سیف سٹی پراجیکٹ ۔۔۔ نئے پولیس کلچر کا آغاز
یوں تو وطن عزیز کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن ان میں سرفہرست دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔ دہشت گردی نے ہر صوبہ ، شہر اور شہریوں کو متاثر کیا ہے ۔ آرمی پبلک سکول پشاور کے واقعہ کے بعد ، حکومت ، فوج اور شہریوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ اپنے پیارے ملک سے دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے اور اس مقصد کے لئے نیشنل ایکشن پلان مرتب کیاگیا۔ پاک فوج نے شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لئے ضرب عضب کا آغاز کیا جس میں فتح و نصرت ملی ہے اور وہاں پر معمول کی زندگی واپس آگئی ہے۔ صوبوں نے بھی نیشنل ایکشن پلان شروع کیا اور یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ صوبہ پنجاب نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد پر دوسرے صوبوں سے بازی لے گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی قیادت میں ٹھوس ، جامع اور مربوط حکمت عملی مرتب کی گئی جس پر کامیابی سے عمل درآمد جاری ہے ۔ پنجاب حکومت نے صوبہ میں کاؤنٹرٹیر رازم ڈیپارٹمنٹ قائم کیا اور دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے کارپولز فورس اور ڈولفن فورس تیار کی ہے۔
حکومت نے پنجاب کو محفوظ پر امن اور خوشحال بنانے کے لئے سیف سٹی پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے ۔ اس منصوبے پر 12 ارب روپے لاگت آئے گی اور چین کی کمپنی ہیواوے کو اس پراجیکٹ کا ٹھیکہ دیا گیا۔ اس نظام کا مقصد پولیس کی مختلف آپریشنل صلاحیتوں کو ٹیکنالوجی کے ذریعے یکجا کر کے اس کی مجموعی کارکردگی کو بڑھانا ہے جس کے لئے پولیس کے دفاتر اور تھانوں میں کمپیوٹر ہارڈ وےئر کی تنصیب اور پولیس عملے کی تربیت شامل ہے ۔ اس پروگرام کے تحت مرکزی ایمر جنسی کال سنٹر ، ڈسپیچنگ سنٹر ، سٹریٹجک آپریشن ، سی سی ٹی وی کنٹرول کرائسز مینجمنٹ سنٹرسٹریٹ کو باہم مضبوط کر کے زیادہ موثر کر دیا جائے گا ۔ جس سے نہ صرف جرائم کے خلاف بروقت کاروائی ممکن ہو سکے گی بلکہ دہشت گردی پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔ مربوط ایمرجنسی سسٹم کے ذریعے عوامی تحفظ، کاؤنٹر ٹیررازم اور جرائم کا خاتمہ اس منصوبے کی اولین ترجیح ہے۔
اس پروگرام کے تحت لاہو رشہر میں 8 ہزار سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جا رہے ہیں جس سے صوبائی دارلحکومت کے کونے کونے تک قربان میں لائن میں قائم پنجاب پولیس انٹیگریٹڈ کمانڈ کنٹرول اور کمیونیکیشن سسٹم کی رسائی ہوگی۔ اس طرح ڈیوٹی پر موجودڈولفن فور س ایمر جنسی رسپانس یونٹ اور دیگر یونٹس کی 6 ہزار سے گاڑیوں میں نصب کیمروں کے ذریعے انسداد دہشت گردی یقینی بنائی جائے گی ۔انٹرکوآرڈینیشن کے تحت پولیس ، ایمبولینس ، فائر بریگیڈ اور دوسرے اداروں کی خدمات کو یقینی بنایا جائے گا۔ سیف سٹی پراجیکٹ کا اہم کام میٹرو پولیٹن میں ٹریفک مینجمنٹ ہے۔ شہر کی شاہراہوں پر نصب کیمروں کی ذریعے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کی تصاویر حاصل کی جائیں گی اور ای ٹیکٹنگ کے ذریعے انکے گھروں میں چالان بھجوائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کے رش سے متعلق آگاہی دی جائے گی تاکہ شہری اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کے لئے متبادل روٹس استعمال کر سکیں اس سے نہ صرف شہریوں کے وقت بلکہ پٹرول کی بھی بچت ہوگی ۔
سیف سٹی پراجیکٹ سے موثر کرائسز مینجمنٹ سے دنگہ فساد ، جرائم ، تادیبی کاروائیوں سے نمنٹنے اور اشتہاری و مطلوبہ افراد کو پکڑنے میں مدد ملے گی ۔ اس کے علاوہ انٹر نیشنل میگا ایونٹس کی سکیورٹی کو بھی موثر بنایا جائے گا ۔ اس پراجیکٹ کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے اور ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یوم عاشور کے مرکزی جلوس کی پی پی آئی سی 3 کے ذریعے جدید کیمروں سے مانیٹرنگ کی گئی اور اس مقصد کے لئے نثار حویلی سے کربلا گامے شاہ تک 270 کیمرے نصب کےئے گئے ۔ قربان لائن میں جنوبی ایشیا ء کا سب سے بڑا نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے ۔ کمانڈ اور کنٹرول سنٹر میں تعینات افراد کی بھرتیاں شفاف انداز میں میرٹ پر کی گئی ہیں اور انکی تربیت بیرون ملک میں کی گئی ہے ۔ لندن میٹرو پولیٹن پولیس کے افسران نے پولیس کے افسران کی ماسٹر ٹرینر کے طور پر تربیت کی ہے ۔
