فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 247

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 247
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 247

  

’’زمیندار‘‘ کا دفتر ہم نے پہلے بھی باہر سے دیکھا تھا۔ یہ ایک خوشنما دو منزلہ عمارت تھی۔ نچلی منزل پر ایک برآمدہ تھا۔ اس کے بعد کمرے تھے۔ اندرونی حصے میں سے سیڑھیاں اوپر دوسری منزل کی طرف جاتی تھیں۔ عمارت کے زیریں حصے میں اخبار کا دفتر تھا۔ بالائی حصے میں رہائش تھی۔ مولانا ظفر علی خان اور مولانا اختر علی خان اوپر والی منزل پر رہائش پذیر تھے۔

اختر علی خان کے بڑے صاحب زادے منصور علی خان میکلوڈ روڈ‘ (لکشمی چوک) پر ایک عمارت کے فلیٹ میں رہا کرتے تھے۔ یہ ایک کشادہ اور ہوا دار عمارت تھی۔ اگلے حصے میں برآمدہ تھا پچھلے میں کھلا صحن تھا۔ اوپر کی منزل پر بھی سامنے کی جانب ایک برآمدہ تھا۔ مولانا ظفر علی خان کبھی لاہور میں اور کبھی کرم آباد میں قیام کرتے تھے جہاں ان کی زمینیں اور حویلی تھی۔ دراصل کرم آباد ہی ان کا اصل ٹھکانا تھا۔ لاہور میں تو اخباری مصروفیات کے باعث رہنا پڑتا تھا۔ پھر بھی چھٹی کے دن یا فرصت پا کر وہ کرم آباد چلے جاتے تھے۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 246 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

’’زمیندار‘‘ مولانا اختر علی خان کی زیر ادارت چل رہا تھا۔ اخبار کا مولانا ظفرعلی خان والا معیار تو نہ تھا لیکن پنجاب کے لوگوں کو ’’زمیندار‘‘ کی عادت پڑ گئی تھی۔ اس زمانے میں بھی اس کی اشاعت دوسرے تمام اردو اخبارات سے زیادہ تھی۔ اشتہارات کی بھی کمی نہ تھی اس لئے ہُن برس رہا تھا۔ خوشحالی کا زمانہ تھا۔ اس خاندان پر اللہ کی رحمت تھی۔ زمینیں تھیں‘ اخبار کی بہت اچھی آمدنی تھی۔ اس وقت جب کہ لاہور میں کاریں معدودے چند ہی تھیں اختر علی خان دو کاروں کے مالک تھے۔ ان کے بیٹے منصور علی خان اور مسعود علی خان بھی صاحب کار تھے۔ بہت اچھا وقت تھا۔

’’زمیندار‘‘ کے دفتر پہنچے تو بائیں ہاتھ پر مولانا اختر علی خان کا دفتر تھا۔ اس کے برابر سے ایک گلی مکان کے عقبی حصے کی طرف جاتی تھی۔ مولانا اختر علی خان شورش صاحب کے منتظر تھے۔ بہت گرمجوشی اور اخلاق سے ملے۔ وہ گہرے سانولے رنگ کے درمیانہ قد اور بھاری جسم کے مالک تھے۔ آنکھیں بڑی بڑی تھیں اور ناک بھی عقابی تھی۔ وہ گفتگو کے دوران میں اشعار اور محاورے کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ مثلاً یہ فقرہ ان کا مرغوب فقرہ تھا۔ ’’اخبارات کی برادری میں زمیندار کی حیثیت ایسی ہے جیسے بتیس دانتوں کے درمیان ایک زبان‘‘ ایک شعر بھی وہ اکثر سنایا کرتے تھے۔

تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

بعد میں جب ہم نے ان کے ساتھ مختصر عرصے کام کیا تو بھی یہی باتیں سننے کو ملیں۔

کارکنوں کے بارے میں وہ اکثر یہ فقرہ دہرایا کرتے تھے۔ ’’میرا اصول ہے کہ مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ملنی چاہئے۔‘‘ مگر ہم لوگوں نے اس میں ترمیم کر کے اسے یوں بنا لیا تھا۔

’’میرا خیال ہے کہ مزدور کو اس کی مزدوری کم از کم خون خشک ہونے سے پہلے ملنی چاہئے۔‘‘

اختر علی خان کھلے پائنچوں کا سفید لٹھے کا پاجاما اور شیروانی پہنے اپنے کشادہ اور خوبصورت کمرے میں تشریف فرما تھے۔ اس زمانے کے رواج کے حساب سے وہ بے حد شاندار دفتر تھا۔ فرش پر قالین‘ قیمتی فرنیچر‘ ائرکنڈشنر اور ایک جانب آتش دان میں بہت خوبصورت باہر سے درآمد شدہ برقی ہیٹر‘ برقی ہیٹر اور ائر کنڈیشنر اس زمانے میں بہت نایاب چیزیں تھیں۔ مولانا اختر علی خان الفاظ پر زور دے کر لیکن بہت تیزی سے بولتے تھے۔ شورش صاحب نے ہمارا بھی سرسری تعارف کرایا۔ انہوں نے بیٹھے بیٹھے اپنا ہاتھ مصافحے کیلئے ہماری طرف بڑھا دیا۔ ان کا ہاتھ پُر گوشت اور ملائم تھا لیکن اس کو تھامنے کے لئے ہمیں ا ن کی بڑی سی میز کے گرد چکر کاٹ کر ان کے نزدیک جانا پڑا کیونکہ یہ میز بہت لمبی چوڑی تھی اور سامنے سے ہم ان کا ہاتھ نہیں تھام سکتے تھے۔

ان دونوں میں کچھ دیر مختلف امور پر گفتگو ہوتی رہی۔ اس دوران میں چائنا کے نہایت قیمتی ٹی سیٹ میں چائے بھی نوش کی گئی۔ جو تمیزدار ملازم اوپر گھر سے لے کر آیا تھا۔

آغا شورش نے مولانا ظفر علی خان کی خیریت دریافت کی اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔

اختر علی خان نے بتایا کہ قبلہ والد صاحب کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ بول چال میں بھی دقت پیش آتی ہے۔ انہیں کرم آباد لے گئے تھے مگر وہ اصرار کر کے چند روز کے لئے لاہور تشریف لے آئے ہیں۔ ہم نے محسوس کیا کہ اختر علی خان خاصی مسجع اور مقطع اردو بولتے ہیں اور اپنا مافی الضمیر سادہ اور آسان الفاظ میں بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

کچھ دیر بعد اختر علی خان کی قیادت میں ہم لوگ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچے‘ برآمدے میں مولانا ظفر علی خان ایک آرام دہ کرسی پر نیم دراز تھے۔ برآمدے میں ہلکی پھلکی دھوپ تھی اور وہ دھوپ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ان پر فالج کا حملہ ہو چکا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے اور حرکت کرنے سے معذور تھے۔ یہاں تک کہ گفتگو میں بھی بہت دقت پیش آتی تھی۔ انہوں نے جو تھوڑی بہت گفتگو کی وہ بمشکل ہماری سمجھ میں آئی۔ مگر اختر علی خان بخوبی سمجھ گئے اور انہوں نے ترجمانی کا فرض بھی ادا کیا۔

