وزیراعظم نواز شریف کا دورہ ¿امریکہ

وزیراعظم نواز شریف کا دورہ ¿امریکہ

  

وزیراعظم میاں نواز شریف ان دنوں امریکہ کے 4روزہ سرکاری دورے پر واشنگٹن میں موجود ہیں ۔ وہ یہ دورہ امریکی صدر باراک اوباما کی دعوت پر کر رہے ہیں اور گذشتہ پانچ برسوں کے دوران وطن عزیز کے کسی وزیراعظم کا یہ پہلا دورہ ہے ۔ اس دورہ کو بین الاقوامی سیاسی اور سفارتی حلقوں میں نہایت اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور عالمی میڈیا نے اپنی توجہ اس پر مرکوز کر رکھی ہے ۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو اگرچہ روایتی انداز میں نشیب و فراز ہی کا سامنا رہتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں ان تعلقات کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو چکی ہے جس کا ایک بڑا سبب یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سرخیل دستہ کا کردار ادا کیا لیکن اس کے باوجود پاکستان کے عوام کو سخت معاشی اور سماجی حالات کا سامنا ہے ۔ ملک کے کئی شہروں میں امن و امان کی صورت حال کو تسلی بخش تصور نہیں کیا جاتا اور دوسری طرف معاشی اور اقتصادی ترقی کی رفتار متاثر ہوئی ہے ۔ اس تناظر میں ڈرون حملے ، امریکہ کا ناقابل فہم سفارتی رویہ اور خطہ کے تزویراتی احوال سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ۔  امریکہ روانگی سے قبل اسلام آباد ائیرپورٹ پرمیڈیا سے گفتگو کے دوران وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ جمہوریت پاکستان کی قوت ہے، تمام ادارے ملکی وقار اور قومی مفاد میں میرے ساتھ ہیں۔ دورہ امریکہ میں دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری پر ترجیحاً بات کروں گا۔ خود مختاری کیلئے معاشی استحکام اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دورہ امریکہ میں امریکی عہدیداروں سے خطے کی صورتحال خصوصاً افغانستان کی صورتحال پر بات چیت کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت لوگوں کے تحفظ اور سلامتی کیلئے ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ ریاستی ادارے ملک کے مفاد اور وقار کے تحفظ کے لئے ان کے ساتھ ہیں، ہماری اولین ترجیح عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف کی صدر اوباما سے ملاقات کے دوران افغانستان سمیت کئی امور پر تفصیل سے بات چیت ہو گی۔ وزیراعظم امریکہ کے نائب صدر جوبائیڈن، وزیر خارجہ جان کیری اور ممبران کانگریس سے بھی ملاقاتیں کریں گے ۔وہ پاکستان ،امریکہ بزنس کونسل اور امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ برائے امن کی تقریبات سے خطاب کریں گے۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ 2014 میں امریکی اور اتحادی فوجوں کے انخلاءکے پس منظر میں وزیراعظم نواز شریف کا دورہ امریکہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس دورے میں پاک افغان تعلقات کے علاوہ پاک بھارت تعلقات اور ڈرون حملوں کی بندش بارے بات ہو گی۔ وزیراعظم پاکستانی مصنوعات کی امریکی منڈیوں تک بآسانی رسائی اور برآمدات کو بڑھانے پر بات چیت کریں گے جبکہ پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری کو بڑھانے خصوصاً توانائی کے بحران کے حل میں امریکی تعاون کے حصول پربھی بات چیت کی جائے گی۔امریکہ جاتے ہوئے لندن میں مختصر قیام کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ صدر بارک اوباما سے ملاقات میں ڈرون کا معاملہ اٹھاﺅں گا۔امریکی صدرکو آگاہ کیا جائے گا کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری اور آزادی کی خلاف ورزی ہیں اور امریکہ کو پاکستان میں اپنی ڈرون مہم فوری طور پر روک دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر ضرور حل ہونا چاہئے،خواہ یہ بات بھارت کو ناگوار ہی کیوں نہ گذرے۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت طالبان سے مذاکرات کی حمایت کرتی ہے اور طالبان کو بھی چاہئے کہ وہ سنجیدہ رویہ اختیار کریں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ مہنگائی عوام پر گراں گذررہی ہے لیکن اس کا کوئی آسان حل بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی ڈرون حملوں پر ان کی پالیسی واضح ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کیلئے چیلنج ہیں، یہ ہماری آزادی پر حملے ہیں، جو قطعی طور پر ملک کے مفاد میں نہیں اور انہیں بند ہونا چاہئے۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ میں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے حالیہ خطاب میں دنیا کے سامنے پاکستان کا نکتہ نظر پیش کیا تھا اور اب اسی واضح موقف کو صدر اوباما کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ گذشتہ دنوں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس میں کیا گیا تھا۔ یہ محض کسی ایک جماعت کا فیصلہ نہ تھا لیکن اس کے بعد سے جو کچھ ہورہا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ بات چیت شروع ہونے کے فوری بعد ہی مسائل پیدا ہوگئے، حملے ہوئے ہیں اور مذاکرات کا عمل رک گیا جبکہ اعتماد کی فضا مکدر ہوگئی۔ انہوں نے طالبان سے اپیل کی کہ وہ امن مذاکرات کے بارے میں کیا چاہتے ہیں، اس پر غور کریں تاہم مذاکرات کا عمل سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ وہ صدر اوباما سے کہیں گے کہ امریکہ سمیت پوری دنیا کا فرض ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مداخلت کریں جو دنیا کا ایک دیرینہ تنازعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے بھارت یہ بات پسند نہیں کرے گا لیکن وہ اس بات پر زور دیں گے کہ تنازعہ کشمیر جنوبی ایشیاءمیں نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے جسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا اور یہ بات دنیا کے اپنے مفاد میں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ میں نے 1999 ءمیں اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کو بتایا تھا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے حل کیلئے جس قدر وقت دیتا ہے اگر اس کا دس فیصد اس خطے پر دے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات حل ہوجائیں گے اور یہ بھی کہا تھا کہ جنوبی ایشیاءکا امن و استحکام مسئلہ کشمیر کے حل سے جڑا ہے۔ دونوں ممالک اپنے وسائل اسلحہ کی دوڑ پر خرچ کررہے ہیں جو کسی طور منصفانہ بات نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ پاکستان ایٹمی توانائی اور ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال پریقین رکھتا ہے جو پاکستان کی اقتصادی ترقی کیلئے ضروری ہے۔ پاکستان کا سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی پر حق ہے اور اسے اپنے اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوا جو عوام پر گراں گذررہا ہے اور انہیں مسائل کا سامنا ہے لیکن جب بجلی کے بحران پر قابو پالیا جائے گا تو نرخ بھی کم کردیئے جائیں گے تاہم بحران پر قابو پانے میں کچھ وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے قوم کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ لوڈشیڈنگ ختم ہونی چاہئے لیکن فی الحال اس مسئلہ کا کوئی فوری حل بھی نہیں ہے۔ گردشی قرضوں کی صورت میں بھاری رقوم ادا کرنی ہیں لہٰذا بجلی کے نرخ بڑھانے پڑے، حکومت بڑے چیلنجوں سے نمٹ رہی ہے جن میں بجلی کی چوری اور بے قاعدگیاں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے غیرملکی فوجوں کے انخلاءکے بعد پاکستان کسی ایک فریق کی حمایت نہیں کرے گا، ہمارا وہاں کوئی فیورٹ نہیں ہے۔ ہم پڑوسی ملک سے پرامن تعلقات چاہتے اور ہم کسی مخصوص گروپ کی نہیںبلکہ افغان حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔    یہاںیہ بات قابل ذکر ہے کہ ہفتہ کے روز امریکہ نے پاکستان کو ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد خاموشی سے جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ امریکی حکام کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اب اس قدر بہتر ہوگئے ہیں کہ پاکستان کی امداد بحال کردی جائے، رقم کی فراہمی کا سلسلہ نئے سال کے آغاز میں شروع کردیا جائے گا۔ کانگریس نے زیادہ تر رقم کلیئر کردی۔ امریکی محکمہ خارجہ اور یو ایس ایڈ نے جولائی اور اگست میں کانگریس کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا تھا کہ وہ دہشت گردی کےخلاف صلاحیتیں بڑھانے کیلئے پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔    دریں اثناءایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف امریکی صدر اوباما سے ملاقات میں ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستانی قوم کا موقف پیش کریں گے۔ وزیراعظم نوازشریف کی امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات بڑی اہم ہے اور یہ ملاقات پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ معاملات پر امریکہ کا اپنا اور پاکستان کا اپنا موقف ہے یہ ملاقات مزید مثبت راہیں تلاش کرنے میں مدد دے گی۔وزیراعظم نواز شریف کا حالیہ دورہ امریکہ اس تناظر میں بھی خصوصی اہمیت کا حامل تصور کیا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اب تک پاکستان میں کئے گئے 300ڈرون حملوں میں 400عام شہریوں سمیت 2200افراد ہلاک ہو چکے ہیں ۔ دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 50ہزار سے زائد پاکستانی باشندے کام آ چکے ہیں۔ بجا طور پر توقع کی جا رہی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف امریکی صدر اور حکومت پر یہ حقیقت (ایک مرتبہ پھر) واضح کرنے میں کامیاب ہوں گے کہ پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی نہ صرف اس خطہ بلکہ عالمی امن کے استحکام کی کلید ہے ۔     ٭

مزید :

کالم -