اوڑی حملہ: پاکستان سزا سے نہیں بچ سکے گا!

اوڑی حملہ: پاکستان سزا سے نہیں بچ سکے گا!
اوڑی حملہ: پاکستان سزا سے نہیں بچ سکے گا!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لائن آف کنٹرول سے اوڑی (ضلع بارہ مولا) کا قصبہ کچھ زیادہ دور نہیں۔ وہاں انڈین آرمی کا ایک انتظامی مستقر ہے۔ اور ایک انفنٹری بٹالین (10ڈوگرہ رجمنٹ) جو اپنا معمول کا عرصہ ء تعیناتی مکمل کرکے واپس زمانہ ء امن کی لوکیشن میں جا رہی تھی، اسے عارضی طور پر وہاں خیموں میں مقیم رکھا گیا تھا اور جلد ہی اس نے چلے جانا تھا۔18ستمبر کو صبح کے ساڑھے پانچ بجے (انڈین ٹائم) چار فدائین سیکیورٹی حصار توڑ کر کیمپ میں داخل ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کلاشنکوفوں اور دستی بموں سے مسلح تھے۔ انہوں نے آتے ہی خیموں میں سوتے جاگتے ٹروپس پر مارٹروں سے حملہ کر دیا۔ جب مارٹر پھٹے تو خیموں میں آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں 18انڈین سولجر مارے گئے اور 30کے قریب زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کی تعداد پہلے 19بتائی گئی، پھر بڑھ کر 25 ہو گئی اور آخری گنتی کے مطابق 30ٹروپس زخمی ہو گئے۔ لاشوں کو تو دہلی روانہ کردیا گیا جبکہ زخمیوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے 100کلومیٹر دور آرمی ہسپتال سری نگر منتقل کیا گیا جہاں وزیر دفاع منوہرپریکر، وزیرداخلہ راج ناتھ اور وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے ان کی عیادت کی اور اپنے اپنے بیانات میں پاکستان کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ چاروں فدائین بھی شہید ہو گئے۔ مودی جی نے فرمایا کہ حملہ آور سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ محبوبہ نے کہا کہ پاکستان کشمیر میں جنگی حالات پیدا کرنا چاہتا ہے۔


وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کو آج روس اور پھر وہاں سے امریکہ جاناتھا۔ روس کا دورہ اس لئے کیا جا رہا تھا کہ روسی قیادت کو درخواست کی جائے کہ پاکستان اور روس اس سال دسمبر میں جو مشترکہ جنگی مشقیں کررہے ہیں، ان کو روبہ عمل نہ لایا جائے اور اگر ہو سکے تو منسوخ کر دیا جائے۔ علاوہ ازیں روس پاکستان کو جو MI-35 ہیلی کاپٹر فروخت کر رہا ہے، وہ سودا بھی ختم کیا جائے اور ایس یو 35جدید ترین رشین لڑاکا طیاروں کی پاکستان کو مجوزہ فروخت پر بھی نظرثانی کی جائے۔ بھارت کے 65فیصد بھاری ہتھیار روس ساختہ میں اور پاکستان کے ساتھ تو روس کا دفاعی ہتھیاروں کی خرید کا معاہدہ پہلا معاہدہ ہے۔ 1960ء کے عشرے میں روس نے چند جیپیں (Gaz) اور ایمبولینس گاڑیاں پاکستان کو فروخت کی تھیں اور اس کے بعد روس سے اب تک دفاعی ہتھیاروں کا کوئی سودا نہیں کیا گیا تھا۔

لیکن اب اس خطے میں صورتِ حال تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ پہل بھارت نے کی ہے۔ وہ گزشتہ تین چار برسوں سے اچھل کر امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ہے۔ ظاہر ہے روس کو اس حرکت پر اپنا ردعمل دینا تھا۔ دوسری طرف امریکہ نے حسبِ عادت پاکستان کی فوجی امداد سے بھی ہاتھ کھینچ لیا، اس لئے اب بظاہر روس سوچ رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون میں کہاں تک آگے بڑھا جائے۔ مغربی دفاعی تجزیہ نگار لکھ رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں امریکہ اور بھارت کی دفاعی ملی بھگت جس نسبت سے آگے بڑھے گی،پاکستان اور روس کے دفاعی تعلقات بھی اسی نسبت سے آگے بڑھیں گے۔۔۔ راج ناتھ صاحب نے روس کے بعد امریکہ جانا تھا اور امریکی ایڈمنسٹریشن سے بھی پاکستان پردباؤ بڑھانے کا مطالبہ کرنا تھا جو برصغیر میں اپنی نئی گریٹ گیم کھیل رہا ہے۔ لیکن اب وزیرداخلہ نے یہ دورہ ملتوی کر دیا ہے کیونکہ اوڑی پر حملہ ایک ایسا حادثہ بتایا جا رہا ہے جس پر بھارت کی ساری کابینہ ہنگامی طور پر غور کر رہی ہے۔ سب نے یک زبان ہو کر یہی کہا ہے کہ یہ جیشِ محمد کے فدائین پاکستان نے بھیجے ہیں اس لئے پاکستان کو ’’سبق‘‘ سکھایا جائے۔


