ڈاکٹرطاہرالقادری کشتی بھی کرتے تھے

ڈاکٹرطاہرالقادری کشتی بھی کرتے تھے
ڈاکٹرطاہرالقادری کشتی بھی کرتے تھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہونہار فرزند ڈاکٹر حسین محی الدین نے انکشاف کیا ہے کہ علامہ صاحب زمانہ طالب علمی میں کشتی بھی کیا کرتے تھے جو بعد میں کمر درد کی وجہ سے چھوڑدی۔ اس خوبصورت انکشاف پر خود حسین محی الدین بھی مسکرا رہے تھے اورحاضرین مجلس بھی کیونکہ علامہ صاحب کشتی تو اب بھی کرتے ہیں لیکن ہاتھوں سے نہیں ،زبان سے کرتے ہیں اور خوب کرتے ہیں۔
ڈاکٹر حسین محی الدین نے منہاج یونیورسٹی لاہور کے خوبصورت ہال جس کی انٹیریئر ڈیکوریشن انتہائی قابل دید تھی ،میں لکھاریوں کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کیا تو برادرم نوراللہ صدیقی اور عبدالحفیظ چودھری نے ہمیں بھی یاد کرلیا اور پابند کیا کہ ہم بھی ان کی محفل میں شریک ہوں۔ تقریب کا آغاز ہی ڈاکٹر حسین محی الدین کے خوبصورت انکشاف اور دیگر چند جملوں سے ہوا کہ گزشتہ دنوں ڈاکٹر صاحب یونیورسٹی تشریف لائے تو انہوں نے والی بال کو ہٹس اور فٹ بال کو ککس لگائیں اور ساتھ ہی یہ انکشاف کیا کہ ڈاکٹر صاحب زمانہ طالب علمی میں کشتی وغیرہ بھی کیا کرتے تھے ۔
ڈاکٹر صاحب کی باڈی لینگوئج میں جو چستی اور چابک دستی ہے وہ شائد اسی زمانہ طالب علمی کی کشتیوں کی ہے جو انہوں نے کی ہوئی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس زمانے میں علامہ صاحب اکیلے ہی کشتی کرتے ہوں لیکن اب تو وہ اپنے ساتھ اپنے مریدین کو بھی وہی کسرت اور مشقت کرواتے ہیں جو خود کر رہے ہوتے ہیں، 2013کے دھرنے سے لے کر آج تک ڈاکٹر صاحب کے مریدین ، سٹوڈنٹ اور مداحوں نے ان سے بڑھ کر وہ کسرت اور مشقت کی جس سے نواز حکومت کی جڑیں ہل گئی تھیں ۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک اور خوبی ہے کہ اگر وہ کشتی جیت نہ سکیں تو ’’روند‘‘ مارنے کی بجائے علی الاعلان پسپائی کا اعلان کردیتے ہیں جس طرح انہوں نے 2014کے دھرنے میں کیا تھا اور کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ منظور نہیں ہے اس لئے وہ اپنے کارکنوں کو مزید آزمائش میں نہیں ڈالے رکھنا چاہتے ۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایسی ہی ایک کشتی پاکستان میں علم و فضل کے فروغ کے لئے بھی لڑی ہے جس کا شاہکار منہاج یونیورسٹی لاہور کی صورت آج ٹاؤن شپ میں جلوہ فگن ہے اور Three Decades of Excellenceکا عملی نمونہ ہے جہاں 10,000سے زائد طلباء 100 کے لگ بھگ پروگراموں میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرکے اپنی مادر علمی کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس یونیورسٹی کی بنیاد 1986میں رکھی تھی کیمبرج یونیورسٹی نے ان کے صاحبزادے ڈاکٹر حسین محی الدین کو ، جو ان دنوں مہناج یونیورسٹی میں بورٖڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین ہیں ، سوشل ریسپانسبیلیٹی ایوارڈ سے نواز کر اس سارے عمل پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے اور آج منہاج یونیورسٹی بین الاقوامی کانفرنسوں کے انعقاد سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل کرتی جا رہی ہے۔


منہاج یونیورسٹی لاہور اسلام کا ایک جدید تصور پیش کرتی ہے اور یہاں خرم شہزاد جیسے کئی راک سٹار ہیں جو اپنی ذہانت و فطانت سے ایک عالم کو متاثر کئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین نے یونیورسٹی میں مذاہب و فلسفہ کے سکول میں ایک نئی جہت نکالی ہے کہ یہاں آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے مذاہب کے دانشور ڈاکٹر ہرمن روبوک کی زیرنگرانی پاکستانی طلباء کو ہندو مت، سکھ مت، جین مت، بدھ مت، عیسائیت اور دیگر مذاہب کی تعلیم دی جاتی ہے ۔


یہی نہیں بلکہ اس یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف پیس اینڈکاؤنٹر ٹیررزم بھی قائم کیا گیا ہے جس میں پاک فوج کے انسٹرکٹر تک بچوں کو تربیت دیتے ہیں۔بلکہ اس کا مقصد پاکستان کا ایک سافٹ امیج دنیا بھر میں پیش کرنا ہے جس کے خود ڈاکٹر طاہرالقادری بہت بڑے داعی ہیں۔ کو ایجوکیشن اس ادارے کا طرہ امتیاز ہے اور یہ مخصوص مذہبی جامعات ایسی جامعہ نہیں ہے۔ یہاں کے طلباء ایشین گیمز میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یونیورسٹی چھے کروڑ روپے سے زائد کے سکالر شپ طلباء میں تقسیم کرتی ہے ۔
ڈاکٹر طاہرالقادی دیسی کشتی کرتے ہوں گے ، اس لئے ان کے داؤ پیچ بھی دیسی قسم کے ہوتے ہیں ۔ تاہم ڈاکٹر حسین محی الدین نئے دور کے آدمی ہیں ، ہمیں توقع ہے وہ ماڈرن ریسلر بنیں گے اوراپنے والد ماجد کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے نیک نام کمائیں گے اور پاکستان کی خدمت کا سہرا ماتھے پر باندھ کر گھومیں گے ۔ اللہ ان کے ارادوں کی تکمیل کرے!

مزید :

رائے -کالم -