آج جو کیفیت ہے بیان کرنے سے قاصر ہوں،ایک فلمی گیت یاد آ رہا ہے ”کہنے کو بہت کچھ ہے،مگر کہہ نہیں سکتا، اپنی تو یہ عادت ہے۔ ہم کچھ نہیں کہتے“ اور کچھ نہ کہنے ہی کی وجہ سے اِدھر اُدھر کی بہت سی باتیں اور یادیں آ رہی ہیں۔ذہنی(سیاسی نہیں) انتشار کی وجہ سے اگر کوئی اِدھر اُدھر کی ہانک دوں تو معذرت قبول کیجئے اور اگر کسی قاری کو کوئی بات بُری لگے تو پہلے سے معافی مانگ لیتا ہوں کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔یہ سب حالات کے اثرات ہیں، آج صبح سبزی کے لئے اقبال ٹاؤن کی مبینہ منڈی کا رخ کیا تو سودا خریدتے وقت پریشانی لاحق ہو گئی، مٹر 400 روپے فی کلو، پیاز155روپے فی کلو اور ٹماٹر140 روپے فی کلو خریدے،دھنیا تول کر دیا گیااور لیموں 400 روپے فی کلو کے حساب سے خریدے یوں دماغ تو وہاں ہی شل ہو گیا کہ محکمہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت کا اصرار ہے کہ مہنگائی اب6.9فیصد تک رہ گئی ہے، حیرت تو یہ ہے کہ اس کے اثرات عام صارف پر کیوں مرتب نہیں ہو رہے۔صبح میرے پوتے نے ضد کی اور اس کے لئے پوری حلوہ منگوانا پڑا تو ایک پوری75 روپے کی ملی اسی سے اندازہ لگا لیں کہ صبح صبح بلڈ پریشر کی کیفیت کیا ہو گی۔
اب ذرا خود دوسری پریشانی کا ذکر کر لوں جو لاحق ہے، میں ہفتہ اور اتوار کو دفتر نہیں جاتا اور جدید علم کی وجہ سے گھر پر کام کرتا ہوں۔صاحبزادے عاصم کی چھٹی ہوتی ہے اور مجھے اس کا لیپ ٹاپ مل جاتا ہے،اب یہ لیپ ٹاپ ہو، کمپیوٹر یا موبائل اس کے لئے انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ عاصم چودھری نے گھر کے ٹی وی اور انٹرنیٹ کے لئے سٹارم فائبرز نیٹ ورک کا کنکشن حاصل کیا ہوا ہے، اس سے نیٹ مل جاتا ہے اور میں کام کر لیتا ہوں، لیکن مسئلہ کاروباری رقابت کا آ گیا اور ہمارے علاقے میں کیبل والے کاروبار پر بہت اثر پڑا،اب انہوں نے نجی نیٹ ورک کمپنی کو زچ کرنے کے لئے کنکشن کیبل کاٹنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ابتداء میں یہ پندرہ، بیس دن بعد یا کسی بڑے ایونٹ کے موقع پر کیا جاتا تھا، شکایت پر کمپنی کے ماہر آ کر ٹھیک کر جاتے تھے۔اب گذشتہ دس روز سے کمپنی کے اہلکاروں اور کیبل کاٹنے والوں کے درمیان مقابلہ شروع ہو گیا ہے وہ رات کو کیبل کاٹتے ہیں،شکایت درج ہوتی ہے اور دوپہر کے بعد کسی وقت درستگی ہوتی ہے۔ آج جو ذہن پر بوجھ پڑا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ رات بھر نیٹ آ رہا تھا،صبح ساڑھے سات بجے غائب ہو گیا اور گرین کی جگہ ریڈ لائٹ آ گئی جو اب تک جل رہی اور ڈھائی بجنے والے ہیں۔مجھے لیپ ٹاپ پر کام کرنا ہے اگر درستگی نہ ہوئی تو دفتر جانا ہو گا۔سٹارم فائبرز ایک بڑے صنعتی گروپ کا ہے جس کے پاس میڈیا کی ”قوت“ بھی ہے لیکن وہ بھی ابھی تک اس مشکل پر قابو نہیں پا سکے ماسوا اس کے کہ ایک دو بار پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کرائی، جو رپورٹ تک محدود رہی کہ کوئی ثبوت تو نہیں ہے۔
