ دو ہفتوں میں راولپنڈی نہ پہنچ سکے، وہاں کسی اور بات کی مثال کیا دی جائے۔ہاں ٹائم لمٹ کیس میں کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلتا ہے، جیسے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ ہے۔ 29 نومبرکو بالآخر اس سارے تجسس نے ختم ہونا ہے اور نئے آرمی چیف نے عہدہ سنبھالنا ہے اب حکومتی وزراء نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ آنے والے ہفتے میں اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ یوں ایک بڑی خبر اب بریک ہونے والی ہے جس نے پورے ماحول کو سنسنی میں مبتلا کر رکھا ہے، مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ماضی میں کبھی آرمی چیف کی تعیناتی پر اتنی زیادہ سیاست ہوئی ہو، یہ معاملہ بڑی آسانی سے نمٹ جاتا تھا، مگر اس بار تو اس نے سارے نظام کو ایسے جکڑ لیا ہے، جیسے اس کے بغیر مملکت کا کاروبار ہی نہ چلتا ہوں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان اپنے لانگ مارچ کو اس لئے طول دے رہے ہیں کہ وہ نئے آرمی چیف کی تقرری کے اعلان سے پہلے راولپنڈی نہیں پہنچنا چاہتے۔ آرمی چیف کا نام سامنے آنے کے بعد ان کی حکمت عملی کیاہوگی اس بارے میں فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم یہ کہنا درست ہوگا کہ انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔ دنیا بھی اس سارے تماشے کو دلچسپی سے دیکھ رہی ہو گی، کسی ملک میں آرمی چیف کی تعیناتی کے نام پر اس طرح سیاست نہیں ہوتی جیسی ہمارے ہاں ہو رہی ہے، ایک جمہوری ملک کے دعویدار سیاستدان اپنے نظام پر بھروسہ کرنے کی بجائے فوج کے سربراہ پر تکیہ کریں گے تو اس نظام کے بارے میں دنیا کیا تاثر لے گی، موجودہ صورت حال سے تو یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی جمہوریت اور پارلیمنٹ پر ایک ریاستی ادارے کے سربراہ کی پوسٹنگ بھاری ہے۔
موجودہ صورت حالِ میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ایک صائب موقف اختیار کیا ہے۔ سیاسی بھیڑ چال کی فضا میں ان کا یہ کہنا کہ فوج کے تین سٹار جنرلز سب قابل، محب وطن اور پیشہ ورانہ سوچ کے حامل ہوتے ہیں، اس لئے جسے بھی آرمی چیف بنایا جائے گا وہ ملک و قوم کے لئے بہتر ہوگا، اس معاملے کو سیاسی نہ بنایا جائے وگرنہ اس کا فوج جیسے قومی ادارے کو نقصان پہنچے گا۔ حیرت ہوتی ہے اس عام سی بات کو کیوں نہیں سمجھا جاتا، ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ فوج کا سربراہ جسے بھی بنایا گیا اس نے اپنی ذمہ داریوں کو ایک پروفیشنل کمانڈر کے طور پر ادا کیا، اپنی مرضی کا چیف آف آرمی سٹاف تعینات کرکے جنہوں نے بے جا توقعات باندھ لیں، انہیں ناکامی اور پچھتاوے کا سامناکرنا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سنیارٹی کا اصول بنا کر آرمی کے سربراہ کی تقرری کر دی جائے یا پھر اسے فوج کی طرف سے نامزدگی پر چھوڑ دیا جائے جس میں کسی بھی جرنیل کی پیشہ ورانہ قابلیت مہارت، کمانڈ کرنے کی صلاحیت اور دفاعی امور پر اس کی کامل دسترس کو اولیت دی جاتی ہے، یہی فوج میں ترقی کا پیمانہ ہے اور اسی کی بنیاد پر اس کا اوپر سے لے کر نیچے تک نظام چلتا ہے۔
