ہر دور میں کوئی حسین چہرہ دیکھ کر اس سے محبت کا احساس کیوں جاگنے لگتا ہے،ہم ہاتھوں میں ہاتھ لئے باغ میں گول گپے والے کی ریڑھی کے پاس آئے

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:193
محبت کی اس کہانی نے میری روح کو ایک عجیب سے دکھ اور خوشی کی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے۔ہم ہاتھوں میں ہاتھ لئے باغ میں گول گپے والے کی ریڑھی کے پاس آئے ہیں۔ گول گپوں کا چٹ پٹا املی والا ٹھنڈا پانی مجھے بہت پسند ہے۔باغ سے نکلے اور سندھو کے ساتھ ساتھ چلتے ریسٹ ہاؤس چلے آئے ہیں۔
میں نے سندھو سے پوچھا؛”یار! یہ ہر دور میں کوئی حسین چہرہ دیکھ کر اس سے محبت کا احساس کیوں جاگنے لگتا ہے حالانکہ ہم بڑھاپے کو پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا؛”میں پڑھا لکھا تو نہیں لیکن ہزاروں سال کا تجربہ رکھتا ہوں۔ میں توایسے واقعات کا بھی گواہ ہوں، جہاں تم نین کے ساتھ بیٹھے ہو وہاں سینکڑوں لوگ اپنی اپنی نین کا ہاتھ پکڑے محبت جتاتے،ساتھ نبھانے کی قسمیں کھاتے دیکھا ہے اور پھر کچھ عرصے کے بعد انہیں کسی اور نین، مانو، سونو، گڑیا، ببلی، بلی، وغیرہ کے ساتھ ایسے ہی وعدے اور قسمیں کھاتے دیکھتا ہوں۔ ان کی گفتگو مجھے غمزدہ کرتی ہے۔ ایک بار میں نے ایسے ہی سدا بہار عاشق سے پوچھا تھا؛”میں تمھیں چوتھی خاتون کے ساتھ وہی ورد کرتے سن رہا ہوں جو تم نے پہلی خاتون کے ساتھ بھی کیا تھا۔“ اس نے زوردار قہقہہ لگا یا اور جواب دیا؛ ”تم بھی عجیب بات کرتے ہو میرے ساتھ جو خاتون ہے اس کی بھی یہ پہلی محبت نہیں ہے۔“مجھے اس پربہت غصہ آیا۔ وہ شوخی دکھانے مجھ میں اترا تو میں اُسے نگل گیا۔ایک بار نئی آنے والی لڑکی سے میں نے پوچھا؛ ”کیاتم اپنے دوست کی زندگی میں آنے والی پہلی خاتون ہو؟“ حیران ہونے کی بجائے وہ مسکرائی اور کہنے لگی؛”میری زندگی میں آنے والا نہ یہ پہلا شخص ہے اور نہ میں اس کی زندگی میں آنے والی پہلی خاتون ہوں۔تم اپنا کام کرو ہمیں اپنا کرنے دو۔“یہ ماڈرن دنیا ہے یہاں روز دوست بدلے جاتے ہیں۔ضرورت کے مطابق۔ اپنے اپنے فائدہ کے لئے۔“غصہ توبہت آیا لیکن میں نے خود پر قابو پا لیاکہ”میں کون ہوتا ہوں ان کو سزا جزا دینے والاجب ان کے اپنے ضمیر ہی ملامت نہیں کرتے ہیں۔ اب میں خاموش ہی رہتا ہوں۔یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے میرے یار۔ میں اب کسی سے کچھ نہیں کہتا،بس ان کے کرتوتوں کا گواہ ہوں۔ میں نے یہاں آئے بہت سے لوگوں کو دھوکے اور فراق کے غم میں سلگتے اور آہیں بھرتے بھی دیکھا ہے۔ تب میں خوب ہنستا ہوں کہ دوسروں کو دغا د ینے والے کو آج خود غم اٹھانا پڑا ہے تو آنسو نکل آئے ہیں۔ کچھ مجھ میں خود کشی کرنے اترتے ہیں میں انہیں سمجھاتا ہوں جب بضد رہتے ہیں تو میں بھی ان کی خواہش کے احترام میں چپ ہو جاتا ہوں۔ میں بدبور دار لوگوں کے لاشوں کو زیادہ دیر خود میں نہیں رکھتا اگل دیتا ہوں۔ ہاں بعض اچھوں کو تو میں ساتھ ہی لے جاتا ہوں ہمیشہ کے لئے۔ یہ دنیا بھی عجیب مکرو فریب کی دنیا ہے۔ تمھاری دنیا کی یاریوں میں اب پیسے کی ہی اہمیت ہے۔ وفا اور مخلصی کی اب اتنی قدر نہیں رہی شاید۔ میری دنیا دیکھو جو پتھر ہزاروں سالوں سے میرے ساتھ ہیں آج بھی وہیں ہیں میرے ساتھ۔ پہلے دن کی طرح وفادار ایک ہی جگہ جمے ہوئے ہیں۔“قدیم سوچ کا مالک داستان گودانا ہے۔ ایسی دانائی بھی اب کم کم ہی رہ گئی ہے۔
میں اس کی باتیں سن کر شرمندہ ہو اہوں۔میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔مجھے خاموش دیکھ کر وہ کہنے لگا؛”باتوں میں بات کہاں نکل گئی ہے۔ ایک بات تمھیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں اگر سمجھ آگئی تو زندگی سکھی گزرے گی ورنہ تم بھی محبت کی بیماری میں ہر دور میں مبتلا ہوتے رہو گے۔ اپنی محبت سے وفا کرو، اسی میں کامیابی ہے۔یہ اڑتے پنچھی کبھی قابو میں نہیں آتے انہیں قید کرنا بھی چاہو تو ہر وقت آزادی کی فکر میں رہتے ہیں۔جہاں موقع ملا اڑ گئے۔ تم عقل مند ہو اور میرا اشارہ بھی عقل مندوں کے لئے ہے۔ یاد رکھو جو تمھارا ہے اسے آزادی دو،پر دو، اڑنے دو اگر وہ تمھارا ہے تو لوٹ کر تمھارے پاس ہی آئے گا۔“داستان گو دانائی کی باتیں سنائے جا رہا ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)