بھارت سے یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ انہوں نے پٹھانکوٹ اور گورداسپور میں اپنی فوجی یونٹوں کو خبردار کر دیا ہے کہ اپنی حفاظتی چوکسی کو ڈھیلا نہ ہونے دیں۔ اس سال جنوری میں پٹھانکوٹ بیس پر فدائین کا جو حملہ ہوا تھا اس کا جھگڑا ابھی تک چل رہا تھا کہ اوڑی پریہ حملہ سامنے آ گیا ۔اوڑی پر یہ حملہ جانی نقصانات کے تناظر میں گزشتوں کئی برسوں میں سب سے زیادہ شدید حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا پر ایک کے بعد ایک وزیر و امیر کا بیان چلا آ رہا ہے کہ فدائین نے جو اسلحہ اور گولہ بارود استعمال کیا ہے ، اس پر پاکستانی مارکنگ ہے۔نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ فدائین کے پاس جو ڈبہ بند کھانے تھے ان پر بھی پاکستان ساختہ کی مہر لگی ہوئی تھی۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ دنیا کی بے وقوف سے بے وقوف جاسوسی یا عسکری تنظیم بھی اس قسم کی حرکت کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے گی کہ اس حملے کو خفیہ رکھنے کی تدابیر روبکار لائی جائیں یا حملے میں استعمال ہونے والی ہر آئٹم پر حملہ آور ملک کا نام کندہ کردیا جائے۔ نجانے بھارتی بزرجمہروں نے اپنے عوام کو کیوں اتنا اُلو سمجھ رکھا ہے اور یقین کر رکھا ہے کہ وہ ان کے ’’انکشافات‘‘ پر صاد کر لیں گے ۔


بھارتی DGMO نے ہاٹ لائن پر پاکستانی DGMO سے بات کی ہے اور پاکستانی DG ملٹری آپریشنز نے کہا ہے کہ اس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا ثبوت فراہم کیا جائے۔ شائد اسی ثبوت کے طور پر پہلے ہی واویلا مچایا جا رہا ہے کہ فدائین کے ہتھیاروں اور راشن پر پاکستان نے خود مہریں لگا کر فدائین کو اوڑی روانہ کیا تھا!۔۔۔اگر نو ماہ پیشتر جنوری 2016ء میں پٹھانکوٹ پر حملے کا کوئی ثبوت اب تک فراہم نہیں کیا جا سکا تو اب وہ کیا ثبوت لائیں گے؟
مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ دو اڑھائی ماہ سے بھارتی مظالم کی جو داستانیں منظر عام پر آئی ہیں، ان کی کوئی نظیر گزشتہ 69برسوں میں نہیں ملتی۔100سے زیادہ مسلم کشمیریوں کا شہید ہو جانا اور سینکڑوں کی تعداد میں نابینا یا زخمی ہو جانا، تحریک آزادی کی ایک نئی برانڈ کی شدت کا اظہار ہے۔ بھارتی حکمران یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جب سینکڑوں ہزاروں کشمیریوں کی شہادت ساری دنیا کے سامنے ہے تو پھر صرف چار فدائین کا اوڑی پر حملہ ان کے ردعمل اور انتقام کا ایک کمزور سا جواب کیوں نہیں ہو سکتا؟۔۔۔ بھارت کو تیار رہنا چاہئے کہ وہ اس قسم کے مزید حملوں کی آشا بھی رکھے۔


پاکستان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ چار حملہ آور فدائین جو شہید ہو گئے وہ پاکستانی تھے اور ان کا تعلق جیش محمد سے تھا جبکہ کئی غیر جانبدار میڈیا تنظیمیں یہ بتا رہی ہیں کہ یہ چاروں شہدا، کشمیری مسلمان تھے جو اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کا بدلہ لینے آئے تھے اور سر پر کفن باندھ کر آئے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ اگر چھرے والی بندوق سے ہی مرنا ہے تو کیوں نہ قاتل بندوق والوں کو مار کر مرا جائے۔۔۔ بھارت جب تک اس صداقت کو تسلیم نہیں کرے گا اس وقت تک اوڑی کے دہرائے جانے کے امکانات نوشتہء دیوار بنے رہیں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کشمیرکے آزادی خواہ بھائی بہنوں کو ہم پاکستانیوں کی اخلاقی، سفارتی اور ابلاغی سپورٹ ہمیشہ حاصل رہی ہے اور آئندہ بھی حاصل رہے گی۔