آغا شورش نے بہت عقیدت سے مولانا ظفر علی خان سے ہاتھ ملایا۔ ان کے اشارے پر ہم نے بھی آگے بڑھ کر بڑی عقیدت اور احترام سے ان کا ناتواں ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔ ان کے کمزور ہاتھ میں ہلکی سی لرزش تھی۔ یہ وہ ہاتھا تھا جس کی تحریروں سے حکمرانوں کے ایوان اور بڑے بڑے لوگوں کے دروبام لرزتے تھے۔ آج اس میں اتنی سکت بھی نہ تھی کہ قلم تھام کر چند حروف ہی لکھ سکتا۔ وہ زبان جو شعلہ و شبنم برسایا کرتی تھی اب اس میں لکنت تھی اور وہ چھوٹا سا فقرہ بھی ادا کرنے کے قابل نہ تھی۔ ایک ملازم نے حُقہ تازہ کر کے مولانا کی کرسی کے نزدیک رکھ دیا۔ مولانا اختر علی خان نے حُقے کی نے اٹھا کر اپنے والد بزرگوار کی جانب بڑھائی۔ انہوں نے ہلکے سے چند کش لئے اور پھر نڈھال سے ہو کر کرسی کی پشت سے سرٹکا کر نیم دراز ہوگئے۔ وہ بے حد کمزور ہوگئے تھے۔ مطالعہ‘ تحریر و بیان سبھی سے قاصر تھے۔ آغا شورش کاشمیری مختلف موضوعات پربولتے رہے اور مولانا ظفر علی خان خاموشی سے سنتے رہے۔ یہ وہ شخص تھا جس کے آگے دوسروں کو بولنے کا یارانہ تھا۔ مگر آج بیماری نے اسے کمزور‘ بے بس‘ معذور اور ناتواں کر دیا تھا۔

ہم ایک جانب کھڑے خاموشی سے مولانا ظفر علی خان کا زرد لیکن خوبصورت چہرہ دیکھتے رہے۔ ان کی آنکھوں میں ایک ویرانی سی تھی۔ زبان خاموش تھی۔ صرف آنکھیں حرکت کر رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد آغا شورش نے اشارہ کیا کہ اب رخصت کی اجازت لیتے ہیں۔ ان سے پھر مصافحے کا شرف حاصل ہوا اور ہم سیڑھیاں اتر کر چلے آئے۔

آغا شورش کاشمیری نے ایک سرد آ بھری اور کہا ’’اللہ اکبر‘ انسان بھی کتنا بے بس اور لاچار ہوتا ہے۔‘‘

یہ ہماری مولانا ظفر علی خان سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ تھوڑے ہی عرصے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ عملی طور پر تو وہ دنیا والوں کیلئے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ جو انسان معمولات زندگی ادا کرنے سے قاصر ہو اس کا محض جسمانی وجود ہی رہتا ہے۔ وفات کے بعد خاکی جسم بھی خاک میں مل گیا۔ انہیں کرم آباد میں دفن کیا گیا تھا۔

جب ظہورالحسن ڈار صاحب نے ’’زمیندار‘‘ میں کام کرنے کا تذکرہ کیا تو ہم چپ چاپ رہ گئے۔

’’یار کچھ بول تو سہی‘ سانپ کیوں سونگھ گیا۔‘‘

ہم نے کہا ’’مگر ڈار صاحب مولانا اختر علی خان کے ساتھ ہمارا کام کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘

وہ ہنسے اور کہنے لگے ’’آفاقی بچے کبھی اخبار بھی پڑھ لیا کرو تاکہ حالات حاضرہ سے باخبر رہ سکو۔یہ تو تم جانتے ہو کہ مولانا اختر علی آج کل جیل میں ہیں اور حکومت نے زمیندار پر پابندی لگا دی ہے‘‘

’’ہاں یہ تو پتا ہے مگر پھر۔۔۔‘‘

’’اب بولنے سے پہلے میری بات سن لو اور پھر سوچ کر بولو۔‘‘

’’جی فرمائیے۔‘‘

’’بات یہ ہے کہ مولانا اختر علی خان کے بڑے بیٹے منصور علی خان اب یہ اخبار روزنامہ ’’آثار‘‘ کے نام سے نکال رہے ہیں۔ اس نام سے ڈکلریشن کا انتظام ہوگیا ہے۔ دفتر اور سٹاف موجود ہی ہے۔ منصور علی خان تعلیم یافتہ اور روشن خیال آدمی ہیں اوراپنے والد مولانا اختر علی خان سے بالکل مختلف ہیں۔ وہ نئے خیالات کے مالک ہیں اور ایک جدید روزنامہ نکالنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے بلوایا تھا اور میں چاہتا ہوں کہ تم بھی میرے ساتھ چلو۔ ہم دونوں مل کر اس پرچے کو ایک ماڈرن روزنامہ بنا دیں گے۔‘‘

