مالی سجاد نے کہا لان میں پنیری لگانے کا موسم آ گیا ہے۔ نرسری سے پنیریوں کے گملے اٹھوا دیں۔ میں نے سوچا کہتا تو یہ بھی ٹھیک ہے موسم نکل گیا تو لان بغیر پھولوں کے ویران نظر آئے گا۔ سو اسے اگلے دن صبح سویرے آنے کو کہا۔ کچھ ہی فاصلے پر نرسری تھی،ہم وہاں گئے اس نے مختلف قسم کے پھولوں کے گملوں کا ریٹ پوچھا، بھاؤ تاؤ کیا اور تیس سے زیادہ گملے خرید لئے جن میں رنگ برنگے پودوں کی پنیریاں لگی ہوئی تھیں۔ نرسری کا مالک ایک ادھیڑ عمر شخص تھا۔جو پودوں کے بارے میں ایسے بتا رہا تھا جیسے بہت بڑا زرعی سائنسدان ہو۔ میں نے پوچھا تمام پنیریاں سبز ہوتی ہیں بعد میں انہی میں سے سینکڑوں اقسام کے پودے اپنی رنگین شکلیں لے کر نکلتے ہیں۔ تمہیں کیسے پتہ لگتا ہے کہ کس پنیری سے کس رنگ کا پھول نکلے گا۔اس کا نام محمد رفیق تھا۔ میری بات پر ہنسا اور کہنے لگا تجربہ سب کچھ سکھا دیتا ہے، جیسے ڈاکٹر کو ہر بیماری کا پتہ ہوتا ہے یا جیسے انجینئر اپنے شعبے کی ہر رگ کو پہچانتا ہے۔ میں نے ایسے ہی ازراہ تفنن پوچھا، کوئی ایسا پودا بھی ہے جو تم نے آج تک نہ دیکھا ہو۔ کہنے لگا ہاں ایک پودا ہے جسے دیکھنے کی خواہش ایک عمر سے ہے مگر کہیں نظر نہیں آیا۔ میں نے حیرانی سے کہا اچھا کوئی ایسا پودا بھی ہے۔ کون سا پودا ہے وہ؟ محمد رفیق نے کہا ”سچ کا پودا“۔ اس کے جواب نے مجھے چونکا دیا۔ یہ تو کوئی بہت بڑا تخلیق کار لگتا ہے۔ یہ منٹو جیسی بات ایک نرسری والے کی زبان سے حیرت تو ہونی ہی تھی۔ میں نے کہا ”کیا سچ کا بھی کوئی پودا ہوتا ہے؟“ اس نے جواب دیا کیوں نہیں ہوتا۔ جہاں جھوٹ پروان چڑھتا ہے وہاں سچ بھی چڑھتا ہوگا۔ ظاہر ہے، اس کا پودا ہی پروان چڑھے گا۔ مجھے اس کی باتیں دلچسپ لگیں۔ میں نے مالی سجاد سے کہا تم پودے منتخب کرو میں ذرا محمد رفیق سے باتیں کر لوں۔ وہ مجھے کہنے لگا سر جی میں جو یہ پنیریاں بیچ رہا ہوں، مجھے معلوم ہے جو پنیری بیچوں گا اس کا رنگ وہی نکلے گا جو میں بتاؤں گا، کیونکہ سارا ہیرپھیر زمین کے اوپر ہوتا ہے نیچے نہیں ہوتا۔ یعنی ایسا نہیں ہوتا آپ گندم بوئیں اور زمین سے مکئی نکل آئے، پھر یہ بھی نہیں ہوتا کہ آپ گلاب لگائیں اور چنبیلی نکلے۔ زمین کے نیچے ناانصافی ہے اور نہ بے ایمانی، بڑے کھرے انداز سے وہی اگتا ہے، جو ہم بیچتے ہیں بہت فلسفیانہ باتیں کررہا تھا اور میں محو سماعت تھا۔پھر اس نے کہا کاش کوئی سچ کا پودا بھی ہوتا جسے ہم لگاتے اور زمین سے سچ ہی برآمد ہوتا۔ ایسے پودے نایاب کیوں ہیں؟ کیوں ہم سچ بوتے ہیں اور جھوٹ کی فصل کاٹتے ہیں۔ محمد رفیق نے بتایا وہ تین بار یورپ کا سفر کر چکا ہے۔ وہاں اس کے بیٹے رہتے ہیں جو اسے بلا لیتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا میں جب بھی یورپ جاتا ہوں، یہ ضرور سوچتا ہوں کہ کیا ان کے آباؤ اجداد نے سچ کا پودا بویا تھا، جو آج وہ سچ بولتے ہیں اور سچ کی آبیاری کرتے ہیں۔ اس نے بتایا ایک بار میں لندن کی ایک نرسری میں گیا۔ میرا بیٹا بھی میرے ساتھ تھا۔ میں نے اپنے بیٹے سے کہا ان سے پوچھے کیا ان کے پاس سچ کا پودا بھی ہے۔ اس نے پوچھا تو وہاں موجود نرسری کے ایک نمائندے نے بڑا بامعنی جواب دیا، اس نے کہا سچ کا پودا زمین میں نہیں معاشرے میں اگتا ہے۔اسے لگانا نہیں پڑتا بلکہ اپنے عمل کا حصہ بنانا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سچ کا پودا بہت تناور ہے۔ کسی کی جرأت نہیں اس تناور درخت کے برعکس کام کرے، اس لئے سچ کی ہر طرف فراوانی نظر آتی ہے۔
