گونج
ایک شخص اپنے 12سالہ بچے کے ساتھ سفر کر رہا تھاجب وہ سنسان پہاڑی علاقے سے گزر رہے تھے تو اچانک لڑکے کا پاﺅں ایک بڑے سے پتھر سے ٹکرایا اور اوہ کی شدت سے بچہ چلایا”اوہ“۔ لڑکے کو کہیں دور سے اوہ کی آواز سنائی دیوہ حیران ہوا کہ یہ کس کی آواز ہے؟وہ اپنی تکلیف کو وقتی طور پر بھول گیا اور زور سے چلایا ”تم کون ہو؟“اُسے پھرآواز آئی کہ تم کون ہو؟اب لڑکے کی حیرانی جھنجھلاہٹ میں تبدیل ہو گئی ، وہ اور زور سے چیخا ”تم ڈرپوک ہو“آواز نے پھر جواب دیا کہ تم ڈر پوک ہولڑکا اب بے بس ہو کر اپنے والد کی طرف دیکھتا ہے تو والد اسے کہتے ہیں کہ بیٹا اب ذرا غور سے سنناوالد زور سے کہتے ہیں ”تم زبردست ہو“جواب آتا ہے کہ تم زبردست ہووالد اور زور سے کہتے ہیں ”مَیں آپ کی قدر کرتا ہوں“ جواب بھی اُسی طرح کا تھا کہ میں آپ کی قدر کرتا ہوں، بچہ یہ سب کچھ سن تو رہا تھا، مگر اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھاوالد اُس کی شکل دیکھ کر سمجھ کیا کہ بچے کے پلے کچھ بھی نہیں پڑا تو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھ گیاپیار سے اُس کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ لوگ اِسے گونج کہتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ زندگی ہےاپنی حقیقی زندگی میں جو بھی آپ کا آﺅٹ پٹ ہو گا زندگی وہی آپ کو واپس دے گی۔
اس ساری کہانی کو ”جیسا کرو گے ویسا بھرو گے“ کے فارمولے کے مطابق بھی سمجھا جا سکتا ہے۔مینجمنٹ ٹرینر کچھ اِس طرح وضاحت کرتے ہیں کہ اگر آپ جوسر مشین میں سیب ڈالیں گے تو وہ مشین آپ کو سیب کا جوس ہی نکال کر دے گی نہ کہ انار کا جوس نکال کر دےLife always gives you back what you give out ۔ویسے یہ گونج والا عمل ہے بڑا کمال کا بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کے ایک فعل کی گونج اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ مدتوں سنائی دیتی ہے اور وہ اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ بندہ سننا نہ بھی چاہے تو بچ نہیں سکتا اور وہ گونج اُسے سننا ہی پڑتی ہے،مگر ہم کچھ وکھری ٹائپ کے لوگ ہیں ہم پر یہ فارمولا لاگو نہیں ہوتا،ہم لوگ بے حسی سے بھی آگے والی سطح پر پہنچ چکے ہیں بس اُس منزل کا نام دینا باقی ہے،جس معاشرے میںمُردے کھائے جاتے ہوں اور کمسن اور معصوم بچیوں پر جنسی تشددکیا جاتا ہواور حل کچھ بھی نہ نکلتا ہو تو اس معاشرے کو کیا نام دیا جانا چاہئے؟
اسلام آباد والے دھرنے کا کس کو کتنا نقصان ہو رہا ہے اور کسے کتنا فائدہ؟یہ دھرنا کتنا جائز ہے اور کتنا ناجائز؟یہ کتنا اسلامی اور کتنا غیر اسلامی؟دھرے والے دیہاڑی پر لئے جا رہے ہیں یا سب نظریے کی بنیاد پر حصہ لیتے ہیں؟دھرنے والوں سے مذاکرات ہونے چاہئے یا نہیں؟ دھرنے سے حکومت گرائی جا سکتی ہے یا نہیں؟ان سوالات کا کچھ جواب تو وقت آنے پر ملے گا اور کچھ کا جواب کوئی تجربہ کارتجزیہ نگار ہی دے سکتا ہے۔ مَیں اس دھرنے کے ایک علیحدہ پہلو پر آپ کی توجہ چاہتا ہوںاس دھرنے کو اب30 سے زیادہ دن ہو چکے ہیں اور میرے خیال میں اتنے لمبے دورانیہ کی وجہ سے یہ دنیا کا تاریخی دھرنا بن چکا ہے۔تینوں فریق اپنی اپنی پوری توانائی صرف کر رہے ہیں کہ ایک دوسرے اور تیسرے کو نیچا دکھایا جائے ، جھوٹا کہا جائے۔ ایک دوسرے اور پھر تیسرے فریق پر دھوکہ دہی، کرپشن اور بے ایمانی کے ساتھ ساتھ کسی نرسری میں پھلنے پھولنے کا الزام بھی دھردیا جائے۔
ایک بات کام کی ہے کہ لوگوں نے اب ردِ عمل دینا شروع کر دیا ہے،ابھی تازہ تازہ سانحہ ہے کہ کچھ لوگوں نے عزت مآب رحمن ملک کو دیر سے آنے پر جہاز پر سوار نہیں ہونے دیا ، ساتھ میں حکمران جماعت کے ایم این اے بھی تھے جنہیں ان کی نشست سے اُٹھا کر جہاز سے اُتار دیا گیا۔فیس بک پر اس کی ویڈیو بھی اَپ لو ڈ ہو چکی ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔یقین نہیں آتا کہ دھرنے کی گونج اتنی فاسٹ اور تیز اثر رکھنے والی تھی کہ لوگ سامنے کھڑے ہو گئے اور نہ صرف کھڑے ہو گئے، بلکہ جسے کہتے ہیں کہ سیسہ پلائی دیوار بن گئے، ڈٹ گئے اور جو کچھ ویڈیو میں کہا گیا ہے اس کے کچھ حصے قابل اشاعت ہی نہیں ۔67سالہ تاریخ میں آپ نے بہت بار یہ سنا ہوگا کہ فلاں وی آئی پی کی وجہ سے فلائٹ لیٹ ہو گئی لیکن پہلے کبھی اس طرح کا ردعمل نہیں ہوا لگتا ہے تبدیلی کا عمل شروع ہوچکا ہے اور اب وی آئی پی کلچر اپنے زوال کی طرف جائیگا ۔ ٭