حکومت اداروں کو غفلت، نجی شعبہ کو ایل این جی درآمد کرنے میں مشکلات، گیس بحران کا شدید خطرہ
کراچی(آن لائن) حکومت کی ایل این جی سیکٹر میں نجی شعبے کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی پالیسی کے باوجود متعلقہ سرکاری اداروں کی سست روی نے نجی شعبے کو ایل این جی درآمد کرنے میں مشکلات سے دوچارکردیاجس سے ملک میں گیس بحران کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ ذ ر ا ئع کے مطابق گیس کے شعبے میں بھی توانائی بحران اور بڑھتے گردشی قرضوں کے پیشِ نظر جولائی 2019 ء میں ای سی سی نے تیسرے فریق تک رسائی کے تحت نجی شعبے کو اضافی ٹرمینل سہولت کے ذریعے ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن 15 ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حکومت ودیگر حلقوں کے ذاتی مفادات نے نجی شعبے کے ذریعے ایل این جی درآمد میں قانونی اور آپریشنل رکاوٹیں کھڑی کردیں ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستان سستے نرخوں پرحاصل ہونیوالی گیس تک رسائی سے محروم رہا اور رواں سال موسمِ سرما میں ملک کو یو میہ 1.5ارب کیوبک فٹ گیس کی قلت کا سامنا کرنا پڑیگا۔ذرا ئع نے بتایا اوگرا نے تھرڈ پارٹی تک رسائی کے قواعد و ضوابط صرف ڈرافٹ فا رم میں جاری کیے ہیں اور ایک ریگولیٹری باڈی کی حیثیت سے قواعد کو حتمی شکل دینے کیلئے اوگرا کو مار کیٹ پلیئرز سے مشورہ کرنا پڑیگا۔ ذ ر ا ئع کے مطابق مناست درخواستیں موصول ہونے کے باوجود اوگرا نے ملک میں سرمایہ کاری کی خواہشمند ایگزون، شیل، مٹسوبشی، ٹوٹل اور نجی شعبے کے دیگرپلئیرز کو تاحال ایل این جی مارکیٹنگ کا لائسنس جاری نہیں کیا جبکہ حکومتی پالیسی کے مطابق اس کا مقصد ایل این جی کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کیلئے اس شعبے میں نئے سرمایہ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ذرائع کے مطابق عالمی سطح پر 80 ملین ٹن سے زائد ایل این جی کی تجارت تیسری پارٹی تک رسائی کے نظام کے تحت سنبھالی جاتی ہے جو مجموعی طور پر ایل این جی سپلائی چین میں بہتر کارکاردگی اور مسابقت کی اجازت دیتا ہے، فی الوقت پاکستان میں دو ایل این جی ٹرمینلزآ پریشنل ہیں جنکی ریگیسی فیکیشن کی مجموعی صلاحیت1200 ایم ایم سی ایف ڈی ہے، چونکہ نئے ایل این جی ٹرمینل کو قائم کرنے میں تین سال کا عرصہ درکار ہے لہٰذا پاکستان موجودہ ٹرمینلز کی درآمدی صلاحیت اور اسٹوریج میں توسیع کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیے بغیر ملک میں ایل این جی کی زیادہ درآمدی ترسیل کو سنبھال نہیں سکے گا۔
گیس بحران