’’ علم والوں کے ساتھ ایک دوپہر ‘‘
جمعرات، 19 اکتوبر 2017 کی دوپہر اہل علم کے ساتھ تھی، یہ برق رفتاری سے ترقی کرتی ہوئی یونیورسٹی آف گجرات کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم کی طرف سے چئیرمین پاکستان ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد کے اعزاز میں ظہرانہ تھا اور اس کا اہتمام پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج اینڈ کلچر یعنی پلاک کی معروف ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کیا تھا جو یونیورسٹی آف گجرات کی سینڈیکیٹ ممبر بھی ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد بتا رہے تھے کہ پی ایچ ڈی کے لئے اب تک اڑھائی لاکھ سے زائد سپانسرشپس مختلف پروگراموں کے تحت دی جا چکی ہیں۔ بیرون ملک کوئی شخص اسی وقت کسی یونیورسٹی کا استاد بن سکتا ہے جب اس کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہو مگر ہمارے ہاں یہ تعداد دو فیصدہے ، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کے بعد، بڑھ کے اب چھبیس فیصد پر پہنچی ہے، گذشتہ برس اچھے جرنلز میں بارہ ہزار پبلیکشنز شائع ہوئیں جو آج سے سولہ ، سترہ برس پہلے صرف ساڑھے آٹھ سو سالانہ تھیں کہ یونیورسٹیوں کا کام صرف نوجوان نسل کو علم دینا ہی نہیں بلکہ نئے علم کی تشکیل بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے 65 اضلاع ایسے ہیں جہاں یونیورسٹی یا اس کے برابر کوئی ادارہ نہیں ہے وہ اگلے برس کے اختتام تک ہر ضلعے میں ایک ایساادارہ بنانا چاہتے اور ملک میں یونیورسٹیوں کی تعداد تین سو کرنا چاہتے ہیں ۔اس وقت پاکستان میں تیس فیصد طلبا و طالبات پرائیویٹ جبکہ ستر فیصد اعلیٰ تعلیم کے سرکاری اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کے تناسب سے بڑھانے کی بات تو کی جاتی ہے مگر جو بجٹ دستیاب ہے اس میں بھی استعمال ہونے کی شرح جی ڈی پی کی محض1.28 فیصد بنتی ہے۔ پاکستان کے کم ترقی یافتہ 114 اضلاع میں بلوچستان اور فاٹا کے اضلاع شامل ہیں مگر اب وہاں طالب علموں کے تعلیمی اخراجات خود حکومت اٹھا رہی ہے جس کے بعد بلوچستان میں طلبا کی انرولمنٹ دو گنا ہو گئی ہے جبکہ فاٹا میں پہلی یونیورسٹی قائم کئے جانے کے بعد اب اس کے تین نئے کیمپس بنائے جار ہے ہیں۔ اگرچہ یہ محفل جناب امجد اسلام امجد اور جناب اصغر ندیم سید کی موجودگی کے ساتھ علم و ادب والوں کی تھی مگر وہاں اینکرز بھی مدعو تھے۔ ایک اینکر نے سوال کیا کہ یہ یونیورسٹی کس نے بنائی ہے، آپ نے، حکومت نے یا فوج نے، جواب تھا کہ یہ یونیورسٹی حکومت نے بنائی ہے اور میں چونکہ بطور طالب علم شریک تھا لہذا میں خاموشی کے ساتھ سوچنے لگا کہ کیا فوج، حکومت کا ہی ایک ادارہ نہیں ہے بہرحال میری سوچ کی آواز زیادہ سے زیادہ نوید چودھری صاحب تک پہنچی جو خودا س سوال پر بہت حیران تھے تاہم اس وقت ڈاکٹر مختار احمد ایک چونکا دینے والی بات بتا رہے تھے کہ فاٹامیں یونیورسٹی کے قیام میں تاخیرکا باعث سیاستدان تھے اور اب یہاں سوچ کے اینکرانہ معیار کے تحت یہی خیال آ سکتا تھا کہ فاٹا کے سیاستدان وہاں یونیورسٹی بنانے کی راہ میں مخالف تھے مگر چئیرمین ایچ ای سی انکشاف کر رہے تھے کہ وفاق کے زیر اہتمام ہر قبائلی علاقے کا سیاستدان یہ چاہتا تھا کہ مجوزہ یونیورسٹی اس کے علاقے میں بنے۔
ڈاکٹر مختار احمد نے بتایا کہ انہوں نے’ ایجوکیشن ڈپلومیسی‘ کا تصور دیا ہے۔ ترکی اور آسٹریلیا کے ساتھ اس سلسلے میں کمرشل اور اکیڈیمک ٹیکنالوجی پارکس کے ساتھ ساتھ سٹوڈنٹس کی ایکسچینج کے معاہدے بھی کئے جا رہے ہیں۔ دنیا میں اس وقت چار مسلمان ممالک کے تعلیمی معیار کو تسلیم کیا جا رہا ہے ان میں ملائشیاء ، ترکی اور ایران کے ساتھ پاکستان بھی شامل ہے ۔انہوں نے اسلامی دنیا کی جامعات کے وائس چانسلرز کا ایک فورم بھی تشکیل دیا ہے ۔افریکا کو ایک ہزار سکالرشپس دئیے جار ہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم مانگنے کی بجائے دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اب وہ یہ سوچ بھی دے رہے ہیں کہ طلباکونوکریوں کا خواب دکھانے کی بجائے انٹرپرینئیور شپ یعنی چھوٹے اور بڑے کاروباروں کی طرف لایا جائے۔گفتگو میں اس امر پر بھی افسوس کا اظہار تھا کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی صورت میں تعلیم کی فیکٹریاں لگا دی گئی ہیں اور وہاں سے انتہائی ناقص پروڈکٹ تیار ہو کے سوسائٹی میں پہنچ رہی ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف جامعات کی خود مختاری کی وکالت کی جاتی ہے اور دوسری طرف جب مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزیوں پر ان جامعا ت میں مداخلت کی جاتی ہے تو وہ اسے اپنی آزادی کے منافی قرار دیتی ہیں۔
