پنجاب ماس انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول تاریخ کا سنہری باب!
فیسٹیول میں پاکستان سمیت دُنیا کے سات ممالک کے آرٹسٹوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا
صبح صادق
صوبائی درالحکومت گزشتہ دنوں ادب و ثقافت اور فنونِ لطیفہ کے حوالے سے بڑا بھرپور رہا بلکہ اب تو فن و ثقافت سے بھرے فیسٹیولز محکمہ اطلاعا ت و ثقافت پنجاب،لاہور کی مستقل سرگرمیاں بن چکے ہیں۔محکمہ اطلاعات و ثقافت پنجاب کی معتبراور سرگرم وزیر عظمیٰ بخاری (صوبائی وزیر اطلاعات وثقافت پنجاب) کی سربراہی میں اپنے مقتدرہ ادبی وثقافتی اور اطلاعاتی محکمہ ہونے کی حیثیت سے خود کو منوا چکا ہے۔پنجاب ماس انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول کا کامیاب انعقاد خوشی اور اطمینان کا باعث ہے کہ اہلِ نظر محکمہ اطلاعات و ثقافت کی کارکردگی کو مثال کے درجے میں رکھ رہے ہیں اور اس کے لئے تحسین کے کلمات ادا کر رہے ہیں۔اس کارکردگی میں جہاں ایک طرف پنجاب کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز کی ادب و ثقافت میں خصوصی دلچسپی کا گہرا عمل دخل ہے وہی صوبائی وزیر اطلاعات وثقافت عظمیٰ بخاری اور اس کے محکمہ سے منسلک ادارہ لاہور آرٹس کونسل،الحمراء اور اہل ادب و فن کی معاونت بھی شامل ہے۔
رنگ و صوت اور لفظوں سے ہی سے اس دُنیا میں رونق ہے۔۔رعنائی ہے۔۔جمال و زیبائی ہے۔۔ چہل پہل اور رنگا رنگی ہے۔پنجاب ماس انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول اس کہانی کا ایک خوبصورت باب تھا جو پاکستان کے دل اور علم و ادب کے گہوارے لاہور میں چھ روز تک جاری رہا۔اس چھ روزہ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب کے مہمانِ خصوصی سیکرٹری اطلاعات وثقافت پنجاب طاہر رضا ہمدانی تھے۔ صدارتی کلمات میں انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب صوبے میں عام آدمی کی زندگی کو بہتر سہولتوں کی فراہمی کے لئے کی جانے والی مساعی کے ساتھ ساتھ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کے لئے کوشاں ہے جس میں ہماری ادبی و ثقافتی روایت بہ طریق ِ احسن فروغ پا سکیں۔کلماتِ خیر مقدم میں طاہر رضا ہمدانی کا کہنا تھا کہ مجھے اُمید ہے کہ یہ چھ روزہ تھیٹر فیسٹیول پاکستان سمیت دُنیا بھر سے آئے آرٹسٹوں کو آپس میں کام کرنے کا موقع فراہم کرے گا،اس طرح پنجاب کی روح کو تقویت ملے گی، ادب وثقافت معاشرہ کی مضبوط اور توانا آواز بنے گا، اس شناخت کو اُجاگر کرنے کے لئے ہم عالمی سطح پر پنجاب کا نام روشن کر سکیں گے۔افتتاحی تقریب میں نامور کالم نویس سہیل وڑائچ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر الحمراء محمد محبوب عالم چودھری، نامور ادیبہ صوفیہ بیدار نے بھی شرکت اور خطاب کیا۔سربراہ الحمراء محمدمحبوب عالم چودھری نے اپنے تاثرات میں کہا کہ اس فیسٹیول کے انعقاد پر محکمہ اطلاعا ت و ثقافت پنجاب بلاشبہ خراجِ تحسین کا مستحق ہے،خدا کرے الحمراء آرٹس کونسل لاہور کی محفلیں یوں ہی جگمگاتی رہیں،یہ خوبصورت شامیں بار بار آئیں،سچ تو یہ ہے کہ الحمراء کی پوری ٹیم قابلِ مبارکباد ہے،ان کے ساتھ رضوان اشرف اور عامر نواز بھی نہایت فعال اور اچھے منتظم ہیں۔
تھیٹر اور زبان وادب تو بڑی طویل المیعاد چیزیں ہوتی ہیں جو زمانوں اور ادوار پر محیط ہوتی ہیں۔ایک مکالمہ صدیوں تک زندہ رہتا ہے۔ادب کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ جہاں تک پنجاب ماس انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول کا تعلق تھا،اس میں مکالمہ کو نئی سمت ملی ہے، نیا جذبہ ملا ہے،تھیٹر ہو یا ادب، اس کے سوتے تخلیق سے پھوٹتے ہیں، سوچ سے پنپتے ہیں، آگاہی سے تقویت پاتے ہیں۔ ہم سب نے یہ دیکھا کہ کس طرح چھ روزہ پنجاب ماس انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیول نے فن و ادب کو اطمینان بخشا اور آسودگی عطا کی۔
تھیٹر فیسٹیول میں پاکستان سمیت دْنیا کے سات ممالک کے آرٹسٹوں نے شرکت کرکے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ فیسٹیول میں پانچ بین الاقومی پرفارمنسز،نونیشنل پرفارمنسز، چار تھیٹر ورکشاپس،پانچ پینل ڈسکشن کے علاوہ دیگر سرگرمیاں شامل تھیں۔ماس فاؤنڈیشن نے اپنا کھیل ”دی زیرو لائن“،الحمراء اور اجوکاء کی مشترکہ پیشکش کھیل ”یہ عورتیں کہاں گئیں“ پیش کیا،چین کی تھیٹر کمپنی لینڈ سٹیجنگ کا کھیل ”Ugly Dad“بھی تقریبات کے پہلے روز کا حصہ تھا۔ ماس فاؤنڈیشن ڈرامہ ”پرماشر سنگھ“ اور فرانس کا لاولگا اپنا ڈرامہ ”Monsieur Et Makame O“ پیش کیا۔ جی سی ڈرامیٹک کلب اینڈ تھیٹر ری پبلک پاکستان نے اپنا کھیل ”تو کون“ دیکھنے والوں کی نذر کیا۔اسی روز یونان کے تھیٹر گروپ Terr Arte نے اپنا ڈرامہ ”Ekthesis“ سے ناظرین سے داد سمیٹی۔فیسٹیول میں یو سی پی ڈرامیٹک سوسائٹی پاکستان نے اپنا کھیل ”The Knot“ حاضرین کے ذوق کی نذر کیا۔اسی روز کیریٹو گروپ،پاکستان کا کھیل ”Youlida“ فیسٹیول کو چار چاند لگا گیا۔ اختتامی روز بھی دو کھیل بین الاقومی فیسٹیول کا حصہ بنے۔پنجاب یونیورسٹی کے ناٹک گروپ نے بامعنی کھیل ”کہو مجھ سے محبت ہے“کو سٹیج کیا۔ Drama Ed,Pakistanنے اپنا کھیل ”RED“،جبکہA joint Venture of Courage Theatre Tunisia and Trinity School Lahore, Pakistan اپنا کھیل ”Shadow Of War“ لے کر آئے۔فیسٹیول کے سبب لاہور کی فضاؤں پر سحر طاری رہا، کہیں سٹیج پر زندہ کہانیاں سانس لیتی رہیں تو کہیں مکالموں کی صورت فکری روشنی بکھرتی رہی اور کہیں ورکشاپس میں نوجوان اپنے خوابوں کو فن کی شکل دیتے رہے۔
٭٭٭٭٭
final