ہم نے غور کیا تو بات نہایت معقول تھی۔

ڈار صاحب نے کہا ’’سوچ کیا رہے ہو۔ بولو‘ تمہاری بر دکھائی کرا دیں۔ یعنی منصور علی خان سے تمہاری ملاقات کرا دیں؟‘‘

ہم دونوں تانگے میں سوار ہو کر زمیندار کے دفتر پہنچ گئے۔ مولانا اختر علی خان جیل میں تھے اسلئے ان کا دفتر بند تھا۔ منصور علی خان کا دفتر اندرونی حصے میں تھا اور یہ بھی خوب سجا ہوا اور آراستہ تھا۔ فرق یہ تھا کہ سائز میں چھوٹا تھا اور یہاں آرائش میں نئے انداز کی جھلک نمایاں تھی۔

منصور علی خان نوجوان آدمی تھے۔ کسی حد تک اپنے والد سے مشابہ تھے۔ لیکن ان کا رنگ قدرے صاف تھا۔ گھونگریالے بال‘ چمکدار دل میں اتر جانے والی نگاہیں‘ سوچتے وقت ان کی آنکھوں میں تھوڑا سابھینگا پن پیدا ہو جاتا تھا۔ وہ درمیانہ قد و قامت کے جوان آدمی تھے۔ قدرے فربہی کی طرف مائل تھے۔ باتیں بہت دلچسپ کرتے تھے اور دل کھول کر بلند آواز میں قہقہہ لگاتے تھے۔ ہم نے انکی باتوں سے اندازہ لگایا کہ ان میں چالاکی بالکل نہیں تھی۔ سادہ دل اور سادہ لوح آدمی تھے۔ جو دل میں ہوتا تھا وہی زبان پر لے آتے تھے۔ خوش مزاج تھے اور صحیح معنوں میں اپنے اخبار کو جدید رنگ دینے کے خواہش مند بھی تھے۔

ان سے تھوڑی ہی دیر میں اتنی بے تکلفی ہوگئی کہ ہنسی مذاق بھی شروع ہوگیا۔ ڈار صاحب سے وہ پہلے بے تکلف تھے۔ انہوں نے اوپر سے بہت اچھی قسم کی چائے منگا کر بہت اعلیٰ قسم کی قیمتی پیالیوں میں پلائی۔ ساتھ میں بسکٹ اور کیک پیش بھی تھے۔ انہوں نے کہا ’’دیکھئے ڈار صاحب یہ چائے اور کیک پیس وغیرہ آپ کو آج ہی ملے ہیں۔ آئندہ ان کی توقع نہ رکھئے گا۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ آئندہ سامنے والے تنوری ہوٹل سے چائے آیا کرے گی۔ ان کے پاس بسکٹ بھی ہوتے ہیں مگر یہ بات نہ ہوگی۔ میں ہر روز ابا جی کے گھر سے چائے منگا کر آپ کو نہیں پلاؤں گا۔‘‘

تنخواہ وغیرہ طے ہونے کے بعد ہم نے ا گلے ہی روز سے ’’آثار‘‘ میں اپنی ڈیوٹی سنبھال لی۔ یہ تنخواہ ’’آفاق‘‘ میں ملنے والی تنخواہ سے کہیں زیادہ تھی۔(جاری ہے )

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز...قسط نمبر 248 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

فلمی الف لیلیٰ -