خرم قادر اور پاکستانی پہچان
مَیں یہ کالم منفرد تاریخ داں، عمرانی علوم کے ماہر اور دیرینہ دوست ڈاکٹر خرم قادر سے چھُپ کر لکھ رہا ہوں۔ اِس لئے کہ اب سے چھیانوے گھنٹے پہلے اُن پر زندگی میں پہلی بار (اور مرضی کے خلاف) جو موبائل فون مسلط کیا گیا، اُس بارے میں مجھے ایک بنیادی یاد دہانی کراتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس ہورہی ہے۔ یاد دہانی یہ کہ آپ کا فون خراب نہیں ہوا، صرف وقفے وقفے سے بیٹری کو چارج کرنا ضروری ہوتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے ’میرے ہمسفر‘ میں فیض احمد فیض کے شخصی خاکے میں اسی طرح کا ایک واقعہ تحریر کیا تھا۔ فیض صاحب نے، جو روزنامہ ’پاکستان ٹائمز‘ اور ’امروز‘ کے ایڈیٹر تھے، جب پہلی مرتبہ کار خریدی تو ایک روز دفتر کے ساتھیوں کو لے کر نکلے۔ راستے میں گاڑی اچانک بند ہو گئی تو مستری کو بلایا گیا۔ مستری نے کہا ’صاحب جی، یہ کار ہے اور پٹرول ڈالیں تو چلتی ہے‘۔
فیض احمد فیض اور خرم قادر کے درمیان مماثلتیں یہیں تک محدود نہیں۔ خوش مزاجی، انسان دوستی اور خاندانی پس منظر اِس کے علاوہ ہے۔ فیض صاحب خان بہادر سلطان محمد خاں کے صاحبزادے تھے۔ وہی سلطان محمد خاں جو بطور طالب علم لاہور کی چینیوں والی مسجد کے حجرے میں رہنے پہ مجبور ہوئے، پھر دربارِ کابل میں چیف سیکرٹری کے منصب تک پہنچے اور لندن میں بیرسٹری کی تعلیم کے دوران ڈیوک آف ونڈسر کے ساتھ پولو کھیلتے رہے۔ فیض کے والد پر ایک انگریز خاتون نے ناول بھی لکھا تھا۔ اُدھر بیرسٹری میں انہی کے ہم عصر اور خرم قادر کے دادا سر عبدالقادر مخزن کے مدیر اور لاہور ہائی کورٹ کے جج تو خیر بنے ہی، آج سے پچانوے سال پہلے شاعرِ مشرق کے اولین اردو مجموعہ کا یاد گار دیباچہ بھی آپ ہی نے تصنیف کیا۔
اگر فیض کی ہونہار بیٹیوں اور اُن کی اولادوں کی طرح خرم کے باصلاحیت تایا چچا اور اُن کے بال بچے گنوانا شروع کروں تو یہ سلسلہ پھیلتا چلا جائے گا اور میری اصل بات بیچ میں رہ جائے گی۔
اصل بات یہ تھی کہ مَیں اپنے مرشد فیض احمد فیض کی طرح ہمدمِ دیرینہ خرم قادر کی خوش خلقی کو بھی ایک چالاکی ہی سمجھتا رہا یا یوں کہہ لیں کہ ’یہ تبسم، یہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو‘۔ وگرنہ بارہا خیال بھی آیا کہ یہ دونوں گونگے پہلوان اندر سے گُل محمد ہیں۔ وہی جس کے بارے میں کہا گیا کہ زمیں جنبد، نہ جنبد گُل محمد۔ یعنی زمین تو جنبش کرتی ہے، البتہ گُل محمد اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔ مَیں فیض مرحوم کو شعر میں ’کلاہ‘ کی جگہ ’کُلا‘ باندھ لینے پہ اصرار کرتے دیکھ چکا ہوں۔ اِسی طرح ایک مرتبہ راولپنڈی میں اپنے میزبان اور بہت پیارے عقیدت مند ڈاکٹر ایوب مرزا کی نثری نظموں کے مجموعہ پر، ڈاکٹر صاحب کی خواہش کے باوجود، یہ کہہ کر رائے دینے سے انکار کر دیا کہ نظم تو ہوتی ہی ضابطے کی پابند ہے اور نثر اس کے برعکس بکھری ہوئی چیز۔ پھر دل رکھنے کو کہہ گئے ’بھئی، اتنے لوگوں نے اس مجموعے کی تعریف کی ہے تو اچھا ہی ہوگا‘۔
