سفراء کی سیاستدانوں سے ملاقاتیں
پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے نوازشریف، جہانگیر ترین اور یوسف رضا گیلانی جبکہ برطانوی ہائی کمشنر نے سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم ہفتے کو مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف سے جاتی اُمراء میں ملے اور پاکستان کی سیاسی و معاشی صورتحال خاص طور پرعام انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ نواز شریف نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی اہمیت پر زور دیا، اْنہوں نے مختلف امریکی رہنماؤں سے اپنی ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام امریکی رہنما دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد نے یہ اُمید بھی ظاہر کی کہ آج ملک کو درپیش لاتعداد مسائل اور بحرانوں سے نکلنے کے لئے عوام ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگن پر اعتماد کرتے ہوئے اسے قائدانہ کردار دیں گے۔ ملاقات میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون پر گفتگو ہوئی،امریکی سفیر اور ن لیگ کے قائد نے دونوں ممالک کے درمیان پختہ اور مستحکم شراکت داری کی اہمیت کا اعتراف بھی کیا۔اِس کے علاوہ تجارت، معیشت، موسمیاتی تغیر، سلامتی اور علاقائی استحکام سمیت دوطرفہ دلچسپی کے مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی۔ نوازشریف نے اسرائیل کی طرف سے بلاامتیاز بمباری کے نتیجے میں بے گناہ فلسطینیوں کی بے رحمانہ شہادتوں کے مسئلے کو اُجاگر کیا، غزہ میں فوری جنگ بندی،لڑائی اور ہلاکتوں کا سلسلہ روکنے کا مطالبہ کیا اور متاثرین کو فوری طبی اورانسانی امداد کی فراہمی پر زور دیا۔ امریکی سفیر نے استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے پیٹرن انچیف جہانگیر ترین اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے بھی ملاقات کی۔ جہانگیر ترین نے بتایا کہ آئی پی پی قیادت بھرپور انداز سے اپنی انتخابی اور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر چکی ہے اور عام انتخابات کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ ڈونلڈ بلوم نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے گیلانی ہاؤس، ملتان میں ملاقات کے دوران سیاسی معاملات پر گفتگو کی۔ یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ سیاسی استحکام سے ہی معاشی استحکام لایا جا سکتا ہے۔ امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے بتایا کہ امریکی سفیر نے مختلف سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی اہمیت پر بات کی ہے۔ ترجمان کے مطابق ڈونلڈ بلوم نے پاکستانی عوام کے لیڈروں کے انتخاب کے حق پر تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ ساتھ پاک امریکہ تجارتی اور سرمایہ کاری تعلقات کی مضبوطی اور امریکہ پاکستان ”گرین الائنس“ کے فریم ورک کی ترقی پر بھی بات چیت کی۔اِس کے علاوہ برطانوی ہائی کمشنر نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی جس میں انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لئے برطانیہ کو مصالحتی کردار ادا کرنا چاہئے،دونوں شخصیات کے مابین پاک برطانیہ تعلقات کے فروغ پر بھی بات چیت کی گئی۔
