لندن میں عالمی نشریات کے صدر دفتر بُش ہاؤس میں کم و بیش ہر سہ پہر سنائی دینے والی یہ نرم خو آواز بی بی سی اردو کے سربراہ ڈیوڈ پیج کی ہوا کرتی جو گزشتہ ہفتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ ورلڈ سروس کے دیگر دفاتر کی طرح ہمارے سیکشن میں بھی یہ رواج رہا کہ کوئی ایک ہمکار آٹھ منزلہ عمارت کے لوئر گراؤنڈ فلور پر واقع کینٹین میں جائے تو کافی چائے اُس کے ہاتھ سب ساتھیوں کے لیے آئے گی۔ بی بی سی میں کھانے پینے کی سہولت رعایتی نرخوں پر تھی۔ پھر بھی انگلش سروس کے برعکس چالیس برس پہلے کے اردو سیکشن میں کبھی نہ ہوا کہ ہم اپنا اپنا کپ اٹھاتے ہی ’ڈچ سسٹم‘ کے تحت پانچ پانچ، دس دس پینس جیب سے نکال کر چائے بردار کی ٹرے میں پھینک دیں۔ اقبال نے کہا تھا ’مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دلنوازی کا‘۔ اگر سلیقے میں گرم جوش میزبانی کی روایت شامل کر لیں تو یوں سمجھیں اِس معاملے میں ڈیوڈ پیج ہم سے زیادہ مسلمان نکلے، چنانچہ چائے کافی خود لاتے اور اس کے ساتھ صدا لگا کر کیک پیسٹری بھی۔
یہ ذرا بعد میں دیکھا، ورنہ ڈیوڈ پیج کی مشفقانہ ذکاوت کا اندازہ سال بھر پہلے راولپنڈی میں ہو گیا تھا۔ وہی دن جب مَیں بی بی سی میں جاب انٹرویو کے لیے یارِ عزیز میجر ’تان سین‘ کی کار میں اُن کے ہمراہ اپنے شاگرد طاہر اکرام کمک پر ساتھ لیے فلیش مین ہوٹل میں داخل ہوا۔ یہ وہی طاہر اکرام ہیں جنہوں نے بعد میں رائٹرز، سی این بی سی اور سما ٹیلی ویژن کے صحافی اور منتظم کی حیثیت سے نام کمایا۔ دلچسپ پہلو یہ کہ بی بی سی میں چناؤ کے طے شدہ طریقِ کار سے ہٹ کر میرا انٹرویو تحریری ٹیسٹ سے پہلے ہونے والا تھا۔ یا تو یہ محض اتفاق ہے کہ ڈیوڈ اُنہی دنوں پاکستان کے دورے پر آ نکلے یا پھر درخواستِ ملازمت میں دو سو الفاظ کے ’ذاتی بیان‘ کا آخری مگر سچا جملہ اُن کی دلچسپی کا باعث بن گیا کہ ”آپ مانیں یا نہ مانیں، مَیں ہی وہ شخص ہوں جس کی آپ کو تلاش تھی۔“
رسمی ملاقات میں ابھی وقت تھا۔ سو، چائے کا آرڈر دیا اور انگریز مہمان کی موجودگی کا پتا چلانے کے لیے مَیں اُٹھ کر میز کے اُس پار استقبالیہ کاؤنٹر تک گیا۔ جواب ملا ”وہ جسے آپ گیٹ سے اندر آتا دیکھ رہے ہیں نا، وہی ڈیوڈ پیج ہے۔“ براؤن رنگ کے سفاری سُوٹ میں ایک دراز قد عینک پوش، پا پیادہ آدمی۔ اوسط رفتار کے مقابلے میں چال ذرا تیز تر مگر چہرے پر وہ شرمیلی سی معصومانہ مسکراہٹ جسے فیض احمد فیض کی زبان میں حیا دار تبسم کہنا چاہیے۔ مَیں نے باہر نکل کر ’گُڈ ایوننگ‘ کہا اور دو لفظوں میں تعارف کرایا۔ ڈیوڈ نے خوشی کا اظہار کیا جس میں بناوٹ کا شائبہ نہیں تھا۔ ساتھ ہی پوچھا کہ پون گھنٹہ کیسے گزارو گے۔ کہا کہ دو دوست ساتھ ہیں، ہم لوگ چائے پئیں گے۔ ڈیوڈ اور خوش ہوئے اور لحظے بھر کو محسوس ہوا کہ آدھا کام ہو گیا ہے، کیونکہ یہ تو مجھے سیلیکٹ کریں گے ہی، ہوسکتا ہے مَیں بھی راضی ہو جاؤں۔
