وزیر اعظم بات چیت کا راستہ کھولیں 

 وزیر اعظم بات چیت کا راستہ کھولیں 
 وزیر اعظم بات چیت کا راستہ کھولیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جمہوریت ایک دوسرے کی رائے کے احترام کا نام ہے،اگر حکومت کو ملکی پالیسیاں بنا کر ان پر عمل درآمد کا حق ہوتا ہے تواپوزیشن کی تنقید بھی ایک آئینی دائرہ ہے۔اقتدار اور اختلاف جب ایک دوسرے کو نہ سنیں تو یہ ملک کیلئے اچھا ہے نہ جمہوریت کیلئے۔پارلیمنٹ سننے سنانے کیلئے ایک بہترین فورم ہوتا ہے مگر جلسے جلوس بھی ایک جمہوری روایت ہے۔ایک وقت تھا اس ملک میں پیپلز پارٹی مزاحمتی سیاست کی علمبردار تھی مگر اب اس سیاست کے بلاشرکت غیرے،ہیرو میاں نواز شریف ہیں۔اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو دو سال مہلت دی،اس کے بعد گیارہ سیاسی جماعتوں نے مل کر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد قائم کر کے احتجاجی تحریک شرع کر دی ہے،اس سلسلہ میں پہلا جلسہ گوجرانوالہ اور دوسرا کراچی میں منعقد کیا گیا، دونوں جلسوں کی حاضری قابل ذکر تھی۔اس کے با وجود کہ اپوزیشن جماعتوں کا بیانیہ مشترک ہے نہ ایجنڈاایک،احتجاجی تحریک کے بارے میں عام شہری کویہ اعتراض ہے کہ یہ تحریک عوامی مسائل کے حل کیلئے نہیں بلکہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی مرکزی قیادت کو درپیش مقدمات اور ریفرنسزسے نجات کیلئے ہے،عوام تو دو سال سے مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں،مگر اپوزیشن نے ماضی میں  عوامی مسائل کو ایشو نہ بنایا۔


عوام درحقیقت فوری مسائل سے نجات چاہتے ہیں خاص طور پر مہنگائی،اشیاء ضروریہ کی قلت،بیروزگاری سے فوری چھٹکارہ کے خوہشمند ہیں،اگر چہ امن و امان،فوری انصاف،پولیس گردی سے نجات،سرکاری محکموں میں رشوت خوری بھی عوام کے فوری حل طلب مسائل ہیں، سچ یہ کہ اب عوام کو غرض نہیں کہ اقتدار میں کون ہے؟کسے مستقبل میں حکمران بننا ہے؟عوام کی اکثریت جاننا چاہتی ہے کہ کون ملک و قوم کی تقدیر کا مالک بن کر عوام کے مسائل حل کرتا ہے،حکومت اگر چہ اس حوالے سے کوشاں ہے مگررفتار سست ہونے کے باعث عوام تاحال ثمرات سے محروم ہیں،عوام قلیل المدت حل چاہتے اور حکومت طو یل المدت حل کی متلاشی ہے جس کی وجہ سے عوام میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے اور ایک مرتبہ پھر ان کی سیاست اور انتخابی عمل سے دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔


بلاول بھٹو اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے الیکشن کے بجائے وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے حامی ہیں انہیں سندھ حکومت بچانے کی فکر بھی لاحق ہے والد آصف زرداری کیخلاف مقدمات اور ریفرنسز کا خاتمہ بھی چاہتے ہیں اور اب جزائر بارے صدارتی آرڈیننس بھی ان کیلئے مسئلہ ہے حالانکہ جزائر اور کوسٹل ایریا ہر ملک میں وفاق کی ملکیت ہوتے ہیں اور سندھ حکومت کب ان جزائر کو تجارتی بنیاد پر استعمال کر کے ریونیو حاصل کر رہی ہے اگر وفاقی حکومت ان جزائر کو آباد کر کے ان کا کمرشل استعمال چاہتی ہے تو یہ بھی دراصل سندھ کی ترقی ہوگی،اور ان تمام ایشوز کا عوام کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ ن لیگ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس  کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں اس لئے وہ سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیار ہے،اس کا اہم ترین مسئلہ قائم مقدمات اور دائر ریفرنسز ہیں،عدالتی سزاؤں سے معافی بھی ان کا مسئلہ ہے،اس کیلئے ان کی خواہش ہے فوری اسمبلیاں تحلیل اور حکومت کو گھر بھیج کر نئے الیکشن کرائے جائیں۔نواز شریف مقصد کے حصول کیلئے ریاستی اداروں خاص طور پر پاک فوج کو بھی ہدف بنائے  ہوئے ہیں مریم نواز اور چند ہارڈ کور رہنماء ان کیساتھ ہیں جبکہ شہباز شریف اب بھی مفاہمت کے خواہشمند ہیں۔


فضل الرحمٰن کے پاس بھی کھونے کو کچھ نہیں، طویل عرصے بعد وہ اقتدار سے باہر ہوئے ہیں،وہ اپنی سیاست بچا رہے ہیں،ان حالات میں اپوزیشن کی تحریک کی کامیابی بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر عوام آج بھی پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف بیانات کو نہیں بھول پائے۔ایسے حالات میں اپوزیشن نے حکومت مخالف محاذ قائم کر لیا ہے،عوام مگر اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں وہ تحریک انصاف کی حکومت کے ذریعے حل ہوں یااپوزیشن حل کرائے ان کو اس سے غرض نہیں،حکومت اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی عوامی حمایت چاہتا ہے تو اسے عوامی مسائل کو ترجیح بنانا ہوگا،اب وہی مستقبل کی سیاست میں رہے گا جو عوام کو مشکلات کے بھنور سے نکالے گا۔


میاں نواز شریف اور ن لیگ کو اپنے جارحانہ رویہ پر بھی نظرثانی کرناہو گی،سیاست اور اداروں کے درمیان احترام ختم ہو جائے تو طوفان بد تمیزی آتا ہے،لیگی قیادت اس روئیے کو روکے ورنہ اگر زبانوں پر لگے تالے کھل گئے، ادارے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے تو پھر کسی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی اور اللہ نہ کرے کہ جمہوری ادارے ڈگمگا ئیں۔بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کا یہ موقف درست کہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے، دوسری طرف حکومت کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے، اگر سیاست اور جمہوریت میں ڈائیلاگ اور بات چیت کا راستہ بند کر دیا جائے تو جمہوریت اپنے حسن سے محروم ہو جاتی ہے،وزیر اعظم صاحب بات چیت کا راستہ کھولیں۔

مزید :

رائے -کالم -