” صحت مند پنجاب“کاراز، کون سا ادارہ ہے؟
تحریر:عدنان جمیل
پاکستان کا شمار ان خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے ، جو زراعت کے معاملے میں خو د کفیل ہیں ، مگر غذائی قلت پر کا م کرنے والے ایک بین الاقوامی ریسرچ ادارے نے جنوبی ایشیاکے ممالک کو خبردار کیا ہے کہ عوام الناس کے تحفظِ صحت اور انکی خوراک کے معیار پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔۔۔!!ان حقائق اور آئی ایف پی آر آئی کی رپورٹ کے بعد،،،و زیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے فلاح عامہ کے نظریے اور ان سے جڑے کامیاب منصوبوں خراج تحسین پیش کرنے کا دل کرتا ہے۔۔!! جن کا ہونا عوام الناس کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔انہی منصوبوں کی ایک کڑی ادارہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کا قیام ہے۔ تین سال قبل قائم ہونے والا پنجاب فود اتھارٹی کا
ادارہ، ،بلا شبہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔۔!!۔ملاوٹ مافیا کی تمام بڑی قوتوں سے ٹکراؤ ، ادارے کی خود مختاری کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ ادارہ بنا کسی سیاسی مداخلت کے اپنا کام بخوبی انجا م دے رہا ہے۔ جسکا واضح ثبوت صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کے ڈیری فارم کے خلاف محکمہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کاروائی ہے جسکا اعتراف صوبائی وزیر نے بذات خود 16 اکتوبر کو منعقد ہونے والے فوڈ ڈے سیمینار میں کیا۔۔۔!! محکمہ پنجاب فوڈ اتھارٹی نہ صرف ملاوٹ مافیا کے خلاف کریک ڈا ون اور سزا دلوانے میں مصروف عمل ہے۔ مگر عوام کوغذائیت مند خوراک کا شعور دینے میں بھی پیش پیش ہے۔۔!! خوراک کے حوالے سے اخبارات اور ٹی وی پراشاعت و نشر ہونے والے اشتہارات جیسے’’ یہ دودھ نہیں ٹی وائٹنر ہے،،، یہ بٹر نہیں مارجرین ہے، کیا ڈبے کا دودھ ماں کے دودھ کا نعم البدل ہو سکتا ہے۔۔۔؟؟؟؟ نہیں ‘‘ کا سہرا بھی محکمہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے سر ہے۔۔۔۔!!دوسری جانب مشہور و نامور فوڈ کمپنیوں کو اپنی تمام تر مصنوعات پر حقیقی اجزا لکھنے اور عوام تک اپنی مصنوعات کی صحیح معلومات فراہم کرنے کی ہدایات بھی دی۔۔!!
اس ادارے کی بدولت عوام میں غذائیت مند خوراک کا شعور اجاگر ہوا۔۔!! کونسی خوراک انکی صحت کے لئے مفید ہے اور کون سی نقصان دہ۔۔۔!! لوگو ں میں اس حوالے سے آگاہی محکمہ پنچاب فود اتھارٹی کی بدولت ہی آئی۔۔!!