ایک طرف تو یہ تمام ملاقاتیں ہو رہی ہیں، روابط بڑھانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور امریکی سفیر کی ملاقات کے اعلامیے کے مندرجات دراصل اُس سازش کا تسلسل ہیں جس کے تحت پی ٹی آئی کی منتخب اور جائز جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ ترجمان تحریک انصاف نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان مذکورہ اعلامیے کے مندرجات کا فوری نوٹس لے اور دفتر خارجہ کے ذریعے امریکی سفارتخانے اور امریکی انتظامیہ سے معاملے کی وضاحت طلب کرے، ملکی سلامتی، آئین، جمہوریت اور انتخابات کی شفافیت کے خلاف کوئی خفیہ سازش یا اعلانیہ اقدام قوم ہرگز قبول نہیں کرے گی اور اِس کے ملکی ہم آہنگی، داخلی سلامتی اور قومی یکجہتی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے، تحریک انصاف آئین کی بالادستی، جمہوریت کے دفاع، انتخابات کی شفافیت اور قوم کی حقیقی آزادی کے ایجنڈے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے گی۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا سارا الزام امریکہ پر ڈال دیا تھا، سائفر کو عوامی جلسے میں لہرا کر بیرونی سازش کا بیانیہ بھی بنایا لیکن بعد میں ”یو ٹرن“ لے لیا، پھر اِسے داخلی سازش کا نام دے کر ساری ذمہ داری سابق آرمی چیف پر ڈال دی۔ اب پی ٹی آئی چیئرمین پر سیکرٹ ایکٹ کے تحت ایک مقدمہ زیر سماعت ہے جس کے بارے میں ہفتے کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی کی ضمانت مسترد کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر لگی دفعات کی سزا عمر قید یا سزائے موت ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 10 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں جرم پر اُکسانے، جرم کی سازش یا معاونت کا الزام ہے اور جرم میں معاونت کرنے والے کو بھی مرکزی مجرم کی طرح ہی دیکھا جاتا ہے، بلا شبہ ضمانت کا مطلب سزا سے روکنا نہیں ہے لیکن عمر قید یا سزائے موت کے ملزمان کو عدالتیں ضمانت دیتے ہوئے احتیاط سے کام لیتی ہیں، اِس قسم کے کیسوں میں جب تک معقول وجہ موجود نہ ہو، ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
سیاستدانوں کی دوسرے ممالک کے سفیروں کے ساتھ ملاقاتیں معمول کی بات ہے، اس میں کچھ نیا ہے اور نہ ہی انوکھا ہے، پی ٹی آئی کی طرف سے اِن ملاقاتوں کو سازش یا کسی سازش کا تسلسل قرار دینا کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے، وہ بھی اِس صورت میں جب پی ٹی آئی چیئرمین پہلے ہی اِس بیانیے سے ”پھر“ چکے ہیں۔ امریکی سفیر نے کسی ایک جماعت کے رہنماسے ملاقات نہیں کی بلکہ پیپلز پارٹی اور تحریک استحکام کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی ہے اور کھلم کھلا کی ہے تو پھر یہ سازش کیسے ہو سکتی ہے؟افسوسناک بات یہ ہے کہ تمام تر مسائل و معاملات کے باوجود ہمارے ہاں سیاست کا چلن قطعاًنہیں بدلا۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو الزام دینے کی روش پر پوری طرح قائم ہیں، ہوا میں چھکے چوکے مارنے سے باز نہیں آ رہیں۔گزشتہ چند روز سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پی ڈی ایم حکومت کو مہنگائی سمیت دیگر مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے نظر آ رہے ہیں باوجود اِس کہ وہ اِس کی کابینہ کا حصہ تھے اور یہ بات واضح ہے کہ حکومت صرف وزیراعظم کا نام نہیں بلکہ پوری کابینہ کا نام ہے جو تمام تر حکومتی فیصلوں کی ذمہ دار ہے۔کچھ ایسا ہی رویہ پاکستان مسلم لیگن کی طرف سے بھی دیکھنے میں آتا ہے۔اہل ِ سیاست کو ہر وقت تنقید برائے تنقید سے کام نہیں لینا چاہئے، قوم کو نعرے بازی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عملی اقدامات کی چاہ ہے۔ کبھی بھارت سے ملاقات پر ”غدار“ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے اور کبھی امریکی سفیروں سے بات چیت کو سازش کا نام دے دیا جاتا ہے، یہ بات حقیقت ہے کہ دوسرے ممالک کے ساتھ روابط قائم کئے بغیر آگے بڑھنا انتہائی مشکل ہے، کسی بھی ملاقات کو ایسا رنگ دینا مناسب ہے اور نہ ہی قومی مفاد میں ہے۔