کتابوں کی دنیا

         کتابوں کی دنیا
         کتابوں کی دنیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  کتاب کسی بھی موضوع پر ہو ایک علمی خزانے کی حیثیت رکھتی ہے یا وہ آپ کے علم میں اضافہ کرتی ہے یا پھر اپنے علم کی بنیاد پر اس کے متن سے اختلاف کرتے ہیں دونوں صورتوں میں ایک علمی تحرک پیدا ہوتا ہے،جو زندگی کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری ہے۔ کتابوں سے دوستی نہ صرف انسان کو اکلاپے سے بچاتی ہے بلکہ زندگی گزارنے کے نت نئے سلیقے بھی سکھاتی ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے ڈیپریشن میں کتاب کا مطالعہ سو دوائیوں سے زیادہ کام کرتا ہے۔ کتابوں کی دنیا کے حوالے سے آج کے کالم میں آج دو کتابوں اور ایک جریدے کا تعارف مقصود ہے۔ پہلی کتاب معروف شاعر انور جمال کی شعری کلیات ”مکمل نا مکمل“ ہے۔ لاہور سے شائع ہونے والا جریدہ ”سائبان“ ایک کتابی سلسلہ ہے، جس کے مدیر اعلیٰ معروف و سینئر شاعر حسین مجروح ہیں تیسری کتاب معروف شاعر اور صحافی اشرف جاوید کی تصنیف ”پاکستان میں انتخابات کی تاریخ“ ہے۔ یہ تینوں تصانیف بڑی اہمیت کی حامل ہیں اور قاری کے لئے وقیع مواد رکھتی ہیں۔

ملتان میں مقیم پروفیسر انور جمال ایک کہنہ مشق اور سینئر شاعر و نقاد، مصور اور فلسفی ہیں۔ ان کی اب تک سترہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ حال ہی  میں ان کی شعری کلیات ”مکمل نا مکمل“ منظر عام پر آئی ہے۔یہ شعری کلیات ان کے چار شعری مجموعوں ”نصف النہار، تیرے بعد، تشنگی ہجر ہے“ اور ”آسمان کوئی اور“ پر مشتمل ہے، جس میں ان کا غیر مطبوعہ کلام بھی شامل ہے۔ یہ کلیات ان کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے، جبکہ نعت، حمد اور منقبت میں بھی ان کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں انور جمال کا یہ شعر اردو حلقوں میں زبانِ زدِ عام ہے۔

اے قاسمِ اشیاء تری تقسیم عجب ہے

دستار انہیں دی ہے جو سر ہی نہیں رکھتے

انور جمال کی شاعری کو معروف نقاد ڈاکٹر شمیم ترمذی نے شہر آشوب کی شاعری قرار دیا ہے۔ ایسا شہر آشوب جو کربِ ذات سے شروع ہو کر سماجی اقدار کے نوحے پر ختم ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں ”انور جمال جیسا توانا شاعر جب شہرِ آشوب نظم کرتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے اس نے قاری کے سامنے جامِ جمشید رکھ دیا ہے، جس میں وہ خود موجودہ دور کی ہولناکیاں اور سفاکیاں دیکھنے کے ساتھ ساتھ آنے والے دور کی ویرانیوں کا تماشا بھی کر سکتا ہے۔“ جتنی توانا انور جمال کی نظمیں ہیں، اتنی ہی ان کی غزل بھی ہے، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا انور جمال نے غزل کو ایک نیا آہنگ، نیا کینوس اور نیا اُسلوب عطا کیا ہے۔ معروف نقاد مبین مرزا ندیم لکھتے ہیں۔ ”انور جمال ایک جمال پرست اور حساس انسان ہے۔ اپنی حساسیت کے سبب وہ شیشہ گری اور کار گہہ شیشہ گری کے بہت گہرے اور وقیع حقائق کا ادراک پاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ذات کے شعور و فہیم سے بھی غافل نظر نہیں آتا“ انور جمال کی یہ کلیات ان کی شاعری کا مجموعی مطالعہ کرنے کے لئے ایک اہم کتاب ہے۔