اگلے روز مہمند ایجنسی کی مسجد میں جو درجنوں نمازی شہید اور زخمی ہوئے اور اس سے پہلے کوئٹہ میں بیسیوں وکلاء کو جس طرح شہید کیا گیا، کیا ان سانحات میں بھارت کا کوئی ہاتھ نہیں تھا؟ اور اس سے پہلے بھی لا تعداد حادثوں میں جو سینکڑوں پاکستانی شہید ہوئے ان کے قاتل اور سہولت کار سرحد پار افغانستان سے نہیں آتے اور سرحد پار کون بیٹھا ہے جو ان کو ہر قسم کی امداد دے رہا ہے ،کس کو خبر نہیں کہ بھارت کی ’’را‘‘ وہاں کیا کر رہی ہے اور اسے کن کن سہولت کاروں اور مربیوں کی سپورٹ حاصل ہے؟


ہندو سے کچھ بعید نہیں کہ وہ پاکستان پر سرجیکل سٹرائک کا عاقبت نا اندیشانہ اقدام کر بیٹھے۔ بھارتی وزیر اعظم نے جو یہ ’’چتاؤنی‘‘ اپنے دیش بھگتوں کو دی ہے کہ اوڑی کے حملہ آور سزا سے نہیں بچ سکیں گے تو اس کے دو مطلب نکالے جا سکتے ہیں۔۔۔ ایک یہ ہے کہ جس طرح جیش محمد پر الزام تھوپا جا رہا ہے کہ یہ حملہ اس نے کیا ہے کیا اس طرح کا کوئی مسلح جتھا بھارت میں بھی قائم ہے؟ کیا بھارت نے اپنے ہاں کسی ’’ہنو مان سینا‘‘ کو تیار کر رکھا ہے کہ وہ پاکستان میں لائن آف کنٹرول کراس کر کے در آئے اور پاکستان کی کسی ملٹری بیس پر اسی طرح کا حملہ کر دے جیسا کہ (بقول بھارت) اوڑی اور اس سے پہلے پٹھانکوٹ پر کیا گیا تھا؟۔۔۔ اگر ایسا ہے تو بھارت کو ’’ترنت‘‘ جوابی کارروائی کرنی چاہئے اور اپنی ہنو مان سینا کے سورماؤں کو جانوں کا بلیدان دینے کے لئے پاکستان میں داخل کر دینا چاہئے۔۔۔ مودی جی کی دھمکی کا دوسرا مطلب پاکستان پر سرجیکل سٹرائک کی آپشن ہے جس کے تمام پلان، دہلی کے ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ میں تیار پڑے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو اٹھا کر روبہ عمل لایا جا سکتا ہے۔۔۔۔ تاہم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایک قسم کا کھلا حملہ ہوگا اور پاکستان نے بار ہا کہا ہے کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے گا۔ اس سرجیکل سٹرائک فورس کا مقابلہ پاکستان اپنے بیٹل فیلڈ نیو کلیئر ٹیکٹیکل وار ہیڈز سے کر سکتا ہے۔ لائن آف کنٹرول یا بین الاقوامی سرحد پر بھارت نے جہاں جہاں سے سرجیکل سٹرائک لانچ کرنے کے منصوبے بنا رکھے ہیں ان کا سب احوال اور تفصیل پاکستان کو معلوم ہے۔ اور ویسے بھی آج کے دور میں اگر دونوں ممالک کی افواج کا کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا دستہ بھی کسی ایک لوکیشن سے دوسری لوکیشن میں جانے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی ساری کی ساری خبر فریقِ مخالف کو ہو جاتی ہے۔ ہاں اگر بھارت کی کسی آرڈننس فیکٹری نے اپنی سینا کی وردیوں میں ’’سلیمانی ٹوپیاں‘‘ بھی شامل کر رکھی ہیں تو بات دوسری ہے!


راولپنڈی میں بھی پاکستانی ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ میں لحظہ بہ لحظہ اور لمحہ بہ لمحہ یہ خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں بھارتی یونٹ فلاں جگہ سے موو (Move) کر کے فلاں مقام پر جا رہی ہے، ابھی راستے میں ہے، فلاں وقت منزل مقصود پر پہنچے گی اور اس کے آئندہ عزائم یہ ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ جدید ٹیکنالوجی نے اس رئیل ٹائم انٹیلی جنس سسٹم کی کار کردگی فول پروف بنا دی ہے۔ بھارت اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ دہلی میں بیٹھ کر جلال آباد اور کابل میں پراکسی وار کی پلاننگ اور تکمیل میں افغان نیشنل آرمی اور کابل کی NDS (نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی) کے ساتھ مل کر بلوچستان اور نیز فاٹا (آجکل مہمند ایجنسی) میں ’’من چاہی‘‘ کارروائیاں کر سکتا ہے، اگر افغان اور تاجک اور ازبک خود کش بمباروں کو تیار کر سکتا ہے، اگر اسرائیل اور امریکن فوج جو ابھی تک افغانستان میں موجود ہے وہ بھی بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان میں خود کش حملے کرا سکتی ہے تو بھارت کو بھی امید رکھنی چاہئے کہ پاکستان اس اتحادِ ثلاثہ (بھارت، افغانستان، امریکہ) کی ہر اس موو (Move) کو پہلے کی طرح توڑ (Scuttle) سکتا ہے جو پاکستان کے خلاف کی جائے گی!

مزید :

کالم -