چھوٹے صوبے۔۔ بحث کب تک؟
پاکستان میں آج کل چھوٹے صوبوں کا بہت غلغلہ ہے ایسے لگتا ہے جیسے یہ کام فوری نہ کیا تو پتہ نہیں کون سی قیامت آ جائے گی، حالانکہ ہم تو پہلے ہی دنیا سے بہت پیچھے رہ چکے ہیں، ہم وہ کہ جن کی ترقی کے ماڈل کو دیکھنے کے لئے جنوبی کوریا اور دیگر ممالک سے ماہرین پاکستان آئے اور ہمارا ماڈل دیکھ کر ترقی کی، مگر ہم آج پسماندہ افریقی ممالک کے ساتھ کھڑے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے صوبے بہت بڑے ہیں اور”اٹھارویں ترمیم کے ذریعے“ اشرافیہ نے دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں اپنی ذاتی بادشاہت قائم کر لی ہیں،یہ تلخ حقیقت ہے، لیکن سچ یہی ہے۔ دراصل پاکستان بننے کے بعد ”ریاست“ کو پریشانی لاحق ہوئی کہ مشرقی پاکستان بہت بڑا ہے اور مغربی پاکستان جہاں ”اختیارات کا مرکز“ تھا وہ مشرقی پاکستان سے نہ صرف چھوٹا ہے،بلکہ چار اکائیوں میں تقسیم ہے۔ لہٰذا مشرقی پاکستان سے ”ٹکر“ لینے اور ”برابر“ آنے کے لئے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کا ”ون یونٹ“ بنا دیا گیا۔ تاکہ مشرقی پاکستان کی برابری کی جا سکے،حالانکہ اختیارات موجود تھے لیکن ”نفسیاتی برتری“ چاہئے تھی جو حاصل کرلی گئی لیکن اس کی قیمت 1971ء میں تقسیم پاکستان کی شکل میں ادا کی گئی،ملک دو لخت ہو گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد جب سیاسی پارٹیاں (بھٹو کی پیپلز پارٹی اور جنرل ضیاء الحق کی تخلیق کردہ مسلم لیگ) آمنے سامنے آئیں تو پھر ”جمہوریت پر مشکل وقت“ آیا۔ ایسا وقت جس میں سوائے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، دشنام طرازی کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔ انجام ایک اور مارشل لا ء لگ گیا۔ لیکن اس سے بھی کچھ نہیں سیکھا گیا البتہ لندن میں ایک میثاق جمہوریت طے پایا۔ جس سے جنرل پرویز مشرف سے تو ”نجات“ ملی لیکن عوام کو کیا ملا؟ میثاق جمہوریت سے سیاسی جماعتوں کو اٹھارویں ترمیم مل گئی اور اس ترمیم کے بعد مرکز کمزور ہو گیا،اس طرح ”طے شدہ فارمولے“کے مطابق مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو بادشاہتیں مل گئیں۔ اب اس اختیار کو واپس لینے کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہ کوششیں تو عوام کو کرنا چاہئیں تھی اور کرنا چاہئیں، کیونکہ اختیار عوام کا حق ہے۔
مگر پھر بھی شکر ہے کہ کوئی تو عوام کے حقوق کی آواز بلند کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ عوام محروم ہیں۔ یہ آوازیں اب ایک سے زائد طبقوں کی طرف سے بلند ہو رہی ہیں۔ ابتداء لاہور کے سابق ضلع ناظم میاں عامر محمود نے کی ہے انہوں نے پاکستان کے صوبوں کی تعداد بڑھانے اور ملک کے 33 ڈویژنز کو 33 صوبے بنانے کا مطالبہ کیا ہے، حالانکہ اس سے پہلے ملک کو 10، 12، 14 صوبوں میں تقسیم کرنے کی بات کی جاتی تھی۔ پہلے بلوچستان کے تین، سندھ کے دو یا تین، پنجاب کے چار، خیبرپختونخوا کے دو یا تین صوبے بنانے کا مطالبہ تھا لیکن اب صوبوں کو ڈویژن کی سطح تک چھوٹے کرنے کا مطالبہ پیش کر دیا گیا ہے۔ میاں عامر محمود کے بعد ایک اور اہم بیان سامنے آیا ہے، جو مسلم لیگ ن کے سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے کنوینر شاہد خاقان عباسی کا ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد بنایا گیا صوبوں کا نظام ناکام ہو چکا، ہمیں چھوٹے انتظامی یونٹ بنانا ہوں گے، اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنا ہوں گے، اٹھارویں ترمیم کی سوچ مثبت اور درست تھی، مگر اس ترمیم پر عملدرآمد میں ناکامی ہوئی۔ شاہی نظام رائج ہوا، پیسہ صرف ایک وزیراعلیٰ نہیں بلکہ تمام شہروں اور علاقوں میں یکساں تقسیم ہونا چاہئے، سندھ میں بری حکمرانی اور کرپشن کی وجہ سے عوام کا جینا محال ہو چکا ہے، کراچی 21ویں صدی میں بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، سڑکوں کی بری حالت اور ٹینکر مافیا کا راج ہے، کراچی والوں کو سندھ والوں کی طرح اختیارات ملنے چاہئیں، صوبوں کے درمیان الفاظ کی جنگ دراصل طاقت، مفادات اور اختیارات کی جنگ ہے۔ پاکستان صرف جمہوری اور پارلیمانی نظام کے تحت چل سکتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے بھی کچھ ایسا ہی کہا ہے کہ اگر ترکی کے 80 صوبے ہو سکتے ہیں تو ہمارے 12 یا 15کیوں نہیں ہو سکتے، مضبوط با اختیار بلدیاتی نظام بہت ضروری ہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو تو سب کچھ مل گیا نچلی سطح پر کچھ نہیں دیا جا رہا۔
ان بیانات کے بعد دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب اور سندھ صرف دو خاندانوں کی جاگیر بن چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا بھی گزشتہ 12۔ 13 سال سے ایک ہی پارٹی کے پاس ہے۔ بلوچستان میں کوئی بھی نواب، جاگیردار، سردار دوسرے کو اپنے برابر تسلیم نہیں کرتا۔ کراچی اس لئے تباہ ہو رہا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی وہاں ترقی نہیں کرنا چاہتی اور پنجاب کی بربادی اس لئے ہے کہ مسلم لیگ ن لاہور کے باہر دیکھنا نہیں چاہتی،اسی لئے جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کی سب سے طاقتور شخصیت ضلع ناظم لاہور میاں عامر محمود نے واضح کہا ہے کہ ڈویژنز کی بنیاد پر صوبے بنائے جائیں یعنی نچلی سطح پر لوگوں کو با اختیار کیا جائے۔ پاکستان 25 کروڑ کی آبادی کا ملک ہے اور پنجاب 12 اور 13کروڑ کے درمیان کہیں پہ کھڑا ہے، ان حالات میں گڈ گورننس کیسے ممکن ہے، آج بھی کوئی مظلوم اپنے مسائل کے حل کے لئے 300 یا 500 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے جب لاہور پہنچتا ہے، اول تو اس کا داخلہ سول سیکرٹریٹ میں ممکن نہیں ہوتا اور داخلہ ہو جائے تو افسر ”سیٹ“ پر نہیں ہوتا، یہی کام اگر راولپنڈی ڈویژن کا راولپنڈی ڈویژن میں ہو تو اٹک اور چکوال والوں کو وہاں جاتے کوئی مشکل نہیں ہو گی۔ لاہور ڈویژن والوں کو لاہور آنا مشکل نہیں ہو گا۔ فیصل آباد ڈویژن والوں کے لئے فیصل آباد شہر آدھے گھنٹے یا ایک گھنٹے کا راستہ ہوگا، آخر چھوٹے صوبوں والا مسئلہ کیسے حل ہوگا، کون حل کرے گا۔ کیونکہ اشرافیہ جو اس وقت ”نظام اور وسائل“ پر قابض ہے اپنے ووٹروں کو ”سوائے بھیک کے“ کچھ دینے پر تیار نہیں۔ بھارت کو آزادی پاکستان سے 24 گھنٹے بعد ملی۔ وہاں بھی یہی مسائل تھے انہوں نے اس کا حل نکالا اور 1965ء میں ملک کو 14 ریاستوں اور وفاق کے زیر انتظام تین اکائیوں میں تقسیم کر دیا۔ 1965ء سے آج تک 60 سال میں وہاں مزید 14 ریاستیں قائم کی جا چکی ہیں، اپنی ضرورت کے مطابق ریاستیں یا صوبے قائم کئے جاتے ہیں۔افغانستان،نیپال، سوئٹزرلینڈ، بیلجیم ہم سے کہیں چھوٹے ملک ہیں ان کے صوبے ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہاں ”لوگوں کو صرف اختیارات نہیں حق دینے کا تصور“ موجود ہے۔ ہمارے ہاں تو عوام سے صرف ”لینے کا تصور“ موجود ہے۔
٭٭٭٭٭
