عوام کے ساتھ کون؟

سیاست دان مہنگائی کا ذکر کرتے ہیں، لیکن انہیں مہنگائی سے واسطہ نہیں پڑتا،اِس لئے کہ وہ اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں،جس کے افراد جیب میں پیسے نہیں رکھتے۔ گھر میں بیگم سودا سلف سے فارغ رہتی ہیں، اُنہیں صرف شاپنگ مالز سے واسطہ پڑتا ہے اور اس کے لئے بھی کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ موجود ہوتا ہے،کچھ رقم راستے میں فقیروں کے جمگھٹے سے بچنے کے لئے رکھ لی جاتی ہے، اور وہ بھی ڈرائیور کے پاس ہوتی ہے۔ صاحب جب باہر نکلیں تب بھی روپیہ ڈرائیور یا سیکرٹری کے پاس ہوتا ہے۔ گئے زمانوں کے بادشاہ انعام کے لئے حکم نہیں دیتے تھے،گلے میں پڑے ہوئے سونے اور موتی کے ہار اچھال دیا کرتے تھے کہ یہی متکلم کا اندازہے…… بازار جانے کا کس کو ہوش کہ انتخابی عمل کے بعد سیاست دان پردے میں بیٹھ جاتے ہیں، کبھی کبھار منعقد ہونے والے پارلیمانی اجلاسوں کے بیوٹی پارلرز میں کیٹ واک کرتے نظر آتے ہیں۔ تب لوگ اُن کی شکل دیکھ کر انہیں پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارے حکمران تو ان بیوٹی پارلر میں بھی سال میں شاید ایک دو بار ہی جانا پسند کرتے ہیں۔وہ بھی اُس وقت جب انہیں کسی اور پُرشوق مصروفیت کا سامنا نہ ہو۔ سیاست دانوں کے برعکس ہمارے دیگر حکمرانوں کا تعلق تو ویسے ہی عوام سے نہیں ہوتا؟ لہٰذا انہیں نہ تو پارلیمینٹ میں آنے کا مسئلہ ہے اور نہ ہی کسی جلسہ سے خطاب کرنا ہوتا ہے،وہ تو سالانہ کھانے پر ہی جلسے کا مزہ لے لیتے ہیں،لہٰذا نہ انہیں جلسہ کرنا ہے، نہ سوال کا جواب دینا ہے۔ ان کے لئے بھی مہنگائی مسئلہ نہیں، کہ وہاں تو سب کام ملازمین سرکار ہی نپٹا دیتے ہیں۔جب سے پی ٹی آئی برسر اقتدار آئی ہے، مہنگائی کا ذکر بڑھ گیا ہے اور وہ اس لئے کہ مہنگائی بھی بڑھ گئی ہے، لیکن اس کے باوجود مہنگائی کا ذکر مریم نواز، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے کم ہوتا ہے۔
پاکستان کے ہر دلعزیز شاعر احمد فراز کے صاحبزادے آج کل وزیر اطلاعات ہیں،انہیں کم از کم یہ تو خیال ہونا چاہئے کہ مہنگائی کا سد ِباب کرنے میں حکومت کی بجائے عوام کا ساتھ دیں اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کم از کم سرکاری ٹی وی پر ایسے پروگرام پیش کئے جائیں جن سے مہنگائی کے اصل اسباب اور ذخیرہ اندوز عوام کے سامنے آئیں ……یہ ایک حقیقت ہے کہ مہنگائی کا اصل ذمہ دار غلہ منڈیوں، سبزی منڈیوں اور فروٹ منڈیوں پر قابض آڑھتی ہے جو وقتاً فوقتاً کسی ایک چیز کی مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کی جیب سے کئی گنا اضافی رقم وصول کر لیتا ہے۔ ابھی چند روز قبل بازار میں ٹماٹر اچانک تین گنا بڑھ گیا۔ سبزی فروشوں نے کم ٹماٹر خریدا اور اگلے روز ٹماٹر آدھی قیمت پر آ گیا،لیکن ایک ہفتہ قبل کا60 روپے کلو کا ٹماٹر 100روپے سے زائد پر فروخت ہو رہا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہری انتظامیہ کہاں ہے، پرائس کنٹرول کمیٹی کہاں ہے، کیا یہ کمیٹی بھی ان آڑھتیوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے؟
