عراقی فوج نے گھڑی کو واپس 2014ء کی جگہ پر گھما دیا

عراقی فوج نے گھڑی کو واپس 2014ء کی جگہ پر گھما دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 بغداد(این این آئی)کرد سکیورٹی فورسز البیش المرکہ نے شمالی عراق میں سرکاری فوج کی پیش قدمی کے بعد جون 2014ء کے بعد قبضے میں لیے گئے تمام علاقوں کو خالی کردیا ہے۔عراقی فوج کے ایک کمانڈر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر برطانوی خبررساں ایجنسی رائیٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج ہم نے گھڑی کو واپس 2014ء کی جگہ پر گھما دیا ہے۔کردستان کی علاقائی حکومت یا کرد فورسز کی جانب سے اس نئی پیش رفت کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔عراقی فوج نے ایک بیان میں یہ اطلاع دی ہے کہ سرکاری فورسز نے شمالی صوبے نینویٰ سے کردوں کی پسپائی کے بعد گذشتہ تین سال سے ان کے زیر قبضہ چلے آرہے علاقوں کا دوبارہ کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ان میں موصل شہر اور اس کے شمال مغرب میں واقع موصل پن بجلی ڈیم بھی شامل ہے۔عراق کی سرکاری فورسز نے بغداد حکومت کے احکامات پر سوموار کو تیل کی دولت سے مالا مال شمالی شہر کرکوک اور اس کے نواحی علاقوں کا بھی کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور وہاں سے البیش المرکہ کے جنگجو پسپا ہوگئے تھے۔یاد رہے کہ جون 2014ء میں داعش کے جنگجوؤں کی عراق کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں کی جانب یلغار کے وقت کرکوک سے بھی عراقی فوج بھاگ گئی تھی اور اس کے بعد کرد فورسز نے اس صوبے کا سکیورٹی کنٹرول سنبھال لیا تھا۔البیش المرکہ نے عراقی فوج کے خالی کردہ دوسرے علاقوں پر بھی تب امریکہ کی مدد سے قبضہ کر لیا تھا۔عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے خود مختار کردستان میں آزادی کے نام پر ریفرینڈم کے انعقاد کے بعد کرد فورسز کے زیر قبضہ وفاق کے تمام علاقوں کو اپنی حکومت کی عمل داری میں لانے کا اعلان کیا تھا۔امریکہ نے ریفرینڈم کے بعد حیدر العبادی کا ساتھ دیا ہے اور اس نے ریفرینڈم اور اس کے نتائج کو مسترد کردیا تھا جبکہ کردستان کی علاقائی حکومت کے صدر مسعود بارزانی یہ کہہ چکے ہیں کہ آزادی کے حق میں ہاں میں اکثریتی ووٹ رائیگاں نہیں جائے گا اور پْرامن ذرائع سے جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔کردستان میں 25 ستمبر کو منعقدہ اس ریفرینڈم میں قریباً 93 فی صد کرد ووٹروں نے عراق سے علاحدگی اور ایک آزاد ملک کے قیام کے حق میں ووٹ دیا تھا۔اس کے نتائج پر ایران اور ترکی کو بھی تشویش لاحق ہوچکی ہے اور انھیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے کرد بھی آزاد کردستان کے قیام کی صورت میں اس کے ساتھ مل سکتے ہیں۔

مزید :

عالمی منظر -