عمران خان صاحب کے تضادات

عمران خان کی پاکستان میں ایک بہترین نظام بنانے، ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے، عدلیہ کو درست کر کے عوام کو سستا انصاف دلانے، تعلیمی نظام ایک کرنے، ٹیکس کا نظام ٹھیک کر کے ٹیکس کی آمدن کو کئی ہزار گنا بڑھانے اور ملک کو خوشحال بنانے، اس ملک کے وسائل کو بروئے کار لا کر عوام کو خوشحال کرنے، ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنے، سیاسی جماعتوں کو حقیقی جمہوری جماعتیں بنانے، تمام بدعنوان سیاستدانوں اور بیوروکریٹس(سول و فوجی) کو پکڑ کر ان سے لوٹی ہوئی دولت کو واپس لا کر ملکی خزانے کو بھر دینے، ملک میں اتنی نوکریاں پیدا کرنے کہ بیرون ملک سے بھی لوگ پاکستان میں نوکریاں کرنے آئیں، حکومتی اللے تللے ختم کر کے حکومتی اخراجات کو انتہائی کم کرنے، وزیراعظم ہاؤس اور گورنرز ہاؤسز کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنے، وزیراعظم اور وزراء سمیت تمام حکام بالا کو بغیر پروٹوکول آنے جانے(جس میں وزیراعظم سائیکل پر بھی آ جا سکتا ہے،)، کابینہ کو انتہائی مختصر کرنے، ملک کو معاشی خود مختاری دیکر عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے نجات دلانے اور امریکی دباؤ اور جنگ سے نکال کر اپنی خارجہ پالیسی کو مکمل آزاد کرنے کی جدوجہد اور دعوے بائیس سال پر محیط ہیں۔ لیکن عمران خان کی حکومت قائم ہوئے دو برس 3 ماہ ہوئے ہیں یا یوں کہیے کہ ان کی حکومت کی درمیانی مدت پوری ہونے کو ہے۔
لیکن ابھی تک اپنے کسی ایک دعوے پر پورا یا آدھا بھی عملدرآمد نہیں کروا سکے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یہ ناچیز کا مقصد عمران خان صاحب پر تنقید کرنا ہے۔ نہ میں ان کی مخالف حزب اختلاف کا حصہ ہوں۔ میری خواہش تو وطن عزیز کا نظام ٹھیک کرنا اور خوشحال بنانا ہے اور میری کوشش تو یہ جاننا ہے۔ کہ وہ کونسی مشکلات ہیں۔ کیا رکاوٹیں ہیں جو کسی بھی جماعت یا اس کی قیادت کو اپنے دعوؤں اور وعدوں پر عمل کرنے سے عاجز کر دیتی ہیں؟
اوپر میں نے عمران خان صاحب کے ان چیدہ چیدہ دعوؤں اور وعدوں کا ذکر کیا ہے۔ (حالانکہ ان کے دعوے اور بھی بہت سارے تھے) لیکن اگر ماضی قریب یا 2018 کے انتخابات کے موقع پر کی گئی عمران خان صاحب کی تقاریر کا جائزہ لیں تو ان میں ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے 50 لاکھ مکان بنا کر بے گھر لوگوں کو دینے اور سابقہ وزراء اعظم صدور سمیت تمام سابقہ بدعنوان حکام کا احتساب کرنے کے دعوے بڑے زور و شور سے ہوئے۔ پھر وزرات عظمی کا قلمدان سنبھالتے ہی 100 روزہ پروگرام ترتیب دیا گیا تاکہ حکومت کی ڈائریکشن کا عوام کو اندازہ ہو سکے، وہ 100 روزہ پروگرام اچھا پروگرام تھا۔۔۔۔ کہنے کی حد تک، اس کے بعد حکومت پرانی حکومتوں کے راستے پر چل نکلی۔