اُن دنوں یہ کالم نگار تمباکو کی تینوں اصناف یعنی سگریٹ، سگار اور پائپ سے شوق فرماتا تھا۔ سو، مقررہ وقت سے دو منٹ پیشتر گلاب کی ٹہنی والے پائپ میں ’ایرن مور‘ بھرا اور ڈیوڈ پیج کے دروازے پر دستک دی۔ ڈیوڈ صاحب نے، جو پلنگ پر بیٹھے تھے، شائستگی سے مجھے کمرے کی واحد کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ بیٹھتے ہی پائپ اونچا کرتے ہوئے منہ سے نکلا ”تھوڑی سی آلودگی پھیلانے کی اجازت چاہوں گا۔“ ”خوشی سے پھیلائیں، مَیں خود پائپ سموکر رہ چکا ہوں۔“ قدر افزائی کا یہ احساس ممتحن کی بجائے امیدوار کے اولین سوال کا پیش خیمہ بن گیا۔ یہی کہ چناؤ کی صورت میں بی بی سی اردو میں ہمارے فرائض کی واضح نوعیت سمجھا دیجیے تاکہ گفتگو میں سہولت رہے۔ ڈیوڈ نے عام فہم الفاظ میں امکانی ذمہ داریاں بتائیں اور کہا کہ ہم آج پون گھنٹہ کی بات چیت میں نشریاتی صحافت میں آپ کی دلچسپی کا اندازہ لگائیں گے۔ انٹرویو کیسے لینا چاہیے؟ کاش ہماری آئی ایس ایس بی اور پبلک سروس کمیشن یہ گُر ڈیوڈ پیج سے سیکھیں جن کے سوالات کی آسان سے مشکل کی طرف مسافت نے ہمارے مکالمے کو کشادہ تر گُل زمینوں کا سفر بنا دیا۔
ونسٹن چرچل کو اساتذہ سے شکایت تھی کہ وہ اُنہی باتوں کی ٹوہ لگانے کی فکر میں رہتے جو شاگرد کو معلوم نہ ہوتیں۔ ڈیوڈ نے، جو اوکسفرڈ سے تاریخ میں ڈی فِل کرنے سے پہلے ایڈورڈز کالج پشاور میں پڑھا چکے تھے، کوئی جارحانہ حربہ نہ آزمایا بلکہ شروع میں بظاہر وہی کچھ جاننے کی کوشش کی جو میرے اپنے دل کے قریب تھا۔ میرے تدریسی اور غیرنصابی مشاغل، انگریزی میں طلبہ عمومی غلطیاں اور یہ کہ اسکول میں میڈیم کے تضاد سے آئندہ زندگی پہ کتنا اثر پڑتا ہے۔ طبقاتی اور علاقائی عدم مساوات سے بات سیاسی منظر نامہ پر آگئی جہاں جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا۔ کسی باطنی طاقت نے کہا کہ شاہد ملک، اپنی اپروچ لیفٹ آف سنٹر رکھو، چنانچہ میری تان یہاں پہنچ کر ٹوٹی کہ ملک ٹرانزیشن کی حالت میں ہے، جمہوریت بحال ہوئی تو ہماری کمی بیشی خودکار عمل کے ذریعے دُور ہو جائے گی۔