قارئین! آج ہم بھی ملکی، سیاسی اور معاشی انتشار کی طرح ذہنی انتشار کا مزہ لیتے ہیں اس لئے پھر سے جدید الیکٹرونک ایجادات کا ذکر کر لیتے ہیں آج کل سوشل میڈیا کا بہت چرچا ہے اور مجموعی طور پر امن پسند لوگوں کی واضح تر اکثریت تنگ آ چکی ہے،لیکن سب بے بس ہیں کہ خود انہی سنجیدہ حضرات کی(ہمارے سمیت) مجبوری یہ ہے کہ بچوں کو موبائل سے کھیلنے کی اجازت دیتے ہیں،جو موبائل پر ایسی چیزیں دیکھتے ہیں جو ان کو ذہنی انتشار میں مبتلا کرتے اور وہ مشتعل مزاج کے حامل ہوتے جاتے اور ان میں جارحیت آتی ہے اس کی وجہ سے یہ بچے تعلیم پر پوری توجہ نہیں دیتے اور گھر میں توڑ پھوڑ بھی کرتے ہیں، حتیٰ کہ بعض بچے والدین سے بھی بدتمیزی پر اُتر آتے ہیں۔بعض والدین مار پیٹ سے کام لیتے ہیں اور پڑھے لکھے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں،جو نگرانی کی حد تک کام آتی ہے تاہم والدین کی عدم موجودگی میں پھر وہی حال ہوتا ہے۔
اب ذرا اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال دیکھ لیں جو امریکہ اور اسرائیل کے ”کارناموں“ سے ظاہر ہو رہا ہے، پیجروں کا بم کی طرح پھٹنا،حماس اور حزب اللہ کے بڑے رہنماؤں کی جاسوسی اور ان کی شہادت کے سرے بھی اسی ٹیکنالوجی سے ملتے ہیں،ہمارے ایک کالم نگار نے تحقیق کے بعد لکھا تھا جو حقیقت ہے کہ اس ایجاد کرنے والوں کے مقاصد میں دنیا کے لوگوں کوذہنی غلامی یا انتشار میں مبتلا کرنا ہے کہ موبائل سروس یا انٹرنیٹ سروسنگ کے مرکزی سرور ان کے پاس ہیں،جہاں موبائل اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کا ڈیٹا جمع ہوتا ہے ان حضرات نے متعدد ریسرچ گروپ بنا رکھے ہیں، جو باقاعدہ تحقیق کرتے ہیں کہ ان کی ٹیکنالوجی استعمال کرنے والوں کے رجحات کیا ہیں اور پھر مختلف رجحانات کے مطابق ویسا ہی میٹریل ان کے لئے الگ الگ فیڈ کیا جاتا اور اس کے ذریعے ذہنوں کو متاثر کیا جاتا ہے،مقصد یہ ہے کہ ذہنی طور پر ان کی برتری تسلیم کر لی جائے اور ذہنی غلام تیار ہو جائیں۔
اب اگر آپ غور فرمائی تو واضح ہو گا کہ ہمارے ملک میں اس (آئی۔ٹی) ٹیکنالوجی کا استعمال مثبت کم اور منفی زیادہ ہو رہا ہے،حتیٰ کہ سیاسی طور پر ہمارے ملک میں مداخلت بھی باہر سے ہو رہی ہے اور یہ مداخلت اس حد تک ہے کہ ملک میں بھی بڑا نیٹ ورک بنا لیا گیا ہے اور یہ نیٹ ورک ملکی قیادت کا محتاج نہیں،ساری ہدایت بیرون ملک میں بیٹھے حضرات سے لیتا ہے،ابھی حال ہی میں ایک مبینہ بداخلاقی کے مسئلہ پر خود ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کو ثبوت مل گئے ہیں کہ طلباء کو مشتعل کرنے کا زیادہ کام بیرون ملک سے کیا گیا اور یہاں بعض الزامات میں ملوث بھگوڑے امریکہ میں بیٹھ کر یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔
یہ سب اپنی جگہ، عقل ان اعمال کو مانتی ہے تاہم بات تو ان حضرات کی ہے جو اس ملک کی قسمت سے کسی نہ کسی طرح وابستہ ہیں،موسموں کی خرابی،گرتی معیشت اور عام لوگوں کی پریشانیوں سے ان کو کوئی غرض نہیں۔یہ اپنے ہی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں،اقتدار کی ہوس نے سب کو اندھا اور بیگانہ کر دیا ہے۔کسی کو یہ خیال نہیں کہ عام لوگوں کا کیا حشر ہو رہا ہے،انفرمیشن ٹیکنالوجی سے ان کو جرائم پر آمادہ کیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ اب بغاوت کے جراثیم پیدا کئے جا رہے ہیں،جو جماعت اور اس کے اراکین فخر سے یہ سب کر رہے ہیں،وہ خود بھی پچھتائیں گے کہ کبھی ان کو بھی بھگتنا ہو گا اِس لئے بہتر ہے کہ سب سنبھل جائیں،مل بیٹھ کر مسائل طے کریں اور بہتری کے کام کریں،ورنہ احادیث تو سچی ہیں۔اور یہ بھی عرض کر دوں کہ غلط فہمیاں بھی بہت ہیں ان کو دور کرنا ہی قیادت کا کارنامہ ہوتا ہے یہ نہیں کہ مرغا بغل میں دبا کر کہا نہ مرغا ہو گا نہ بانگ ہو گی۔