خرم قادر کا طریقِ واردات ذرا مختلف طرز کا ہے۔ چار سال پہلے مَیں نے ’خوش کلامی‘ میں کہا تھا یہ تاریخ داں علمی میدان میں زرگر کی تکنیک سے کام لے کر تحقیق کا محل کھڑا کر دیتا ہے۔ آپ مجھے سخن فہم کہیں یا غالب کا طرف دار، لیکن تاریخ نویسی پر میرے ممدوح کی ابتدائی کتاب سے لے کر ’طبقاتِ سلاطینِ دہلی‘ اور پھر تازہ ترین تصنیف ’بلادالسندھ اور اُن کے باسی‘ میرے اِس مشاہدے کی سچائی کا ثبوت ہیں۔ پھر بھی مجھ سمیت کئی آشنا ایسے ہیں جو ہمارے زمانہء طالب علمی ہی سے ایک نیم سنجیدہ جذبہ کے ساتھ یہ اعتراض کرتے آئے ہیں: ’ہمارا یار خرم قادر اِس امر کو یقینی بنانے کی شعوری کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اُس کے ٹکڑا ٹکڑٓا جوڑے گئے دلائل کسی کی سمجھ میں نہ آنے پائیں اور جب وہ محسوس کرتا ہے کہ اُس کی دلیل کچھ کچھ لوگوں کی سمجھ میں آنے لگی ہے تو وہ اپنی دلیل ہی بدل لیتا ہے‘۔
فی الوقت اِس مسئلہ کی نوعیت کیا ہے، یہ جاننے کے لئے بلاد السندھ والی تازہ کتاب کو لے لیں۔ میرے دو اعلی تعلیم یافتہ دوست ایسے ہیں جن میں سے ایک نے بطور تحفہ اور دوسرے نے قیمت ادا کرکے اِس کی ورق گردانی کی، مگر جلد ہی پرانے دَور کی یہ فلمی استھائی گنگنانے لگے ’اٹھا لو پاندان اپنا، مَیں باز آیا محبت سے……‘ وضاحت مانگنے پر بولے: ’ہمیں سب الفاظ کے معانی معلوم ہیں اور ہر فقرے کا مطلب بھی نکال لیتے ہیں۔ پھر بھی مجموعی مفہوم سمجھ میں نہیں آ رہا‘۔ عرض کیا کہ ایک تو اِس کتاب کا سب ٹائیٹل ہے ’سماجی تاریخ، تہذیبی تناظر‘ جو ہمارے لئے ہزارہا برس کے تسلسل کو دیکھنے کا ایک نیا انداز ہے۔ دوسرے کہیں ِ ایسا تو نہیں کہ ٹی وی کے چٹخارے دار ٹاک شو دیکھ دیکھ کر ہمیں ایسی نثر کو سمجھنے کی عادت ہی نہ رہی ہو جس کا ہر جملہ ایک الگ معنیاتی اکائی ہے۔ تو، جناب، چکر کیا ہے؟
کاش میرے یہ دوست گزشتہ منگل کی صبح گیا رہ بجے پنجاب یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈی سنٹر میں موجود ہوتے جہاں ڈاکٹر خرم قادر نے سنٹر کے ڈائرکٹر پروفیسر اقبال چاولہ کے زیر ِصدارت ’پاکستانی کون؟‘ کے موضوع پہ گفتگو کی۔ دعوت نامہ میں درج اُن کی تصانیف میں اول نمبر پہ تھی ’تاریخ نگاری، نظریات و ارتقا‘، پھر ’طبقاتِ سلاطینِ دہلی‘ اور آخر میں تازہ ترین کتاب ’بلاد السندھ اور ان کے باسی‘، ساتھ ہی یہ حوالہ کہ پاکستان کی شناخت پہ انگریزی مضامین کا مجموعہ فی الوقت زیرِ اشاعت ہے۔ نئے آنے والوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ خرم قادر بہاالدین زکریا یونیورسٹی میں تاریخ کے سابق پروفیسر اور چئیرمین، اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے بانی صدر شعبہ اور ایک وقت میں قائداعظم یونیورسٹی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری اینڈ کلچر کے ڈائرکٹر تھے۔ یہ صحیح ہے،لیکن مَیں تو اِس لیکچر کا ذکر اپنے ہی رنگ میں کروں گا۔