یہ چئیرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا کوئی لیکچر نہیں تھا بلکہ شرکاء کی طرف سے بھی اظہار خیال کیا جا رہا تھا۔ معروف صحافی عبدالروف نے اپنے بارے میں بتایا کہ انہوں نے سی ایس ایس کرنے کے بعد سرکاری ملازمت کرنے کی بجائے گورنمنٹ کالج میں پڑھانا پسند کیا، قاسم علی شاہ اور کچھ دوسرے دوستوں نے بھی پی ایچ ڈی اور اساتذہ کے معیار کا سوال اٹھایا اور میرا کہنا تھا کہ آپ نے گورننس کے معیار کے بارے میں خود ہی کہہ دیا، عملی صورتحال یہ ہے کہ آپ بیرون ملک کے لئے جو سکالر شپس دیتے ہیں انہیں حاصل کرنے والے اساتذہ اپنی تعلیم اور تحقیق مکمل کرنے کے بعد بانڈز بھرنے کے باوجود سلپ ہوجاتے ہیں اور جو سکالرشپس اندرون ملک دئیے جاتے ہیں ان میں اساتذہ پر انتظامی عہدے لینے پر پابندی لگاتے ہوئے انہیں تحقیق کے لئے وقف ہونے کا کہاجاتا ہے مگر وہ چپڑی اور دو، دو کے اصول پر عمل کرتے ہیں۔ یہاں سرکاری جامعات بھی وسائل اور افرادی قوت کی کمی کے نام پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو دھوکا دیتی ہیں۔ میرا کہنا تھا کہ اگر ہمارے اساتذہ ہی بدعنوان ، فریبی اورلالچی ہوں گے تووہ ہمارے بچوں کی کیا تربیت کریں گے۔ اس کے جواب میں انہوں نے غالبا یہ کہا تھا کہ اساتذہ بھی اسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اگر اس کالم میں اس گفتگو کے ساتھ ساتھ کچھ پرلطف فقرے نہ درج کئے جائیں تو پھر تحریر کا مزا کیا ہو۔ ڈاکٹر مختار احمد نے جامعات میں منشیات اور دہشت گردی کے نظریات کے فروغ پر کہا کہ پاکستان میں اب تعلیم کی کمی نہیں بلکہ تربیت کی کمی ہے، استادوں اور والدین نے تربیت کو ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے ایک مشہور سنا سنایافقرہ بھی دہرایا کہ آج سے ستر برس پہلے قائد ایک قوم کے لئے ملک تلاش کر رہے تھے اور اب یہ ملک ایک قوم اور ایک قائد کو تلاش کر رہا ہے۔ا نہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی اپنی شخصیت اور صلاحیتوں میں فرد واحد کے طور پر حیران کردینے والے ہیں مگر جہا ں وہ دو اکٹھے ہوجاتے ہیں وہاں خرابی ہوجاتی ہے اور جہاں دو سے زیادہ ہوجائیں وہاں تباہی مچ جاتی ہے۔ ایک دوست نے سوال اٹھایا کہ ہمارے طالب علم ڈگری لینے کے باوجود چھٹی کی درخواست نہیں لکھ سکتے تواس پر پروفیسر مہدی حسن نے جواب دیا کہ انہیں پڑھاتے ہوئے باون برس ہو گئے اور وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ سٹوڈنٹس ہی نہیں بلکہ ٹیچرز کی اکثریت بھی چھٹی کی درخواست نہیں لکھ سکتی۔ قاسم علی شاہ نے ا س سے پہلے نشاندہی کی تھی کہ جن لوگوں کو استاد بنایا جاتا ہے ان کی اکثریت کو بورڈ پر لکھنا اور اپنے علم کی ترویج یعنی کمیونیکیشن تک نہیں کرنا آتا، جواب ملا کہ اب تمام اساتذہ کی تربیت کو اہمیت دی جا رہی ہے۔
یہ ڈاکٹر صغری صدف ہی تھیں جوبہت سارے نایاب گوہروں کوان کی گوناگوں مصروفیات کے باوجود ایک چھت تلے جمع کرنے میں کامیاب رہی تھیں۔ پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن نے بجا طور پر نشاندہی کی کہ ایک خاتون کی طرف سے ترتیب دی گئی اس محفل میں خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ میں نے دست بستہ عرض کی، سر ہم بھی شریف لوگ ہیں،, ترنت جواب ملا، شرافت کا جینڈر ( یعنی جنس) کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ تاثر نہیں جانا چاہئے کہ علم پر صرف مردوں کی اجارہ داری ہے۔پرتکلف ظہرانے میں عشروں سے میرے ساتھ صحافت کرنے والے عرفان نذیر چودھری اہل علم سے پوچھ رہے تھے کہ آپ ایجوکیشن اور کمیونیکیشن کے معیار کی بات کرتے ہیں، یہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر اینکرز جس تعلیمی صلاحیت کا اظہار اور زبان کا استعمال کر رہے ہیں، اس کے معیار کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