لیوی پلیئنگ فیلڈ سے متعلق الزام غیر سنجیدہ ، عمران خان جیل میں مکمل محفوظ ، حکومت کی ذمہ داری ہیں : نگران وزیراعظم 

          لیوی پلیئنگ فیلڈ سے متعلق الزام غیر سنجیدہ ، عمران خان جیل میں ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ، نیوز ایجنسیاں) نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو جیل میں زہر دینے کا الزام غیر ذمہ دارانہ ہے، انہیں نہ نگراں حکومت نے گرفتار کیا اور نہ شاہی فرمان کے ذریعے ان کو رہا کر سکتے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں مکمل محفوظ اور ہماری ذمہ داری ہے،پیپلز پارٹی کی طرف سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے الزام کو سنجیدہ نہیں لیتے،لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام ووٹرز کو متوجہ کرنے کا حربہ ہے،تمام جماعتیں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، ہماری ترجیح ہے جلد الیکشن ہوں،چاہتے ہیں ایک منتخب حکومت آئے اور اپنی ذمہ داریاں سنبھالے،طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی والے کہاں سے حملے کر رہے ہیں،ٹی ٹی پی وسطی ایشیائی ریاستوں میں نہیں افغان سرزمین پر موجود ہے۔ اتوار کو نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویومیں وزیراعظم نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے الزام کو سنجیدہ نہیں لیتے،لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام ووٹرز کو متوجہ کرنے کا حربہ ہے۔انہوںنے کہاکہ تمام جماعتیں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، ہماری ترجیح ہے کہ جلد از جلد الیکشن ہوں۔نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں عوام اپنا مینڈیٹ استعمال کرکے لوگوں کو مینڈیٹ دیں، ہم چاہتے ہیں ایک منتخب حکومت آئے اور اپنی ذمہ داریاں سنبھالے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ ہم نے ایسا کون سا کام کیا ہے جس سے متعلق تاثر دیا جا رہا ہے ہم کسی فریق سے متعلق جانبدار ہیں۔انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ یہاں کوئی اذیت پسند لوگ نہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے ذاتی بدلہ لینا ہے، دیگر جماعتیں اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، پی ٹی آئی لیڈر بھی اپنے علاقوں میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔نگراں وزیراعظم نے کہا کہ اپنے آپ کو ووٹر کے سامنے مظلوم قرار دینا کسی بھی جماعت کا بیانیہ ہو سکتا ہے،ہو سکتا ہے پیپلز پارٹی بھی اپنے ووٹرز کے لیے اس قسم کی گفتگو کرے۔نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ افغان طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لوگ پاکستان کے خلاف کہاں سے کارروائیاں کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی وسطی ایشیائی ریاستوں میں نہیں بلکہ افغان سرزمین پر موجود ہے۔نگران وزیراعظم نے کہا کہ دو سال قبل جو مذاکرات کا ڈھونگ رچایا گیا تھا تو ٹی ٹی پی کے لوگ کابل میں عملی طور پر ان مذاکرات میں شریک تھے۔انہوں نے کہاکہ اب یہ فیصلہ افغان طالبان کو کرنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو ہمارے حوالے کرنا ہے یا ان کے خلاف خود کارروائی کرنی ہے۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ بات قابل برداشت نہیں کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کی جائیں اور افغان طالبان تماشا دیکھتے رہیں۔وزیراعظم نے کہاکہ تمام مکاتب فکر کے علماءنے آرمی چیف کے ساتھ ملاقات میں ٹی ٹی پی سے متعلق موجودہ حکومتی پالیسی کی حمایت کی ہے۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ افغان حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان کے خلاف کہاں سے کارروائیاں کر رہے ہیں؟ ٹی ٹی پی وسطی ایشیائی ریاستوں میں نہیں بلکہ افغان سرزمین پر موجود ہے اور دو سال قبل جو مذاکرات کا ڈھونگ رچایا گیا تھا تو ٹی ٹی پی کے لوگ کابل میں عملی طور پر ان مذاکرات میں شریک ہوئے۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ تمام مکاتب فکر کے علماء نے آرمی چیف کے ساتھ ملاقات میں ٹی ٹی پی سے متعلق موجودہ حکومتی پالیسی کی حمایت کی ہے۔نگران وزیراعظم نے کہا کہ میری وفاداری ریاست کے ساتھ ہے۔میرے لئے تمام افغان قابل احترام ہیں۔میرے پشتون ہونے کی کسی سے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔افغانستان میں پشتونوں سمیت ہر ایک کیلئے یکساں احترام ہے۔افغان ریاست سے متعلق میرے بیان کو مختلف انداز میں پیش کیا گیا،انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان، افغانستان کو ایماندارانہ سوچنا چاہئے ایک دوسرے سے کیا توقع رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ کسی کو ریاست سے مذاکرات کرنا ہے تو سب سے پہلے ہتھیار پھینکیں۔ہتھیار اٹھانے کا جواز ہی ناجائز ہے۔جب ہتھیار چھوڑیں گے تب سوچا جائے گا کب اور کیسے مذاکرات کئے جائیں گے۔کوئی سمجھتا ہے بندوق کی نوک پر مذاکرات کریںتو یہ غلط فہمی دور کر لیں۔ہمارا خیال تھا امریکا اور دیگر قوتوں کا گھر افغانستان نہیں ہے۔گھر کی قوت ان کو گھر سے نکالنا چاہتی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ایک گھر ہے جو میرا ہے اور ٹی ٹی پی بھی اس کو شیئر کرتی ہے۔کسی رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو واپس بھجنے کی پالیسی نہیں۔غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔افغان شہریوں کے ساتھ ہم نے بہتر رویہ اختیار کیا ہے۔غیرقانونی طور پر مقیم افراد واپس جا کر قانونی طور پر واپس آئیں۔موجود افغان طالبان حکومت کے بعد پاکستان آنیوالے افغانوں کی کیٹیگری الگ ہے۔۔ایک سوال کے جواب وزیراعظم نے کہا کہ پاک چین اسٹریٹجک تعلقات کی تشریحات درست ہیں۔چین چاہتا ہے ہماری طرف سی پیک کے دوسرے مرحلے کیلئے تعاون زیادہ ہو۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی میں ملوث عناصر کی بیخ کنی کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔روزانہ کی بنیاد پر ہماری سیکیورٹی فورسز دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہیں۔امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات بہت ضروری ہیں۔ڈائیلاگ اور طاقت استعمال کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے۔9 مئی کو فوج نے صبروتحمل سے کام لیا۔ریاست کی ذمہ داری لیتے ہیں تو مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔

نگران وزیر اعظم

مزید :

صفحہ اول -