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے گذشتہ دنوں پاکستان میں اپنی نوعیت کے منفرد اور ایشیاء کے سب سے بڑے پنجاب سیف سٹی پراجیکٹ کا افتتاح کیا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حکومت پنجاب اس پراجیکٹ پر چین کی صف اول کی کمپنی ہواوے کے تعاون سے کام کر رہی ہے اور یہ منصوبہ محنت ، دیانت ، امانت اور شفافیت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں سیف سٹی پراجیکٹ میں 2000 کیمرے لگائے گئے اور اس پر 12 ارب روپے لاگت آئی جبکہ اس کے برعکس لاہور میں اس پراجیکٹ کے تحت 8 ہزار کیمرے نصب کیے جارہے ہیں اور یوں یہ منصوبہ اسلام آباد سے 4 گنا بڑا منصوبہ ہے اور اس پر 12 ارب روپے لاگت آرہی ہے ۔ چین کی کمپنی ہواوے نے اس منصوبے کے لئے 16 ارب روپے کی بولی دی تھی مگر حکومت پنجاب نے بات چیت کر کے اس منصوبے کی لاگت 12 ارب روپے لے آئے یوں قوم کے 4 ارب روپے کی بچت کی گئی ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کی قیادت میں وفاقی اور پنجاب حکومت نے قومی وسائل کی بچت کر کے شفافیت کی جو مثالیں قائم کی ہیں اس کا اعتراف معروف بین الاقوامی ادارے ورلڈ اکنامک فورم نے بھی کیاہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس منصوبے کے لئے بچوں اور بچیوں کی بھرتیاں سفارش کے بغیر صرف اور صرف میرٹ پر ہوئیں ہیں اور انہیں بہترین تربیت دی گئی ہے اور یقین ہے ان نوجوانوں پر جو سرمایہ کاری کی گئی ہے وہ اس کو درست ثابت کرتے ہوئے اسے مثالی بنائیں گے۔ کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر میں جو سکرینیں لگائی گئیں ہیں وہاں پر مانیٹرنگ کی جارہی ہے اور اس منصوبے سے جرائم پیشہ عناصر پر کڑی نظر رکھی جا ئے گی ۔ یہاں سے الارم بیل بجے گی جس سے متعلقہ ادارے الرٹ ہو جائیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بہادر افواج، پولیس اور عوام نے بیش قیمت قربانیاں دی ہیں اور یہ منصوبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردارادا کرے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے 6 دیگر شہروں میں سیف سیٹیز پراجیکٹس شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملتان، بہاولپور، راولپنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور سرگودھا میں یہ منصوبے 2017 کے آخر میں مکمل کر دےئے جائیں گے جبکہ لاہور میں پنجاب سیف سیٹیز کا پہلا منصوبہ مکمل ہوگیاہے اور دیگر مراحل اگلے سال کے اوائل تک مکمل ہو جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ چین کے کونسل جنرل یو بورن نے اس ضمن میں بہت تعاون کیاہے اور چینی کمپنی نے پیشہ وارانہ انداز میں پہلا مرحلہ مکمل کیا ہے ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب مشتاق سکھیرا نے کہا کہ زمانہ بدلنے کے ساتھ سکیورٹی کے انداز بھی بدل چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب پولیس کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جا رہاہے ۔
اس کے علاوہ پنجاب پولیس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کی معاونت سے کئی اہم اقدامات کیے ہیں جس سے نہ صرف تھانہ کلچر میں نمایاں تبدیلی آرہی ہے بلکہ سائلین کی فوری داد رسی بھی ممکن ہو رہی ہے ۔ تھانوں کی کمپیوٹر ائزیشن اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ پائلٹ پراجیکٹ کے تحت لاہور کے تمام تھانوں میں ایف آئی آر اور شکایات کے انداراج کو کمپیوٹرائز کر دیا گیاہے ۔ اس کے بعد یہ سسٹم پنجاب بھر میں رائج کیا جا رہا ہے اور تین چوتھائی تھانوں میں یہ سافٹ وےئر نصب کیا جاچکاہے۔ اس سے جعلی ایف آئی آرز، جعلی گواہوں اور ٹاؤٹ ازم کا خاتمہ ہو گااور تھانہ کلچر کی تبدیلی کی جانب اہم قدم ہو گا۔ بائیو میٹرک تصدیقی نظام کے تحت پنجاب پولیس، سپیشل برانچ، انسداد دہشت گردی فورس اور پنجاب رینجرز کو ایک ہزار بائیو میٹرک مشینیں دی گئی ہیں جو ناکوں پر اور تھانوں میں مشکوک افراد کی تصدیق میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔ ان کا رابطہ نادرا کے ساتھ ہوتا ہے اور شناختی کارڈ نمبر درج کرنے سے مطلوبہ شخص کے کوائف سامنے آجاتے ہیں اس سے دہشت گردوں ، اشتہاری مجرموں کی گرفتاری میں مدد مل رہی ہے ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ہیومن ریسورس مینجمنٹ سسٹم پولیس کے تمام ملازمین کا ڈیٹا ایک جگہ جمع کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے ۔اس سے کئی گھوسٹ ملازمین سامنے آئے ہیں نیز ہر ملازم کی تعیناتی ، تبادلے اور چھٹیوں کا ریکارڈ آن لائن ہو گیاہے۔ مزید براں حکومت پنجاب نے پولیس ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے جامع اقدامات اٹھائیں ہیں جن میں پولیس ملازمین کے سکیلوں میں اضافہ اور شہداء کے لواحقین کی مالی امدادمیں اضافہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