آج عمران خان کہتے ہیں کہ وہ آرمی چیف کی تقرری سے دستبردار ہو گئے ہیں جسے چاہیں چیف آف آرمی سٹاف بنا دیں انہیں کوئی اعتراض نہیں مگر ان کی اس بات کا کیسے یقین کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ اس تعیناتی کو انہوں نے ہی متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے، ان کا یہ کہنا تو اب روز کا معمول بن گیا ہے کہ نوازشریف اپنی پسند کا آرمی چیف اس لئے بنانا چاہتے ہیں کہ اپنے کیسز ختم کرا سکیں اور انہیں راستے سے ہٹانے کے لئے نااہل کرائیں، ان کی ان باتوں میں کوئی منطق یا دلیل نظر نہیں آتی، ایک آرمی چیف بھلا یہ کام کیسے کر سکتا ہے۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ شریف برادران آرمی کو پنجاب پولیس بنانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف خود ہی یہ کہتے ہیں کہ انہیں ایسا آرمی چیف بھی مل سکتا ہے جو ان کی ہر بات بے چون و چرا مان لے۔ کیاماضی میں ایسا کوئی آرمی چیف آیا ہے جس نے سیاستدان کے کہنے پر وہ کام کئے ہوں جو ان کے منصب سے لگا ہی نہیں کھاتے۔ یہ ملک کی بڑی بدقسمتی ہو گی اگر آرمی کے سربراہ کی تقرری کو بھی ہم اپنے سیاسی مقاصد کے لئے متنازعہ بنا دیں۔ اب جبکہ یہ مرحلہ قریب آ گیا ہے تو اسے بحسن و خوبی عبور کرنے کے لئے سب کو کھلے دل سے جو بھی نیا آرمی چیف بنے اس کا استقبال کرنا چاہیے۔ سیاست کے لئے سیاسی میدان کھلا پڑا ہے جس میں جتنا دم ہے اسے کھیلنا چاہیے تاہم بیساکھیاں تلاش کرنے کی عادت پر ترک کر دی جائے تو یہ جمہوریت کے لئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔
ایک عمومی خیال یہ ہے کہ آرمی چیف کا تقرر ہو جائے گا تو اس ڈیڈ لاک کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی جو اپوزیشن یعنی تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان موجود ہے۔ پچھلے چند دنوں سے عمران خان یہ کہہ رہے ہیں کہ انتخابات سال بعد بھی ہوتے ہیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا حقیقی آزادی مارچ کے لئے سفر جاری رہے گا۔ گویا فوری انتخابات کے حوالے سے ان کے مطالبے میں اب ایک لچک پیدا ہو چکی ہے۔ یہی وہ موقع ہے جس سے حکومتی اتحادی جماعتوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے اور عمران خان کو مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دینی چاہیے۔ حکومتی جماعتیں اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ عمران خان کی مقبولیت پورے ملک میں موجود ہے۔ وہ اسلام آباد آنے کے لئے دباؤ بھی بڑھا رہے ہیں اور پنجاب و خیبر پختونخوا میں ان کے لانگ مارچ مسلسل اسلام آباد کی طرف سفر کررہے ہیں۔ صرف یہ کہہ دینے سے کہ اسلام آباد میں انہیں داخل نہیں ہونے دیں گے، بات نہیں بنے گی، جب پنجاب اور خیبرپختونخوا سے ایک بڑی یلغار اسلام آباد کی طرف بڑھے گی تو حالات بے قابو ہو جائیں گے،اس لمحے کا انتظار کرنے کی بجائے اس کا سیاسی حل نکالنا چاہیے۔ خواجہ آصف کا یہ کہنا کہ آرمی چیف کا تقرر ہوتے ہی لانگ مارچ بھی ٹھس ہو جائے گا۔ ایک احمقانہ سوچ ہے۔ ایسی ہی خوش فہمی پر مبنی باتیں بگاڑ پیداکرتی ہیں۔ دونوں طرف کی برف پگھلنی چاہیے تاکہ مستقبل کا راستہ کھلے اور ملک جس بے یقینی کا شکار ہے اسے نکلنے کی کوئی صورت بن سکے۔