سی پیک کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشیں
ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو ناکام بنانے کے لئے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی کالعدم تنظیمیں لشکرِ جھنگوی ، تحریکِ طالبان پاکستان اور افغان خفیہ تنظیم این ڈی ایس سرگرمِ عمل ہیں، جن کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ایسی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے راہداری کے روٹ پر انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے دفاتر قائم کئے جائیں گے۔ پاکستان میں سیکیورٹی کے حوالے سے پچھلے تین سال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔آئی بی کا ادارہ مُلک کے اہم منصوبوں کی آڈٹ رپورٹ حکومت کو فراہم کرتا ہے، جن میں بجلی، ایئر پورٹ وغیرہ کے منصوبے بھی شامل ہیں،ملکی مفاد و سلامتی کی خاطر آئی بی اور آئی ایس آئی کو فون مانیٹر کرنے کی اجازت ہے۔ انٹیلی جنس بیورو کی معلومات عموماً سو فیصد درست ثابت ہوتی ہیں۔ آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کو بریفنگ دے رہے تھے، بریفنگ کی روشنی میں قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے ادارے کی کارکردگی کو سراہا۔
آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو جو معلومات دی ہیں وہ کافی چونکا دینے والی ہیں،خصوصاً جب وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ آئی بی کی معلومات سو فیصد درست ثابت ہوتی ہیں تو پھر سوچنے والی بات یہ ہے کہ سی پیک کے خلاف سازشوں کا جال کتنا مضبوط ہے اور اس کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں۔ بعض کالعدم تنظیمیں بھی اِس راہداری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے سرگرم ہیں، تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کے رابطے ’’را‘‘ سے بھی ہوں گے، کیونکہ ’’را‘‘ کے پیشِ نظر بھی سی پیک کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا مذموم مقصد ہے، بلوچستان سے ’’را‘‘ کا جو افسر گرفتار ہوا ہے وہ بھی اعتراف کر چکا ہے کہ وہ سی پیک کے منصوبے کے راستے میں روڑے اٹکانے کے لئے سرگرم عمل تھا اور اُس نے بلوچستان میں جاسوسی کی سرگرمیوں کا نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا، اِسی طرح افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے کہ وہ بھی سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانے کی سازشوں میں مصروف ہے،تو لامحالہ بھارتی خفیہ ادارے کے ساتھ بھی اس کا ربط ضبط ہو گا۔ گزشتہ دِنوں ایک افغان افسر بھی گرفتار ہو چکا ہے، جس نے تفتیش میں تسلیم کیا تھا کہ وہ ’’را‘‘ کے ساتھ مل کر ایسی تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھا،جن کا مُدعا سی پیک کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔
گزشتہ روز پاکستان میں چین کے سفیر سن وی ڈونگ نے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی اور اُنہیں بتایا کہ سی پیک کے منصوبے کی بروقت تکمیل کے لئے پاکستان میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے،غیر یقینی سیاسی صورتِ حال منصوبے کے مفاد میں نہیں، عمران خان نے چینی سفیر پر واضح کیا کہ اُن کی پارٹی اِس منصوبے کے خلاف نہیں، چینی سفیر کی یہ ملاقات ظاہر کرتی ہے کہ چین اِس منصوبے کو کتنی اہمیت دیتا ہے اور اِس کی بروقت تکمیل کے لئے کوشاں ہے، منصوبے کو درپیش خطرات کے پیش نظر ہی فوج کے جوانوں پر مشتمل ایک خصوصی سیکیورٹی فورس بھی تشکیل کی گئی ہے،جو منصوبے پر کام کرنے والے انجینئروں اور فنی ماہرین کی حفاظت کا فریضہ انجام دے گی۔ آئی بی کے سربراہ کی بریفنگ کی روشنی میں تو حفاظتی انتظامات کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے اِس ضمن میں جن دو کالعدم تنظیموں کے نام لئے ہیں وہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں اور عین ممکن ہے کہ اُنہیں اپنی سرگرمیوں کے لئے درکار سرمائے کے لئے بھارتی ادارے کی معاونت حاصل ہو۔ کراچی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ کرپشن سے حاصل کی ہوئی دولت دہشت گردی کے مقاصد میں استعمال ہوتی رہی ہے اِس لئے جو لوگ پاکستان کے اندر کسی نہ کسی انداز میں سی پیک کی براہِ راست یا بالواسطہ مخالفت کر رہے ہیں اُن کے غیر ملکی روابط کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
افغان حکومت نے بظاہر تو اِس منصوبے کی حمایت کی ہے،لیکن اُس کے خفیہ اداروں کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ وہ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لئے کوشاں ہیں تو پھر پاکستان کے اداروں کو زیادہ وسیع پس منظر میں اِس تمام صورتِ حال پر نظر رکھنی ہو گی اور صرف آئی بی کو ہی نہیں قومی سلامتی کے متعلق دوسرے ایسے اداروں کو مل کر زیادہ مربوط کوششیں کرنا ہوں گی،کیونکہ جو منصوبہ عالمی سازشوں کا محور بن چکا ہے اس کی ناکامی کے لئے مُلک بھر میں سازشوں کا جال پھیلا کر ہی دشمن کامیابی حاصل کر سکتے ہیں،اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ ہمارے ادارے اِس سلسلے میں چوکس ہیں۔ گزشتہ دِنوں بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری نے بھی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت سی پیک کو ناکام بنانے کے لئے بلوچستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اُن کے پاس شواہد موجود ہیں اور وہ اِس سلسلے میں وزیراعظم سے بات بھی کریں گے۔ اب معلوم نہیں کہ ان کی وزیراعظم سے بات ہوئی یا نہیں،لیکن آئی بی کے سربراہ کی معلومات کی روشنی میں اب اِس منصوبے کی حفاظت کے لئے زیادہ بہتر اور ہر لحاظ سے فول پروف انتظامات کی ضرورت ہے۔
دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں پر اگرچہ بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے تاہم وہ مایوسی کے عالم میں اِدھر اُدھر کارروائیاں کر کے بعض اوقات بڑا نقصان اب بھی پہنچا رہی ہیں جیسے کہ بلوچستان میں وکلاء کو ٹارگٹ کر کے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور سول ہسپتال کوئٹہ کے اندر سینئر وکلا کی ایک بڑی تعداد کو شہید کر دیا گیا۔ یہ منظر نامہ انتہائی خوفناک ہے اور ایسے لگتا ہے کہ خوشحالی کے ایک بڑے منصوبے کو روکنے کے لئے اندرونی اور بیرونی دشمن سب اکٹھے ہو گئے ہیں، جنہیں ناکام بنانے کے لئے ہماری سیکیورٹی فورسز(انٹیلی جنس اداروں سمیت) غیر معمولی صلاحیتوں کے ساتھ کارہائے نمایاں انجام دیتی رہیں گی، تو سی پیک کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے گا۔