عدلیہ عمران خان کے سرپر دست شفقت رکھے

عدلیہ عمران خان کے سرپر دست شفقت رکھے
عدلیہ عمران خان کے سرپر دست شفقت رکھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈاکٹر رشید گِل کینیڈا

پاکستان میں حکمران جماعت مُسلم لیگ تا دمِ تحریر پانامہ لیکس کے بارے میں حزب اختلاف کے مطالبات ماننے سے انکاری ہے۔ اُدھرعمران خان اپنے موقف پر ڈ ٹے ہوئے ہیں اور رائے ونڈ احتجاج کا اٹل فیصلہ کرچکے ہیں کیونکہ انہیں عدلیہ نے بھی مایوس کردیا ہے اور وہ انصاف کے لئے سڑکوں پر نکلنا اپنی سیاسی مجبوری سمجھتے ہیں ۔عمران خان کو یہ یقین ہوچلا ہے کہ پاکستان میں نیب ،الیکشن کمیش سمیت دیگر عدالتی نظام ن لیگ مخالف جماعتوں کے مقدمات میں جانبدار ہوچکا ہے ۔گویاوہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عدالتی نظام انکی نہیں کرپشن مافیا کی سرپرستی کرتا نظر آتا ہے۔ اس وقت ہم جیسے تارکین وطن ملک کی سیاست کا نہایت دردمندی سے جائزہ لیتے ہیں۔ہمیں یہ دکھائی دے رہا ہے کہ عمران خان کے موجودہ اعلان کے بعد حلیف پارٹیوں نے رائے ونڈ میں وزیر اعظم نواز شریف کے گھر کے سامنے دھرنا دینے اور احتجاج کرنے سے معذوری ظاہر کردی ہے لیکن وہ اپنے فیصلہ پر قائم ہیں۔ سَب سے پہلے مُسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے یہ کہہ کر لانگ مارچ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا کے سیاسی مخالفین کے ذاتی گھروں کے سامنے احتجاج کر نا سیاسی آداب کے خلاف ہے اور وُہ اور اُنکی پارٹی ایسی روایت ڈالنے میں کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ بھی شریک نہیں ہوگی۔ اِس کے بعد ڈاکٹر قادری صاحب نے بھی شمولیت سے انکار کر دیا۔ تاہم اُنکو منانے کے لئے شیخ رشید کا فی متحرک رہے ہیں۔ اور اُن کو اِس بات پر راضی کر لیا ہے کہ وُہ ایکدم کنا رہ کشی کرنے کی بجائے تحریک انصاف کی اخلاقی مدد اور حمائت جاری رکھیں۔ لہذا ڈا کٹرطاہر القادری علامتی طور لا نگ مارچ میں شرکت فرما ئیں گے۔ جماعت اسلامی نے بھی علامتی شرکت پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ تحریک انصاف کو جماعت اسلامی کی، جیسا کہ پہلے سمجھا جار رہا تھا بھرپُور حمائت حاصل نہ ہوگی۔ پیپلز پارٹی پہلے ہی رائے ونڈ میں احتجاچ کرنے کو مسترد کر چُکی ہے۔ ہاں شیخ رشید کی عوامی مُسلم لیگ تحریک انصاف کے ساتھ ہوگی۔ جو کہ عددی اعتبار سے تحریک انصاف کے مارچ میں شرکت کرکے غیر معمولی نتائج بر آمد نہیں کر سکتی۔ عملی طور پر عمران خان کی تحریک انصاف ہی میدان میں اکیلی رہ گئی ہے اور عمران خان پھر بھی لانگ مارچ کے لئے بضد ہیں۔
موجودہ صورتحال میں مُسلم لیگ ن کی قیادت اپنی حکمتِ عملی میں کامیاب دکھائی دیتی ہے۔ مُسلم لیگ ن کامیا ب اِس لئے ہے کہ انہوں نے حزب اختلاف میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ جس سے مُخالفت کے زور کو توڑ دیا گیا ہے۔ جو کہ تحریک انصاف کے چیئر مین کے لئے بلاشبہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے چیئر مین کے لئے اپنے ارادے سے باز رہنا بھی اَب ممکن نہیں رہا۔ اپنے آپ کو اور تحریک کے ممبران کو عوام کی نظر میں پُر عزم اور مُستقل مزاج ثابت کرنے کے لئے انہیں اکیلے ہی لانگ مارچ کرنا پڑے گا بھلے اِس کے نتایج کُچھ بھی ہوں۔
