حکومت اپوزیشن جماعتیں آئینی ترمیم کی رائے شمالی پر پارٹی سربراہ کو حاصل اختیار کے خلاف یکجا
اسلام آباد(صباح نیوز)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف میں حکومت اپوزیشن کی اہم جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) ،پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی آئینی ترمیم کی رائے شماری پر پارٹی سربراہ کو حاصل اختیار کے خلاف یکجا ہوگئیں ۔ پارٹی سربراہ سے یہ اختیار واپس لینے کیلئے اپوزیشن کے آئینی شق 63الف میں ترمیم کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا ۔آئی بی رپورٹ کے تناظر میں ا خفیہ رپورٹس پر کڑی تنقید کی گئی ۔کمیٹی کے ارکان نے موقف اختیار کیا ہے کہ آئین میں اس ترمیم کے شامل ہونے سے آئینی ترامیم کے معاملے پر آئندہ کسی سینیٹر رضاربانی کو رونا نہیں پڑے گا۔ قائمہ کمیٹی نے اعلی ترین افسروں کی کی تقرریوں وترقیوں کے مروجہ طریقہ کار میں اصلاحات کیلئے سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کی سربراہی سب کمیٹی قائم کردی، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اسد حیاء الدین نے کمیٹی میں تصدیق کی کہ وزیراعظم نے اعلی افسروں کی ترقیوں کیلئے انٹیلی جنس رپورٹ کو مدنظر نہ رکھنے کا حکم جاری کیا ہے اس بارے میں وزیراعظم سیکرٹر یٹ سے باقاعدہ طور پر ادارے کو خط بھی موصول ہوا ہے ۔ سیکرٹری نے کہا ہے کہ وزیراعظم سیکرٹر یٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اعلی ترقیوں کیلئے ایسی رپورٹس کو اہمیت نہ دی جائے جنہیں بعد میں کوئی تسلیم نہ کرے اور ادار وں کو بھی ترقیوں اور تقرریوں کے معاملے پر رپورٹس بھیجنے سے منع کردیا گیا ہے۔ کمیٹی نے مالیاتی بل کے حوالے سے پارلیمانی پارٹی کے اختیار کے خلاف ترمیمی بل مسترد کردیا ۔ ترمیم میں یہ اختیار ارکان کو انفرادی طور پر دینے کی تجویز دی گئی ہے قائمہ کمیٹی کا اجلا س چیئرمین جاوید عباسی کی صدارت میں ہوا 37 ارکان پارلیمنٹ کے کالعدم تنظیموں سے مبینہ رابطوں کے بارے میں آئی بی رپورٹ کے تناظر میں ارکان نے خفیہ رپورٹس پر کڑی تنقید کی ،چیئرمین کمیٹی جاوید عباسی اور فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ایک کمیٹی میں ہمارے سامنے ایسا معاملہ بھی آیا تھا جب تینوں اداروں کی رپورٹس الگ الگ تھی ۔ جاوید عباسی نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ سے نااہلی سے متعلق 63الف کو مکمل طور پر کیوں نہیں اڑادیا جاتا اس پر ترمیم کے محرک نے کہا کہ میں اپنی گردن نہیں اڑواسکتا اور نہیں کوئی ایسا ارادہ ہے میں نے متذکرہ ترمیم اس لیے پیش کی ہے کہ آئینی ترمیم کے معاملے پر آئندہ کسی رضاربانی کو نہ رونا پڑے ۔ ترمیم کے تحت آئین میں تبدیلی کیلئے ارکان پارلیمنٹ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرسکیں گے ۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ یہ شق ہمارے ہی دور میں شامل کی گئی تھی اور اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنایا گیا ۔ آئینی ترمیم میں پارٹی سربراہ کی ہدیات کے برعکس ووٹ دینے والا آئین کے تحت نااہل ہوجاتا ہے میں اس ترمیم کو منسوخ کرانا چاہتا ہوں ارکان پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے اور وہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ نہیں کرسکتے ۔ آئینی ترمیم پر کمیٹیوں میں رائے شماری کروائی گئی متذکرہ تینوں جماعتوں کے اراکین بشمول چیئرمین بالترتیب فرحت اللہ بابر ، فاروق ایچ نائیک ،نہال ہاشمی ،سلیم ضیاء،جاوید عباسی اور اے این پی کی خاتون سینیٹر زاہدہ نے ترمیم کی حمایت کی سیکرٹری قانون وانصاف کرامت نیازی نے ترمیم کی مخالفت کی اور بتایا کہ پارٹی سربراہ کے متذکرہ اختیارکی ترمیم سینیٹررضاربانی کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات نے 2010میں اتفاق رائے سے منظور کی تھی ۔سیکرٹری قانون وانصاف کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے سیاسی جماعتیں ارکان پارلیمنٹ کے متذکرہ اختیار کے معاملے پر یکجا ہوگئیں ۔ فنانس بل میں بھی ارکان قومی اسمبلی کو اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ دینے کے اختیار کے بل کو اتفاق رائے مسترد کردے گااور ارکان نے موقف اختیار کیا کہ کسی بھی حکومت کی معاشی و اقتصادی پالیسیوں پر عملدرآمد کیلئے اس کا اختیار برقرار رکھنا ضروری ہے ۔ پارٹی سربراہ کے آئینی اختیار کے متعلق نئی ترمیم کے معاملے پر کمیٹی کے اجلاس کے دوران دلچسپ ریمارکس دیئے گئے ۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نااہلی کی شق کو نکلنا چاہیے آدھا تیتر آدھا بٹیر والی بات نہیں ہونی چاہیے ضمیر ساری آئینی شق پر لاگو ہونی چاہیے ۔ چیئرمین کمیٹی نے بھی ان کے موقف کی تائید کی جس پر ترمیم کے محرک سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس شق کو ختم کرکے میرا اپنی گردن اڑانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ اٹھارویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کے اس اختیار کے بارے میں سینیٹر ایس ایم ظفر نے اختلافی نوٹ دیا تھا اس اختلافی نوٹ سے بھی کمیٹی کو آگاہ کیا جائے گا۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور اعلی افسران کی ترقیوں و تقرریوں کے بارے میں اصلاحات وضح کرنے پر بھی غور کیا گیا دونوں اداروں کے سیکرٹریز نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اس ضمن میں 15نمبر صوابدید پر چھوڑے گئے ہیں ۔ فاروق ایچ نائیک اور 15نمبر خرابی کی اصل وجہ ہے ۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جونیئر افسران کو گریڈ 22کی پوسٹوں پر تعینات کردیا جاتا ہے اب بھی کئی 19اور 20گریڈ کے افسروں 22گریڈ کی پوسٹوں پرکام کررہے ہیں کمیٹی میں اصلاحات کیلئے سفارشات مرتب کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے بتایا ہے کہ اعلی ترقیوں کے بارے میں وزیراعظم نے ایسی رپورٹس پرپابندی عائد کردی ہے جنہیں بعد میں تسلیم نہ کیا جاسکے ۔ اصلاحات کیلئے سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں سب کمیٹی قائم کردی گئی سینیٹر نہال ہاشمی بھی کمیٹی کے رکن ہیں ۔
قائمہ کمیٹی