اُس وقت تک وطن ِ عزیز مغربی ہمسایہ ملک پر بیرونی فوج کشی کے باوجود ’افغان مزاحمتی افواج‘ کو دھڑا دھڑ مجاہدین میں ڈھالنے کی ٹکسال نہیں بنا تھا۔ پھر بھی گفتگو نے ڈیورنڈ لائن عبور کی اور ڈیوڈ صاحب افغانستان میں مستقل سوویت بالادستی کے امکان پر میری رائے پوچھے بغیر نہ رہ سکے۔ اچانک سوال پر طبعی جغرافیہ کی تھوڑی بہت سمجھ کے مطابق عرض کیا ”کٹی پھٹی افغان سرزمین چھاپہ مار کارروائیوں کے لیے سازگار ہے، چنانچہ وہاں کسی بھی غیرملکی طاقت کے لیے پائیدار قبضے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔“ ”تو پھر ہوگا کیا؟“ ”میرے خیال میں آئندہ کافی عرصہ ’نو وار، نو پِیس‘ کی کیفیت رہے گی۔“ ”اچھا، مہاجرین بڑی تعداد میں پاکستان آ رہے ہیں۔ کیا اِن کا مقامی آبادی سے تصادم نہیں ہوگا؟“ ”نسلی، لسانی اور مذہبی رشتوں کی بنا پر مجھے تصادم کا کوئی فوری امکان دکھائی نہیں دیتا۔“
یہاں پہنچ کر ڈیوڈ پیج نے آواز کا امتحان لینے کے لیے اردو کا ایک مسودہ میری طرف بڑھایا اور مائیک ہاتھ میں تھام کر ٹیپ ریکارڈر کا بٹن دبا دیا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مَیں درمیانی سی رفتار اور صوتی لیول کے ساتھ مناسب وقفوں سے معنویت کو اجاگر کرتا جاتا۔ کیا تو یہی اور آواز بھی مائیکروفون کے لیے اچھی تھی۔ ڈیوڈ صاحب قدرے رشک کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ پھر بھی ریکارڈنگ ختم تو مَیں نے اقبالی بیان دے دیا کہ پڑھنے میں دو جگہ ’ہ‘ کی آواز نکالتے ہوئے معمولی سی چُوک ہو گئی ہے۔ پوچھا وہ کیوں؟ وضاحت کی کہ آپ کا اسکرپٹ خطِ نسخ میں ٹائپ شُدہ تھا جبکہ ہمارے یہاں نصابی کتابیں، اخبارات و جرائد، شعر و ادب پر مبنی مواد سب نستعلیق میں چھپتا ہے اور اِسے پڑھنے کی مشق زیادہ ہے۔
اُن دنوں کمپیوٹر پر اردو تحریر کے بارے میں یہ بحث زوروں پر تھی کہ الگ الگ حرف ٹائپ کیے جائیں یا جوڑے بنا کر الفاظ سسٹم میں ڈالیں۔ پہلا طریق خطِ نسخ کے قریب تھا اور دوسرا نستعلیق کے۔ اب یہ موضوع ایسے ڈھنگ سے چھِڑا کہ ہماری گفتگو رومن حروف تہجی، عربی و فارسی ابجد اور دیوناگری یا مشابہہ لِپّی میں املا و تلفظ کی باہمی قربت اور تضادات کو چھونے لگی۔ فتوحات کا سلسلہ آگے بڑھ رہا تھاکہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ ٹیلی فون فاصلے پر تھا۔ ڈیوڈ بات کر کے پلٹے تو بولے ”تقی صاحب کے بھائی جری احمد سید آج ڈنر کے لیے یاد دہانی کرا رہے تھے۔ مَیں تو بھول گیا تھا۔ پتا ہے ہمیں گپ شپ کرتے پونے د و گھنٹے ہو گئے ہیں۔“ پھر باہر تک چھوڑنے آئے۔ تپاک سے الوداعی مصافحہ کیا اور کہا ”وقت لگے گا، آپ کی پوسٹ اگلے سال خالی ہونے والی ہے۔“ (جاری)