پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اس وقت سموگ ایک روگ بن چکا ہے کیوں کہ سموگ کی وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کیلئے معمولات زندگی انجام دینا ایک مشکل امر بن چکا ہے۔ سب سے پہلے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سموگ ہے کیا چیز کیوں کہ دھند کے تو ہم عادی تھے ہی کہ جوں ہی سردیاں شروع ہوتی تھیں تو دھند شروع ہو جاتی تھی لیکن اب اس کے ساتھ سموگ بھی آنا شروع ہو گئی ہے تو بنیادی طور پر جب گردوو غبار اور آلودگی کے ذرات مل کر دھند جیسا ماحول بناتے ہیں تو اسے سموگ کہتے ہیں اور یہ اتنی جان لیوا ہے کہ امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی نے گزشتہ برس لاہور شہر کے متعلق ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی کہ لاہور کے باسی جس ماحول میں رہ رہے ہیں اس کی وجہ سے ان کی زندگی کے سات سال کم ہو رہے ہیں یعنی اگر اوسطاً ایک عام پاکستانی شہری فرض کریں ساٹھ سال تک جی رہا ہے تو وہیں ایک لاہور کے باسی کی اوسط عمر اس سے سات سال کم ہورہی ہے۔ اور اس کے علاوہ لاہور اور خصوصاً پنجاب کے باسی اس آفت کا شکار ہو رہے ہیں تو وہ مختلف بیماریوں کا بھی شکار ہو رہے ہیں جس میں سانس کی تکلیف کی بیماریاں سب سے اوپر ہیں اور اس کے علاوہ اور مختلف قسم کی بیماریوں کے لوگ شکار ہو رہے ہیں جو ان کے معیار زندگی پر برا اثر ڈال رہی ہے۔ سموگ کے بنیادی اجزا کی بات کی جائے تو اس کا سب سے بڑا فیکٹر،دھواں چھوڑتی ہوئی گاڑیاں ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق سموگ کے بننے میں دھواں چھوڑتی گاڑیوں کا حصہ تقریبا پچاس فیصد ہے اور اس کے علاوہ بے ہنگم قسم کی کنسٹرکشن کا بھی اس میں حصہ شامل ہے اور پھر جو ہمارے کسان بھائی گندم اگانے کیلئے دھان کی فصل کاٹنے کے بعد جو اس کی جڑ کو ختم کرنے کیلئے آگ لگاتے ہیں اسکا بھی اس میں حصہ شامل ہے لیکن یہ اتنا زیادہ نہیں ہے کہ اس کو ہی سب کا مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ اس میں جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ دھواں چھوڑتی ہوئی گاڑیاں اور اور اس کے علاوہ فیکٹریوں کا آلودہ دھواں بھی شامل ہے کیوں کہ ہمارے ہاں قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل در آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔گاڑیاں بغیر کسی فٹنس سرٹیفکیٹ کے سڑکوں پر دوڑر ہی ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے اور اسی طرح فیکٹریوں کا زہریلا دھواں بھی اسی فضا میں شامل ہو رہا ہے اور لاہور کے ارد گرد ہزاروں ایسی فیکٹریاں ہیں جو زہریلے دھوئیں کا موجب بن رہی ہیں ایسا نہیں ہے کہ ان فیکٹریوں کو ہی بند کر دیا جائے لیکن دھواں اور اس کے اخراج کے متعلق ایک طریقہ کار ہے جس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے کہ جب بھی اس طرح کا معاملہ سامنے آتا ہے تو تھوڑی سی سختی ہوتی ہے اور جب سموگ سے راحت ملتی ہے تو پھر ان فیکٹریوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے اور پاکستان میں ہماری انتظامیہ کس طرح کام کرتی ہے اس کے متعلق تو سب ہی جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر میں خصوصا لاہور شہر کی بات کروں تو لاہور شہر میں ہزاروں کے حساب سے ٹریکٹر ٹرالیاں مٹی، ریت اور اس طرح کا تعمیراتی سامان لے کر رات گئے داخل ہوتی ہیں لیکن آج تک ان گاڑیوں کو روکنے کی جرأت کسی کو نہیں ہوئی اور میرے خیال میں وہ شہروں میں سب سے زیادہ
آلودگی پھیلانے کا باعث ہیں کیونکہ ہمارے ہاں کھلی ٹریکٹر ٹرالیوں کا رواج ہے تو ٹریکٹر ٹرالی والے کیا کرتے ہیں کہ ٹرالی پر اوور لوڈ ریت یا مٹی لادی اور اس کے اوپر پانی کا چھڑکاؤ کیا اور چل دیتے ہیں شہر کی جانب اور جب شہر میں داخل ہوتے ہیں تو پانی بھی خشک ہو چکا ہوتا ہے اور پھر پورے شہر میں جہاں جہاں سے یہ ٹریکٹر ٹرالیاں گزرتی ہیں تو گرد و غبار اور ذرات چھوڑتی ہوئی جاتی ہیں۔چونکہ سردیوں میں ہوا کی کثافت زیادہ ہوتی ہے تو یہ ذرات اوپر اٹھنے کی بجائے نیچے ہی رہ جاتے ہیں تو اس طرح پورے شہر میں ایک دھند کا سا ماحول بن جاتا ہے جسے ہم سموگ کہتے ہیں اور میرے خیال میں اگر شہر میں ان ٹریکٹر ٹرالیوں کا داخلہ اس وقت تک بند کر دیا جائے جب تک یہ ڈھکی ہوئی نہ ہوں۔دوسرا ٹریکٹر ٹرالیوں کو اب بدلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ترقی یافتہ ممالک یا مہذب ممالک میں اس طرح موت بانٹتی ٹریکٹر ٹرالیوں کو سڑک پر چلنے کی اجازت ہی نہیں ہے اور اس طرح کی کھلی ٹرالیاں میرے خیال میں پاکستان اور انڈیا کے علاوہ شاید دنیا میں کہیں چلتی بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ یہی دو ممالک اور اس کے دو شہر آلودگی کا منبع بنے ہوئے ہیں۔اگر ٹریکٹر ٹرالیوں کی جگہ بند وین میں میٹریل شہر میں آئے تو سموگ کے روگ پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ یہ کوئی آسمانی آفت نہیں ہے، یہ ہمارا اپنا کِیا دھرا ہے، ہمارے اپنے ہی گناہوں کا بوجھ ہے جس کی وجہ سے سردیاں اب لوگوں کیلئے عذاب بنتی جا رہی ہیں، اس لئے اس پر ہمارے حکمرانوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے اور لانگ ٹرم پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے، درختوں اور سبزے کو شہر میں اگانے کی ضرورت ہے تا کہ شہر کی فضا صاف ہو،فضا صاف ہو گی تو یہ سموگ بھی نہیں ہو گی اور لوگ مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہونے سے بھی بچ سکیں گے اور اس کیلئے ایگزیکٹو آرڈر پاس کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ان پر فوری عمل ہو سکے اور لوگ سموگ میں سانس لینے کی بجائے تازہ ہوا میں سانس لے سکیں۔