میرے الفاظ بطور طالب علم بی اے میں داس اور چیٹرجی نام کے دو مصنفین سے مستعار لئے گئے ہیں جن کی کتاب تھی ’پالیٹکس میڈ‘ ایزی‘۔ خدا کی قسم، منگل کی صبح پینتیس منٹ میں محدود ’پاکستانی کون؟‘ پہ اِس مربوط، قابلِ فہم اور دل نشیں گفتگو کو اگر کوئی ’یوزر فرینڈلی‘ عنوان دیا جا سکتا ہے تو وہ ہے ’خرم قادر میڈ ایزی‘۔ سب سے پہلے تو اُن کے یادگار لیکچر کا اختصار، جو آپ کے کالم نگار کے لئے یوں حیران کن ہے کہ اُس نے کالج کے زمانے سے لے کر ماضیء قریب تک موصوف کی جتنی نجی گفتگوئیں سُنیں اُن میں سے کوئی بھی ایک ’ورکنگ ڈے‘ میں اختتام کو نہیں پہنچی تھی۔ پھر بھی آخر میں دونوں طرف یہ خلش رہ جاتی کہ بیان ابھی مکمل نہیں ہوا۔ تازہ لیکچر کو تو اُس عظیم اخلاقی درس کی تمثیل سمجھنا چاہیے کہ لوگوں سے اُن کی عقلوں کے مطابق بات کرو۔ نہ صرف عقل کے مطابق بات کی بلکہ بیچ بیچ میں منجھے ہوئے علمائے کرام اور ذاکرینِ عظام کے مافِک سامعین کو مسکرا مسکرا کر بھی دیکھتے رہے۔
ابتدائی نمونہء کلام ملاحظہ کیجیے: ’ہم وادیء سندھ کے باسی دنیا کے قدیم ترین لوگوں میں سے ہیں کیونکہ مصر اور بابل کے بعد تمدن کا آغاز اسی خطے سے ہوا۔۔۔ بہرحال ’پاکستانی کون؟‘ کے ضمن میں پچیس سال پیشتر کی کہانی سناؤں گا جب میرا پہلی بار ٹرین کے ذریعے ایران جانا ہوا۔ ٹرین کوئٹہ سے چلی اور کوہِ تفتان والی سرحد پہ میر جاوہ جا پہنچی۔ یہاں مسافروں کے لئے انٹری اور ایگزٹ کے مرحلے تھے، جو پُر سکون کیفیت میں طے ہوئے۔ کسی نے کہا کہ بارڈر پہ ایرانی حکام کا رویہ سخت ہے، اِس لئے نظم و ضبط کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ اِس سے آگے تھا ریلوے اسٹیشن پہ زاہدان کے لئے ٹکٹ خریدنے کا مرحلہ۔ کوئی سوا سو آدمیوں کی لائن میں میرا نمبر پچیسواں ہوگا، مگر وہ دھما چوکڑی مچی ہے کہ خدا کی پناہ۔ مسافروں میں سے ایک افسر نما شخص کہنے لگا ’یہ پاکستانی لوگ یہی کچھ کرتے ہیں‘۔
مقرر نے تقریب میں موجود طلبہ و طالبات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مَیں آپ کی عمر میں تھا جب ’پاکستانی کون؟‘ کے سوال میں دلچسپی پیدا ہوئی تھی، لیکن میر جاوہ کے اسٹیشن پہ اُس افسر ٹائپ آدمی کا جملہ سُن کر میرے شوق کو مہمیز لگی۔ ’اب ایک تو مجھے اُن محفلوں کا خیال رہنے لگا جہاں مزدور بیٹھتے ہیں، جہاں عام لوگ بیٹھتے ہیں‘۔ عام پاکستانی کی تلاش میں خرم قادر کو لاکھوں برس پہلے دو بر اعظموں کے ٹکراؤ سے لے کر قبل مسیح دور کے پارتھی، ہُن اور کشان حکمرانوں کی سفر گاہوں سے گزرنا پڑا۔ پھر برطانوی سامراج، عہدِ آزادی اور وہ چیلنج جن کے جوابوں کی چھوٹی چھوٹی پڑیاں ہمارے مصنف کو اِس دشت کی سیاحی میں کئی نیم معلوم گزرگاہوں سے چُن چُن کر جیب میں سنبھالنی پڑیں۔ اِس روئداد کا عنوان ہے ’بلاد السندھ اور اُن کے باسی: سماجی تاریخ، تہذیبی تناظر۔ خرم قادر میڈ ایزی میں اِس کا ترجمہ ہو گا ’پاکستانی کون؟‘ ہاں، متن مشکل لگے تو چاروں اجزا میں سے آخری جزو پہلے پڑھیے، پھر دوسرا اور تیسرا، اور آخر میں پہلا، اِس لئے کہ ’ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد‘۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