عمران خان مہنگائی کے حوالے سے کبھی کبھار بات تو کرتے ہیں،لیکن ان کی حکومت مہنگائی کے اسباب اور ان کے ذمہ داروں کے ساتھ اتحاد کئے ہوئے ہے۔چینی، آٹا اور پٹرول کے حوالے سے ماضی قریب میں،بلکہ حالیہ دور میں جو انکشافات ہوئے ان سے یہ واضح ہوا کہ خود پی ٹی آئی کے سرکردہ افراد اور وزیراعظم کے قریبی ساتھی اس کاروبار میں شامل تھے اور ابھی تک اُن میں سے کوئی ایک بھی کسی احتسابی عمل یا پارٹی کے حوالے سے کسی ڈسپلن میں شامل نہیں کیا گیا۔مہنگائی کے اس خونخوار سیلاب کے درمیان ہی مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم بنوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مولانا نے نوابزادہ نصر اللہ خان کا خلا پُر کر دیا ہے۔نوابزادہ تمام زندگی حکومتوں کے خلاف متحدہ محاذ بناتے اور توڑتے رہے۔ نوابزادہ انتہائی خوش گفتار، خوش مزاج، بذلہ سنج اور سخن فہم تھے۔ مجھے ان کی سیاست سے ہمیشہ اختلاف رہا،لیکن نیاز مندی ہمیشہ قائم رہی۔مَیں اُن کے لئے اساتذہ کا کلام ڈھونڈ ڈھونڈ کر لے جاتا اور ان سے شعر سنتا۔ وہ میرے بائیں بازو کے خیالات سے واقف تھے اور میرے جذبات کا احترام کرتے تھے۔ پاکستان عوامی اتحاد (پی اے آئی) انہوں نے میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف قائم کیا اور اس میں بے نظیر بھٹو بھی موجود تھیں۔ نوابزادہ صاحب کا ذکر چل نکلا ہے تو ایک اہم بات کا ذکر ہو جائے۔انہوں نے کارگل ایڈونچر کے حوالے سے پی اے آئی کی ایک کمیٹی بنانے کی کوشش بھی کی تھی اور اس کمیٹی میں سید کبیر واسطی بھی شامل تھے۔ کمیٹی نے چند اہم افراد سے ملاقات بھی کی، سب کا خیال تھا کہ یہ ایک غلط اقدام تھا، لیکن اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہ ہو سکا اور وزیراعظم فارغ کر دیئے گئے۔ آج وہی سابق وزیراعظم ایک مرتبہ پھر مقدمات کی زد میں ہیں، لندن کے پُرفضا ماحول میں سکون سے زندگی گزار رہے ہیں،لیکن پاکستان میں ہلچل مچا رہے ہیں۔
سیاست دانوں نے دُنیا بھر میں اپنے ملک کے عوام کی زندگی کی بہتری کے لئے سیاست کی ہے اور ان کا اختلاف بھی اسی حوالے سے ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں بنیادی مفادات حکمران طبقوں کے ہیں۔امریکہ ہو، بھارت یا پاکستان، حکومتیں بڑے سرمایہ داروں اور تاجروں کے مفادات کو سامنے رکھ کر اپنے پروگرام تشکیل دیتی ہیں۔بھارت میں مودی حکومت نے روشن بھارت کا نظریہ دیا،لیکن آج بھارت انسانی حقوق اور معاشی نمو کے حوالے سے تاریک ہو رہا ہے۔ برطانیہ کا سرمایہ دارانہ نظام اپنے بنیادی،یعنی سرمایہ دارانہ مفاد کے ساتھ، عوام کی زندگی کی بہتری کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔یہی صورتِ حال فرانس، جرمنی، جاپان، سنگاپور، کوریا اور دیگر سرمایہ دارانہ جمہوری ممالک کی ہے، لیکن پاکستان واحد ملک ہے جہاں عوام کی زندگی روز بروز جہنم بن رہی ہے۔ کورونا کی وبا نے سکول بند کروا دیئے اور اب پرائیویٹ سکول والدین سے بیک وقت پانچ ماہ کی فیس وصول کرنا چاہتے ہیں۔کیا کسی اپوزیشن لیڈر یا حکومتی وزیر کو اس تکلیف دہ صورتِ حال کی خبر ہے کہ کتنے خاندانوں نے اپنے بچے سکول بھیجنے بند کر دیئے ہیں۔ملک میں سرکاری تعلیمی ادارے آبادی کے حوالے سے انتہائی کم ہیں اور جو ہیں ان کا معیارِ تعلیم ہم سب جانتے ہیں۔