کچھ ہونے والا ہے

امریکہ میں مقیم میرے ایک دوست نے مجھے لکھا کہ پاکستان کے بہت سے دانشور جو عجیب عجیب باتیں کر رہے ہیں کیا وہ سب ٹھیک ہیں اور کیا واقعی پاکستان میں کچھ ہونے والا ہے یا وہ سارے شیخ چلی کے خواب ہیں۔ دیار غیر میں مقیم ہمارے پاکستانی پاکستان کے بارے خبریں اور تبصرے سن کر پریشان رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے دانشوراپنے اداروں کے بارے وہ باتیں کرتے ہیں،جو شاید ان کے ملکوں میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان کا انداز جس تھالی میں کھانا اسی میں چھید کرنے والا ہوتا ہے۔ اپنے وطن سے دور یہ لوگ وطن میں استحکام چاہتے ہیں۔مستحکم حکومت ان کا خواب ہے۔ سنجیدہ اپوزیشن ان کا خیال ہے، مگر خواب تو خواب ہوتے ہیں، جن کی تعبیریں نہیں ملتیں اور خیال تو فقط خیال ہوتے ہیں۔پردیس میں وہ جب بڑے شوق سے پاکستانی چینل دیکھتے ہیں تو انہیں ہمارے دانشوروں کے تبصرے پریشان کر دیتے ہیں۔ یہاں اصل دانش مفقود ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو لوگ اسے اہمیت نہیں دیتے۔قومی سطح پر سنجیدگی اور برد باری مفقود ہے۔یہاں کے لوگوں کو ہیجان پسند ہے، جھوٹ اور ریاکاری اچھی لگتی ہے۔ مار دھاڑ اور نعرے بازی سے انہیں پیار ہے۔اس حوالے سے ایک نئی دانش ابھر کر آئی ہے۔ آج سیاسی حوالے سے یہی دانش ہر جگہ، ہر اخبار اور ہر چینل پر چھائی ہوئی ہے، دانشو ر سیاسی حالات کا ایسا سماں باندھتے ہیں کہ لگتا ہے کہ واقعی کچھ ہونے والا ہے۔ویسے پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔ کچھ نہ ہو تو بڑا عرصہ نہ ہو اور ہونے لگے تو کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ویسے لمبے عرصے تک کچھ نہ ہونا اس ملک میں عوام کے لئے تشویش کا باعث ہوتا ہے۔
یہاں اپوزیشن اور حکومتی دھینگا مشتی روز کا معمول ہے۔ مجھے کبھی کبھی اس حوالے سے منٹو کے ایک ڈرامے کے دو کردار میاں بیوی یاد آتے ہیں جو روز لڑتے ہیں روز صلح کرتے ہیں۔ لڑائی سے پہلے اور بعد ایک دوسرے کے مفادات کا خیال بھی رکھتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے لڑائی کبھی ہوئی ہی نہیں۔ صبح اٹھتے ہی کسی بات پر جھگڑا شروع ہو گیا۔ بات بڑھنا شروع ہوئی تو تھوڑی دیر میں دونوں پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ان کا مچایا شورپورا محلہ سن رہا تھا اور روز کی طرح ان کی باتیں سن کر لوگ خوب انجوائے کر رہے تھے۔ پھرمیاں نے اعلان کیا کہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا، میں دفتر جا رہا ہوں۔ میرے آنے تک تم یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ میں شام کو تمہاری صورت نہ دیکھوں۔میاں کے باہر نکلتے ہی لڑائی وقتی طور پر ختم ہوگئی۔شام کو میاں واپس آیا تو بیوی نے ایک خالی سوٹ کیس ایک طرف رکھا تھا۔ کچھ کپڑے پاس رکھے تھے۔پہلے اس نے مسکرا کر میاں کی طرف دیکھا پھر کہنے لگی، میں جا رہی ہوں۔ مَیں نے اپنے بھائیوں سے بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گھر میں ایک کمرہ میرے لئے خالی کرا دیا گیا ہے۔ میرے بیٹے کے داخلے کا شہر کے بہترین سکول میں بندوبست بھی کر دیا ہے۔ وین والے سے بھی بات ہو گئی۔ اسے سکول لے کر جانے اور واپس لانے کی پریشانی بھی ختم۔ بس میں بیٹے کو ساتھ لے جا رہی ہوں۔ تم اکیلے بیٹھو۔ خدا حافظ۔ میاں نے پریشان ہو کر پوچھا کہ واقعی بیٹے کو ساتھ لے کر جا رہی ہو۔ بیوی کے ہاں کہنے پر وہ باقاعدہ رونے لگا کہ مَیں اپنے بیٹے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مجھ پر یہ ظلم نہ کرو۔ اسے روتا دیکھ بیوی اسے منانے لگتی ہے کہ آئندہ مجھ سے مت لڑنا۔ دونوں میں صلح ہو جاتی ہے، اگلی لڑائی تک،جو لازمی ایک دو دن بعد ہونی ہوتی ہے۔
دو تین دن بعد ان کے گھر میں پھر جنگ و جدل کا سماں تھا۔اس دفعہ میاں کا پلڑا بھاری تھا۔ میاں نے اعلان کیا کہ اس نے ایک گورنس سے بات کرلی ہے۔ وہ گورنس یہیں رہ کر بچے کی مکمل دیکھ بھال کرے گی۔وہ بڑی معقول تنخواہ لے کر ایک ماں سے بہتر بچے کا خیال رکھے گی،اسے پیار دے گی۔اب بھول جاؤ اپنے بیٹے کو۔ جہاں جانا ہے جاؤ، مگر یاد رکھو بیٹا میرے ساتھ رہے گا۔”بیٹے کو تم زبردستی رکھو گے“، یکدم اس نے گھبرا کر بڑی بیچارگی سے پوچھا۔میاں نے ہاں کہا تو وہ رونے لگی۔ مَیں اپنے بیٹے کے بغیر مر جاؤں گی۔ ایسا مت کرنا۔ اسے روتا دیکھ کر وہ بھی دکھی ہو گیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو منایا اور ہنسی خوشی باتیں کرنے لگے۔ یہ ان کی روز کی روٹین تھی۔ وہ لڑتے تھے اور بیٹا ان کی صلح کرا دیتا تھا۔ہمسایوں کے گھر کوئی مہمان چند دن کے لئے آیا ہوا تھا۔ اس نے دو تین دفعہ یہ تماشہ دیکھا تو گھر والوں سے کہا، کمال لوگ ہیں روز لڑتے ہیں اور آخر میں ان کا بیٹا ان کی صلح کرا دیتا ہے، مگر کیا بات ہے وہ صلح کرانے والا بیٹا کبھی نظر نہیں آیا۔ ہمسایوں نے ہنس کر جواب دیا کہ بیٹا ہے نہیں،ہونے والا ہے۔ہمارے سارے قومی جھگڑے بھی اسی ہونے والے کے لئے ہی ہیں۔
کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے کہ سادہ دل عوام بھی اس غلامی کے اس قدر عادی ہیں کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بیماری میں ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں، پڑھنے کے لئے استاد سے، چیزوں اور مشینری کی دیکھ بھال کے لئے انجینئر سے، بال کٹوانے ہوں تو حجام سے، مٹی کا برتن خریدنا ہو تو کمہار سے،جس کام کا جو ایکسپرٹ ہوتا ہے اسے تلاش کرنا ہوتا ہے، مگر افسوس کہ سیاست کے لئے ہم ان کا انتخاب کرتے ہیں، جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جو سیاست کے مفہوم سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ فقط ایک گلیمر، کچھ نعرے بازی آج سبھی سیاست دان ہیں۔خدمت خلق، تحمل، برد باری، خیر خواہی اور عوامی رسائی جو سیاست دان کے بنیادی عناصر ہیں کسی سیاستدان میں نظر نہیں آ+تے۔ سیاسی پارٹیوں کا بھی عجیب عالم ہے۔ کوئی سیاست دان ایسا نظر نہیں آتا جو پروردہ نہ ہو۔ سبھی کسی نہ کسی کے سند یافتہ ہیں، مگر کبھی مقصد کے حصول میں مشکل پیش آئے تو اداروں کو برا بھلا کہنے میں دریغ نہیں کرتے۔ یہ اب اس ملک کا کلچر بن گیا ہے۔ اِس لئے ہمارے سیاسی کلچرمیں ہمیشہ یوں لگتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