ادبی حلقوں میں حسین مجروح کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں لاہور کی ادبی سرگرمیوں کا تو ناگزیر حوالہ وہ ہیں ہی تاہم اپنی سائبان تحریک کے ذریعے انہوں نے پاکستان بھر میں کتاب اور کتابوں سے محبت کے ضمن میں خود عاشقِ کو صادق منوا لیا ہے۔ وہ لاہور سے کتابی سلسلے پر مبنی اپنا سہ ماہی جریدہ ”سائبان“ شائع کرتے ہیں، اب تک اس کے پانچ شمارے آ چکے ہیں سائبان کا ہر شمارہ اپنے جلو میں ادب کی تمام اصناف کے شہ پارے لے کر آتا ہے اور ادب کے قارئین کی تشنگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سائبان کا شمارہ اکتوبر دسمبر بھی مختلف اصناف کے خوبصورت انتخاب پر مشتمل ہے۔ نظم و نثر میں توازن کی عمدہ مثال دیکھنی ہو تو سائبان کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک ذہین مدیر کی تمامتر صفات سائبان کے مواد کو دیکھ کر سامنے آ جاتی ہیں۔ افسانے کے حصے میں اصغر ندیم سید، ناصر عباس نیر، ممتاز حسین، اعجاز روشن اور مصباح نوید کے افسانے شامل ہیں ان افسانوں میں عصرِ موجود کی ایک مکمل تصویر نظر آتی ہے۔ غزلوں کا حصہ بھی سینئر اور نئے شاعروں کی تخلیقات سے مزین ہے۔ ظفر اقبال، سحر انصاری، صابر ظفر، انور شعور، اظہر ادیب، اشرف جاوید، طاہر صنفی، عارف امام اور دیگر شاعروں کی غزلیات اس شمارے کی زینت ہیں۔ مضامین کے شعبے میں تین اہم موضوعات پر مضامین شامل ہیں۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیئر، ڈاکٹر امجد علی شاکر اور ڈاکٹر غافر شہزاد کے مضامین کی وجہ سے قاری کے لئے فکر و نظر کا وافر سامان مہیا کر دیا گیا ہے۔ نظم کے حصے میں بھی ایک خوبصورت انتخاب موجود ہے۔ نصیر احمد ناصر، علی محمد فرش، نور الہدیٰ شاہ، ممتاز حسین اور نینا عادل سمیت مختلف شاعروں کی خوبصورت اور اثر انگیز نظمیں موجود ہیں صادقین پر ایک جامع مضمون جسے ڈاکٹر محمد جواد نے تحریر کیا ہے، اس شمارے میں شامل ہے ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ”توصف تبسم سکوت میں پلا ہوا آدمی“ کے عنوان سے لکھا ہے، جس میں ان کی  شخصیت اور شاعری کا بڑی خوبصورتی سے احاطہ کیا ہے۔ تراجم بھی شامل ہیں اور مزاح بھی۔ اس شمارے کا اہم ترین حصہ اس کا اداریہ ہے، جو ”حمیت نام تھا جس کا“ کے عنوان سے لکھا گیا ہے اس میں ادبی زوال کے حوالے سے مدیر اعلیٰ نے اہم ترین سوالات اٹھائے ہیں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں چھائی جبر و جور کی دھند کا حصہ بننے سے ادیبوں کو انکار نہیں کرنا چاہئے؟ سائبان کا یہ  تازہ شمارہ عصری ادب کا آئینہ ہے۔ 

اشرف جاوید لاہور کے ادبی و صحافتی حلقوں میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کی حال ہی میں ایک نئی کتاب ”پاکستان میں انتخابات کی تاریخ“ کے نام سے جمہوری پبلیکیشنز نے شائع کی ہے جیسا کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے اس میں مصنف نے پاکستان کی جمہور ی تاریخ میں انتخابات کے عمل کا باریک بینی اور غیر جانبداری سے جائزہ لیا ہے۔ صرف یہی نہیں اس میں ان کے مختلف ادوار اہم موضوعات پر لکھے گئے مضامین بھی شامل ہیں، جو بجائے خود پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک جامعہ مطالعہ پیش کرتے ہیں۔ مصنف نے اس امر کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کن حالات میں ہوتے رہے اور ان سے پہلے یا بعد وہ کیا حالات تھے، جنہوں نے پاکستان میں جمہوریت کو ہمیشہ ایک سوالیہ نشان بنائے رکھا۔ ملک کے سینئر ترین صحافی، دانشور اور تجزیہ کار جناب مجیب الرحمن شامی نے اس کتاب پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے۔ ”پاکستان میں انتخابات کے بغیر، انتخابات کے دوران اور انتخابات کے نام پر جو کچھ ہوتا رہا اس کی تفصیل جناب اشرف جاوید نے اپنی کتاب میں بیان کر دی ہے۔ وہ نہایت عمدہ شاعر، منجھے اور سلجھے ہوئے اخبار نویس ہیں، تاریخ سے بھی واقف ہیں اور حال کی گتھیاں بھی ان کی نظر میں ہیں اشرف جاوید کے موضوعات ان کی وسعت مطالعہ کا بین ثبوت ہیں۔“ جناب مجیب الرحمن شامی کی اس رائے سے اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں سیاست اور انتخابات کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔

مزید :

رائے -کالم -