اتنی دیر میں مالی سجاد نے آکر بتایا اس نے پودے نکال لئے ہیں محمد رفیق نے پودوں کے گملے گنے، حساب بتایا اور بتایا آپ سچ نہیں مانیں گے مگر حقیقت یہ ہے میں نے آپ کو وہ ریٹ لگایا ہے جو کسی اور کو نہیں دیتا کیونکہ آپ نے مجھ سے ایسی باتیں کی ہیں جو کوئی دوسرا نہیں کرتا۔میں واپس آیا تو خاصا تھکا ہوا تھا، واک کے بعد آرام کرنے کی بجائے میں سجاد مالی کے ساتھ نرسری آ گیا تھا،لیکن آرام کے لئے بستر پر لیٹنے کے باوجود میرا ذہن پوری طرح بیدار تھا۔ مجھے محمد رفیق کی باتیں رہ رہ کر یاد آ رہی تھیں۔ میں سوچنے لگا 77سال ہو گئے ہمارے معاشرے میں تو کسی نے سچ کا پودا لگایا ہی نہیں۔ جھوٹ کو فروغ دیا جاتا رہا اور اس کی پرورش کے لئے ٹرالیاں بھربھر کے مکروفریب، منافقت اور فراڈ کی کھاد ڈالی گئی۔ یہاں کیسے کیسے واقعات نہیں ہوئے، انہین جھوٹ کی ملح کاری میں چھپا دیا گیا۔ کمیشن بنتے رہے، رپورٹیں تیار ہوتی رہیں لیکن سچ کو بتانے کے لئے نہیں چھپانے کے لئے۔ ہماری اشرافیہ نے جھوٹ کو وتیرا بنا لیا تو نچلے طبقے نے اس کی پیروی کی۔ آج یہ عالم ہے کہ قسمیں کھا کر، قرآن اٹھا کر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ سچائی کا پودا جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لگا تھا تو نہ صرف کافروں نے بھی انہیں صادق و امین مانا تھا بلکہ اس سچ کی وجہ سے اسلام پوری دنیا میں پھیل گیاتھا اور مسلمانوں کی عملداری مشرق سے مغرب تک قائم ہو گئی تھی۔ سوال یہ ہے سچ کا یہ پودا آنے والے زمانوں میں مسلمانوں کی میراث کیوں نہ بن سکا۔ اسلاف کی اس میراث کو گنوانے کی بات کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا جب اس کو یورپ میں دیکھتے ہیں تو دل پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔1947ء میں ایک سچ کی بنیاد پر ہم نے یہ عظیم پاکستان حاصل کیا تھا۔ سچ یہ تھا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے اور ہمیں تہذیبی و مذہبی شناخت کے لئے ایک علیحدہ وطن چاہیے۔ قائداعظمؒ نے ساری زندگی سچ بولا اور اس سچ کی بنیاد پر وہ علیحدہ وطن پاکستان بنانے میں کامیاب رہے۔ ایسا کیوں ہوا کہ پاکستان بننے کے ساتھ ہی سچ اس معاشرت سے رخصت ہوتا چلا گیا۔ آج تک یہ سچ سامنے نہیں آ سکا۔ قائداعظمؒ کو زیارت کیوں بھجوا یا گیا تھا جہاں کسی ہسپتال کا نام ونشان تک نہیں تھا، ان کی ایمبولینس کیوں خراب ہوئی تھی اور موت کے اسباب کیا تھے۔ اس کے بعد توگویا جھوٹ کی ایک طوفانی بارش ہے جو اس معاشرے پر ہوتی رہی اور سچ یہاں سے مستقل رخصت ہو گیا۔
آج یہ عالم ہے کہ سچ جنس نایاب بن گیا ہے۔ کسی کاروبار میں، کسی رشتے میں اور کسی شعبے میں سچ برقرار نہیں رہا۔ دکاندار گاہک کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں، سیاستدان عوام کو جھوٹے نعروں اور وعدوں کے سبز باغ دکھا کر بے وقوف بناتے ہیں، حکومت خوشحالی اور ہنگامی کم ہونے کے جھوٹے دعوے کرکے کام چلاتی ہے۔ عدالتوں میں جھوٹ کی وکالت میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ ملاوٹ شدہ اشیاء بیچنے والے خالص ہونے کے جھوٹ کو اپنی کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ کسی کو کسی پر اعتبار نہیں رہا، سب ایک دوسرے کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں، آخر کیا ہوا کہ ایک اسلامی معاشرہ جو دین متین کی وراثت کا دعویدار ہے، اس طرح سچ کو دیس نکالا ہے کہ جھوٹ کی آماجگاہ بن گیاہے۔آخر اس ملک میں سچ کا پودا کب لگے گا اور کب ہم اس بے برکتی کے عذاب سے نکلیں گے جو اس جھوٹ کی فراوانی کے باعث ہمارا مقدر بن گئی ہے۔