عمران خان نے حلیف جماعتوں کے ریمارکس کا جائزہ لیتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین کے اعتراض کا جواب یوں دیاہے کہ مغربی ممالک میں لوگ وزراء اعظم کی رہائش گاہوں کے سامنے مظاہرے کرتے ہیں۔ جن کو کبھی بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ شائد انہوں نے ڈھکے چُھپے لفظوں میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ آپ کا بہانہ جائز نہیں بلکہ عذرِ لنگ ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ چوہدری صاحبان کے افواج پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے کافی اچھے مراسم ہیں لہذا فوج کے دباؤ کیوجہ سے انہوں نے لانگ مارچ نہ کرنے کے لئے بہانہ ڈھو نڈاہے۔ اِس طرح جماعتِ اسلامی نے بھی کھُل کر نواز شریف کے سامنے آنے سے انکار کیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی تحریک انصاف کے ساتھ مِل کر ا پنی سیاسی ساکھ کو نُقصان پہچانا نہیں چاہتی۔ جماعتِ اسلامی کو اِس بات سے بھی اختلاف ہے کہ تحریک انصاف کے جلسوں میں ناچ گانابہت ہوتا ہے جو کہ غیر شرعی ہے۔ لہذا جماعت اسلامی نے علامتی حمائت کرنے میں ہی عا فیت سمجھی ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ جماعت کو لانگ مارچ کی کامیابی پر تحفظات حاصل ہیں۔
اب رہ گیا یہ سوال کہ کیا پی پی پی تحریک انصاف کا ساتھ دے گی ؟ لیکن یہ ابہام بھی ختم ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان تعاون کی افواہیں اِس وقت دم توڑ گئیں جب قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے لیڈر اور حزِب اختلاف کے لیڈر نے لانگ مارچ میں یہ کہہ کر انکار کر دیا کے وُہ سیاسی اختلافات کو نجی رہائش گاہوں تک لیکر جانے کے لئے تیار نہیں۔ ہم تحریک انصاف کے موقف کی جو کہ پانامہ لیکس کے سلسلہ میں ہے پوری طرح تا ئید کرتے ہیں لیکن رائے ونڈ میں نواز شریف کی رہائش گاہ کے سامنے دھرنا نہیں دینا چاہتے۔ عمران خان نے اِس سلسلہ میں اُن سے کوئی مشاورت نہیں کی۔
مذکورہ بالا حالات میں تحریک انصاف کا کامیاب ہونا نہا یت مُشکل نظر آتا ہے۔ مُسلم لیگ ن کی جانب سے بھی تحریک انصاف کے مارچ کو نا کام بنانے کے لئے ہر طرح کی تیاری اور کو شش کی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مُطابق مسلم لیگ کے جوانوں نے تحریک انصاف کا مُقابلہ کرنے کے لئے ڈنڈا فورس تیار کر لی ہے۔ دونوں جانب سے طاقت کا مظاہرہ کرنے کی صورت میں بد امنی کا شدید اندیشہ ہے۔بلا شبہ جانی اور مالی نقصان کا خطرہ بھی اپنی جگہ ہے۔ اِس شو ڈاؤن سے بچنے کے لئے کیا ہی اچھا ہوتا اگر حکمران مُسلم لیگ اعلیٰ ظرفی کا مُظاہر ہ کرتے ہوئی ا پوزیشن کے مطالبات مان کر وزیر اعظم کی تحقیق کا مطالبہ مان لیتی۔ لیکن مُسلم لیگ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرکے بلا شبہ اپنی سیاسی ساکھ کو نُقصان پہنچایا ہے۔ عوام یہ سمجھنے میں با لکل حق بجانب ہیں کہ دال میں واقعی کچھ کالا ہے جس کو چھُپانے کی کوشش کی جار رہی ہے۔قومی اسمبلی میں ا یاز صادق کے ریفرنسز اِس بات کا بین ثبوت ہیں کہ نواز شریف کو بچانے کوشش کی گئی ہے جبکہ عمران خاں اور جہانگیر ترین کو ٹارگٹ بنایا گیا ہے۔عمران خان کے حالیہ بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وُہ عدالتوں اور اداروں سے مایوس ہو چُکے ہیں۔ تاہم عدالتیں مُلک اور اداروں کو تباہی سے اب بھی بچا سکتی ہیں۔ عدالتیں از خود نوٹس لیکر معاملات کی آزادانہ طور پر تحقیق کر سکتی ہیں۔ جس سے مُلک عدم استحکام اور بد امنی سے بچ سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے تمام اپوزیشن کو مِل کر عدالتی جنگ لڑنی چاہئے تاکہ کرپٹ سیاستدانوں کو مزہ چکھایا جا سکے۔اور عدا لتوں کو آگے بڑھ کر از خود نوٹس لیتے ہوئے پانامہ لیکس کے بارے فیصلہ سُنانا چاہئے تاکہ ابہام دُور ہو سکے۔عدالتوں کا فیصلہ سب کو قبول ہوگا۔ عدالتوں کا احترام ابھی سیاستدانوں اور عوام کے دِلو ں اورذہنوں میں موجود ہے۔ اب بھی تصادم سے بچا جا سکتا ہے۔عدالتیں الُجھن کو سُلجھا سکتی ہیں۔
کچھ لکھاری کے بارے میں

*( کینیڈا میں برسوں سے مقیم ڈاکٹر رشیدگِل ایک درد مند اور صاحب ادراک قلم کار بھی ہیں۔میڈیکل سائنس سے وابستہ ہیں۔ انکے سیاسی کالم کینیڈا سے شائع ہونے والے اخبارات میں مقبول عام ہیں)

مزید :

بلاگ -