لیکن عمران خان صاحب مسلسل جو گردان کرتے آ رہے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہم چوروں کو چھوڑیں گے نہ این آر او دیں گے(یہ این آر او کی اصطلاح صرف پاکستان میں ہے اور اس کے بانی ایک سابق چیف آف آرمی سٹاف اور سابق صدر پرویز مشرف صاحب ہیں۔) باقی کسی ملک میں یہ لفظ ہے نہ اس کا استعمال ہے۔ اب جو سوال ہم عمران خان صاحب سے پوچھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ جناب وہ پاناما کیس کا کیا ہوا؟ 4 سو سے زائد لوگ جو پانامہ میں ملوث تھے۔ ان میں سے کتنوں کو سزا ہوئی اور ان سے لوٹی ہوئی رقم واپس قومی خزانے میں آئی؟ ہم جناب سے کمر توڑ مہنگائی کی وجہ پوچھتے ہیں نہ ملکی ترقی کے اعداد و شمار کا سوال کرتے ہیں۔ ہم آپ کو صرف یہ پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف کون سے این آر او کے تحت جا کر لندن بیٹھے ہیں اور اب وہاں بیٹھ کر گوجرانوالہ میں جلسے کر رہے ہیں؟ جب میاں صاحب پاکستان کی جیل سے باہر ہسپتال میں آئے پھر خصوصی طیارے میں بیٹھ کر لندن گئے اس وقت جناب اور جناب کی حکومت کہاں تھی؟ آپ کے پاس کوئی ایسا ڈاکٹر بھی نہ تھا جو میاں صاحب کی بیماری کے دعوے کی تصدیق یا تردید کر سکتا؟ یا پھر یہ کہ کسی نے آپ سے پوچھا ہی نہیں اور آپ کو صرف ڈرا دیا کہ اگر میاں صاحب کو کچھ ہو گیا تو سارا مدعا آپ پر پڑ جائے گا؟ جناب خان صاحب آپ ایک لیڈر ہیں اور لیڈر کی دانش اور جرائت کا ایسے ہی موقع پر پتا چلتا ہے۔ اگر آپ کو اس بات سے ڈرایا جا رہا تھا کہ میاں صاحب کو کچھ ہو نہ جائے تو آپ ملک کے بہترین ڈاکٹروں سے ان کا چیک اپ کروا سکتے تھے اور ملک کے بہترین ہسپتال میں ان کا علاج بھی کروا سکتے تھے۔ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ میاں صاحب آپ کے بنوائے ہوئے بہترین ہسپتالوں کے ہوتے ہوئے آپ کو بیرون ملک جانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ چوروں کی جگہ صرف جیل ہے ان کی بیماریوں کا علاج بھی جیل میں ہی ہوتا ہے۔ اور اگر خدانخواستہ کسی چور کی موت بھی واقع ہو جائے تو کیا ہوا موت بھی تو اٹل ہے۔ کیا آپ نے کسی بھی مہذب ملک کے کسی چور کو بیماری کی وجہ سے کسی دوسرے ملک جاتے دیکھا یا سنا ہے۔؟؟ جناب خان صاحب یا تو آپ یہ تسلیم کر لیں کہ میاں نواز شریف چور نہیں ہیں۔ یا پھر یہ مان لیں کہ ملک میں حکومت آپ کی نہیں ہے۔ جناب جتنی دھوم سے آپ کے دھرنے پاناما ڈرامہ پر ہوئے تھے اس سے زیادہ دھوم سے آپ کے دعوؤں کا جنازہ اٹھا ہے۔
آپ کی حکومت اپنی آدھی مدت پوری کرنے کو ہے۔ ملک میں ٹیکس کے نظام کی بہتری کی طرف کوئی ایک قدم ابھی تک کیوں نہیں اٹھایا جا سکا؟ جناب اگر آپ سزا یافتہ عورت مریم بی بی کو جیل میں رکھنے کی سکت نہیں رکھتے تو کم از کم آئندہ نسلوں کے لیے عدالتی نظام ہی کی بہتری کی طرف ہی کوئی اقدام کر لیجیے۔ جناب اس سے پہلے کہ آپ کی اپنی باری آجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حالت ہی بدلنے کی کوشش کر لیں!!
یہ خاکسار گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے جلسے کو کوئی اہمیت دیتا ہے۔ نہ حزب اختلاف کی قیادت کے جھوٹے واویلے کی کوئی پرواہ کرتا ہے۔ میں تو حکومتی گرتی ساکھ کی بھی بات نہیں کرتا اور لوگوں سے کہتا ہوں کہ عمران خان صاحب کی حکومت ناکام نہیں ہوئی، کسی حکومت کی کارکردگی کو مہنگائی پر نہیں جا نچا جا سکتا ہے۔ لیکن حکومتی ڈائریکشن تو نظر آنی چاہیے نا کہ حکومت عوام پر جو مشکلات کے پہاڑ گرا رہی ہے اس کے پیچھے خوشحالی چھپی ہے