پاکستان میں مجھ سمیت کروڑوں لوگ اس بات سے بے خبر تھے کہ مارکیٹ میں بکنے والی انرجی ڈرنکس، بناسپتی گھی اور دیگر اشیاء غیر معیاری، ناقص اور ملاوٹ سے بھرپور ہیں ، جن کا استعمال کئی مہلک بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔
پنجاب فود اتھارٹی نے اگست2017 تک صوبے کے چھتیس اضلاع میں اپنے مختلف یونٹس قائم کیئے۔ اور فوڈ سیفٹی ٹیم نے پنچاب کے شہر شہر، گلی گلی میں ناقص خورا ک کے خلاف اپنی کاروائی شروع کی۔ چھوٹے ،بڑے ریسٹورینٹ، ہوٹل، ڈیری فارم ، خواراک تیا ر کرنے والے کارخانے اور فیکٹریوں سے فوڈ سینپل جمع کئے اور غیر معیاری خوراک کو تلف کر کے ان کو جرمانے بھی کئے گئے۔ جس میں پوش علاقوں کے نامور فوڈ برینڈز اور فرنچائزز بھی شامل ہیں۔ اسی ادارے نے نہ صرف بین الاقوامی اصولوں کے مطابق خوراک کی فراہمی اور تیاری کے لئے تمام چھوٹے بڑے ریسٹورینٹ کے ایک لاکھ کچن ملازمین کو تربیت دینے کا بیڑا اٹھاایا بلکہ خوارک کے ذریعے کسی بھی طرح کے خطرناک جراثیم کی منتقلی کی روک تھام کے لئے بلڈ ٹیسٹ بھی لیئے گئے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی نے تعلیمی اداروں میں نہ صرف انرجی ڈرنکس پر مکمل پابندی لگائی، بلکہ سو میٹر کی حدود تک اس کی خرید و فروخت بھی ممنوع قرار دی۔ جبکہ والدین کے لئے آگاہی مہم کا آغاز کیا گیا کہ بچو ں کو انرجی ڈرنکس کی بجائے فریش فروٹ جوسز کی جانب راغب کیا جائے تاکہ ان کی نشو نما بہتر ہو سکے۔
پنجاب فود اتھارٹی کا ایک اور انقلابی قدم اٹھایا ہے ، جس کے تحت ادارے نے 2020 تک بناسپتی گھی بنانے اور بیچنے پر مکمل پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوام میں کینسر، دل کی بیماریاں ، دماغی امراض، اور شوگر جیسی مہلک بیماریوں کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔اس پابندی کے ساتھ ساتھ ایک عوامی مہم کا آغاز بھی کیا جا رہا ہے جس میں لوگوں کو اولیو آ ئل، سویا بین آئل ،سن فلاور اور دیگر سبزیوں والا تیل استعما ل کرنے کی ہدایات دی جائیں گی۔
پنجاب فود اتھارٹی نے اپنی کارکردگی کے ساتھ ساتھ فودڈ ٹیکنالوجی گریجوایٹس کو چھ ماہ انٹرنشپ کے مواقع بھی فراہم کئے۔ تاکہ وہ فوڈ سیفٹی ٹیم کے ساتھ مل کر، عوام الناس کے لئے بہتر سے بہتر خوراک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جس کا پہلا بیج کامیابی سے اپنی ٹرینگ مکمل کر چکا ہے۔
اسی تناظر میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے مختصر عرصے میں جو انقلابی اقدامات اٹھائے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ان کا عمل درآمد تو دور کی بات، سوچنا بھی مشکل تھا۔۔۔!
دوسرے اداروں کی طرح اس ادارے کی کارکردگی پر نقطہ چینی کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ کچھ عناصر کا کہنا ہے کہ سابقہ فوڈ ڈائریکٹر عائشہ ممتازکے جانے سے ادارے کی کارکردگی میں کمی آئی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عائشہ ممتاز ایک ہونہار اور قابل افسر تھی جس نے بلا امتیات ملاوٹ مافیہ کے خلاف آپریشن کیا۔ لیکن ادارہے شخصیت سے نہیں سسٹم سے چلتے ہیں، اگر سسٹم مظبوط ہو تو ادارے کبھی کمزور نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے ڈائریکٹر جنرل نور الامین مینگل کی قیادت میں چلنے والا یہ ادارہ آ ج بھی اپنی ذمہ داریاں پہلے سے بھی زیادہ بخوبی نبھا رہا ہے اور کرپٹ مافیا کے خلاف ’’زیرو ٹولرنس‘‘ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اگر پنجاب فود اتھارٹی کی کارکردگی کا موازنہ ایشیا کے دیگر ممالک کی فوڈ اتھارٹیز سے کیا جائے تو دو سالوں میں حاصل ہونے والی پنچاب فوڈ اتھارٹی کی کامیابیاں ،دوسرے ممالک کی ایک دہائی کی کامیابیوں کے مترادف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج پنجاب میں خوراک تیا ر کرنے اور فروخت کرنے کا لائسنس کا حصول اتنا ہی مشکل بنا دیا گیا ہے جتیا کہ ایک بندوق کا۔۔۔!!!!
پنجاب فود اتھارٹی اسی طرح سے اپنی ذمہ داریاں اگر نبھاتی رہی، تو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا خواب ’’ صحت مند پنجاب ‘‘ بہت جلد حقیقت کا روپ دھارے گا او ر بہت جلد پنجاب، ایشیا کے ماڈل صوبہ کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