نو مولود پر فردِ جرم!
مجھے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں، یہ تو قانونی موشگافیوں کا کھیل ہے، جو کھیلا جاتا رہے گا۔ میں تو اس فردِ جرم سے پریشان ہوں جو ایک نومولود نے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال رائے ونڈ کے سامنے کٹوائی ہے۔اس فردِ جرم میں پورا معاشرہ ملوث ہے اور اس گھناؤنے جرم کا اس کے پاس کوئی جواب بھی موجود نہیں۔ معاشرہ اس نومولود کی فردِ جرم مسترد کردے گا، کیونکہ اس نومولود کے سامنے معاشرہ بہت طاقتور ہے۔ ہم میں سے کسی نے بھی اپنا جرم تو ماننا نہیں۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بھی یہ جرم تسلیم نہیں کرنا۔زیادہ سے زیادہ انہوں نے بھی افسوس کا اظہار کرکے ہسپتال کے ایم ایس اور چند دوسرے افراد کونوکری سے نکال دینا ہے۔ یہ جو صوبے میں دو، دو وزیر صحت ہیں، انہیں اس کا ذمہ دارنہیں ٹھہرانا، نہ ہی ان دونوں نے اسے اپنی غفلت مجرمانہ تسلیم کرکے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینا ہے، اس لئے نومولود بے چارے کو دنیا میں آتے ہی جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ اس کا نصیب سمجھی جائے گی۔ یہاں ہر روز مجھے کیوں نکالا کی گردان کی جاتی ہے، ہم سب اس نومولود سے کہیں گے، وہ آخر یہاں کیوں آیا، کیا اسے پتہ نہیں تھا، یہاں کے حالات کیا ہیں، آبادی پہلے ہی آسمان کو چھورہی ہے، گنجائش بالکل نہیں، پھر بھی وہ چلا آیا۔ اب شکر کرے کہ زمین پر آگیا، وگرنہ اگر سڑک کنارے بھی اسے جنم لینے کی اجازت یا جگہ نہ ملتی تو اس کا کیا بنتا، لگتا ہے وہ اپنے ساتھ اپنی ماں کو بھی لے ڈوبتا۔
70برس ہوگئے ہم مسلسل ترقی ہی کئے چلے جارہے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کہیں ویگنوں، رکشوں اور سڑک کنارے بچے پیدا ہوتے ہوں، مگر یہ اعزاز ہمیں حاصل ہے۔ بچپن سے لے کر سنِ شعور تک میں نے تو کبھی اپنی ماں کی زبانی یہ نہیں سنا تھا کہ بچے اس طرح بھی جنم لیتے ہیں؟ اس زمانے میں تو ہم نے اتنی ترقی ہرگز نہیں کی تھی، یہ تو آج کے دور کی ترقی ہے کہ ایک طرف ہم میٹروبس اور ٹرینیں چلارہے ہیں اور دوسری طرف پیدائش کے عمل کو اس قدر آسان بنادیا ہے کہ سڑک کنارے بھی اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے، اگر کسی کی زبان سے میری اس بات پر ’’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ والا جملہ نکل جاتا ہے، تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ غور کیا جائے تو ہماری ترقی نے بہت سے مشکل مراحل کو آسان کردیا ہے۔ نہ ہسپتال جانے کا جھنجھٹ، نہ کسی کا منت ترلہ، بس شوہر تیمار داری کے لئے موجود ہو اور زچہ بچہ دونوں خیریت سے رہیں، اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔ ’’ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے‘‘۔۔۔ اب سوشل میڈیا پر جو لوگ شہباز شریف کو اس بات پر داد دے رہے ہیں کہ انہوں نے پنجاب کی سڑکوں کو اتنا محفوظ بنادیا ہے کہ اب وہاں مائیں بچے بھی جننے لگی ہیں، تو کون سا غلط کام کررہے ہیں۔۔۔ ’’حق بحقدار رسید‘‘ کے مصداق جس کا جو کریڈٹ ہے، اسے ملنا چاہئے۔
آپ کوئی دوسرا ملک تلاش کرکے دکھایئے، سوائے فلاحی ریاست پاکستان کے، جہاں تھانوں کے سامنے عورتیں انصاف کے لئے خود سوزی کرتی ہوں اور ہسپتالوں کے باہر بچے جنم لیتے ہوں۔ یہ بڑے کام صرف پاکستان میں ہی ہوتے ہیں۔ ایک دو نہیں، بلکہ تواتر کے ساتھ ایسا ہوتا ہے اور سب تماشائی بن کر یہ سب کچھ دیکھتے ہیں۔ جہاں صوبے کا حاکم یہ کہے کہ میں اربوں روپے کے فنڈز دے دے کر تھک گیا ہوں، مگر ہسپتالوں میں بیٹھے افراد کو کچھ خوفِ خدا نہیں، وہاں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قسم کی گڈگورننس ہمارا مقدر بنی ہوئی ہے۔ ہر چھوٹے موٹے واقعہ پر برطرفی اور معطلی کی گنگا بہانے والے وزیر اعلیٰ کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس طرح کے اقدامات سے تو حالات بہتری کی بجائے ابتری کی طرف جارہے ہیں، کچھ کرنا ہی ہے تو وزیر کو بدلیں، سیکرٹری کو فارغ کریں، ایک بڑا پیغام تو دیں، چھوٹے موٹے لیپا پوتی جیسے اقدامات سے عادی مجرموں کو کہاں عقل اور غیرت آسکتی ہے۔ ہسپتالوں میں ایم ایس لگانے کا وہ طریقہ تو بتائیں جو حکومت پنجاب نے اختیار کررکھا ہے۔ جب تک سفارشی، اور کرپٹ لوگوں کو سیاسی دباؤ پر لگایا جاتا رہے گا، تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا۔
ملتان کے ایک ڈائریکٹر ہیلتھ ڈاکٹر عاشق حسین کو حال ہی میں کرپشن کیس میں ملوث ہونے پر معطل کیا گیا، مگر حیرت ہے کہ نشتر ہسپتال کا ایم ایس ہونے کی حیثیت میں اس نے کرپشن کی، وہاں سے اسے مظفر گڑھ میں لگایا گیا، ڈائریکٹر ہیلتھ بنایا گیا، جب انٹی کرپشن میں ہر چیز ثابت ہوگئی تو اسے ہٹایا گیا، حالانکہ محکمے کے علم میں تھا کہ موصوف پر کرپشن کے سنگین چارجز ہیں، وہ کون تھا جو اسے تحفظ دیتا رہا، وہ تو اب بھی محکمے میں وزیر یا سیکرٹری ضرور ہوگا۔۔۔میں جب بھی وہ تصویر دیکھتا ہوں، جس میں ایک ماں سڑک کنارے اپنے نومولود بچے کو سینے پر لٹائے لیٹی ہے اور اسی کا شوہر غم کی تصویر بناہوا ہے تو میری آنکھوں میں نمی آجاتی ہے۔ یہ تصویر اگر دنیاکے کسی تصویری مقابلے میں گئی تو اسے پہلا انعام اس لئے ملے گا کہ 21ویں صدی میں ایک ملک ایسا بھی ہے، جہاں 19ویں صدی کے زمانے سے بھی بدتر حالات ہیں۔
ایسا تو شاید پتھر کے زمانے میں ہوتا ہوگا کہ عورت اس بے چارگی کے عالم میں زچگی کے مرحلے سے گزرتی ہوگی، لیکن اس تصویر کے نیچے یہ بھی لکھا ہوگا کہ جس وقت یہ عورت ہسپتال کے باہر سڑک پر لیٹی تھی، اسی وقت اسی صوبے کے گورنر کو بیرونِ ملک علاج پر بھیجنے کے لئے حکومتِ وقت نے پانچ کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کی تھی، حالانکہ گورنر صاحب کو ملک کے بڑے سے بڑے ہسپتال میں بھی وی وی آئی پی روم مل سکتا تھا اور انہیں وارڈ کے باہر بیڈ پر علاج کرانے کی اذیت سے بھی نہیں گزرنا پڑنا تھا، لیکن اس کے باوجود انہیں بیرون ملک علاج کے لئے پانچ کروڑ روپے کی خطیر رقم جاری کی گئی، جس سے کئی رورل ہیلتھ سینٹروں میں زچگی کی سہولتیں فراہم کی جاسکتی تھیں، البتہ مجھے اطمینان اس بات کا ہے کہ ابھی تک حکومت کے کسی حامی مسلم لیگی بڑھک بازوزیر نے یہ بیان نہیں داغ دیا کہ غریبوں کو اپنی اوقات کے مطابق بچے پیدا کرنے چاہئیں۔ حکومت کہاں تک ہر بچے کی پیدائش کو بقینی بناسکتی ہے۔ غریب ملک کے پاس اتنے وسائل ہی کہاں ہیں کہ وہ ایک طرف گورنر اور وزراء کے لئے بیرون ملک علاج کی مد میں کروڑوں روپے مہیا کرے اور دوسری طرف یہاں بچوں کی پیدائش کے لئے سرکاری خرچ پر وارڈوں میں جگہ بھی دے۔ ایسا تو کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی نہیں، اول الذکر تو بالکل نہیں ہوتا۔
شہباز شریف کی اپنی ترجیحات ہیں، وہ سمجھتے ہیں میٹروبس منصوبوں اور اورنج ٹرین جیسے پراجیکٹس غریبوں کے لئے ضروری ہیں۔ ہسپتالوں کی تعداد بڑھانے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں، کیونکہ وہ انہیں غریبوں کے منصوبے نہیں سمجھتے، مگر جب کبھی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے، جیسا رائے ونڈ ہسپتال کے باہر ہوا تو وہ ان کے سارے منصوبوں، سارے دعووؤں اور ترقی کے سارے وعدوں کو طوفانی لہر کی طرح اپنے ساتھ بہالے جاتا ہے۔ ایک عورت اور اس کا نومولود بچہ ندامت اور شرمندگی کے ایسے داغ چھوڑ جاتا ہے جنہیں دھونے کے لئے نجانے کتنی معذرتیں درکار ہوتی ہیں اور اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے ان گنت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ میں نے کالم کے آغاز میں لکھا تھا کہ رائے ونڈ کے نومولود نے پورے معاشرے پر فردِ جرم عائد کردی ہے، لیکن شاید جذبات میں آکر میں غلط لکھ گیا تھا، اس معصوم نے فردِ جرم عائد نہیں کی، بلکہ اس بے حس سیاسی نظام، عوام سے لاتعلق طرزِ حکمرانی اور خواب خرگوش کے مزلے لینے والے معاشرے نے اس پر یہ فردِ جرم عائد کی ہے کہ وہ پوری دنیا کو چھوڑ کر پاکستان میں پیدا کیوں ہوا، کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ یہاں جرمِ غریبی کی سزا مرگِ مفاجات ہے؟