پیپلز پارٹی، بلاول اور جادو کی چھڑی

پیپلز پارٹی، بلاول اور جادو کی چھڑی
 پیپلز پارٹی، بلاول اور جادو کی چھڑی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مجھے 1977ء کا زمانہ یاد آرہا ہے،جب میری عمر 20برس تھی اور میں ذوالفقار علی بھٹو کے سحر میں مبتلا تھا۔ انتخابات کا دور آیا تو میں صبح سویرے ایک رکشے پر سوار ہو کر جس پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا اور لاؤڈ سپیکر لگا ہوتا، پورے شہر کا سارا دن چکر لگاتا۔ اُن دنوں پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تلوار تھا، میں سارا دن تلوار، تلوار جو ہمیشہ غریبوں کے حق میں اُٹھی، جس نے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے ظلم کا خاتمہ کیا، اب پھر چلے گی یہ تلوار اور آئے گا ذوالفقار، جیسی بے ربط باتوں سے لوگوں کی سمع خراشی کرتا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دینی جماعتوں کا اتحاد تھا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی ایک مقبول جماعت کے طور پر موجود تھی۔ میرا رکشہ جہاں جاتا، لوگ والہانہ استقبال کرتے اور نعرے بھی لگاتے۔ طالب علمی اور جوانی کا یہ زمانہ میرے شعور پر اب تک نقش ہے۔ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کے انتخابات جیتی، مگر دھاندلی کا الزام لگا، پھر ایک تحریک چلی اور بالآخر ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری اور سزا پر خود سوزیاں کیں، کوڑے کھائے، مصیبتیں برداشت کیں، لیکن پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کو عوام نے تین مرتبہ اقتدار دیا، پنجاب بھی آگے آگے رہا، لیکن آج اسی پیپلز پارٹی کا کیا حال ہوگیا ہے۔

لاہور کے ضمنی انتخاب میں سوا دوسو ووٹ، جبکہ پولنگ سٹیشنوں کی تعداد 220تھی۔ یہ تو ایسے لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے آخر وقت پر الیکشن کا بائیکاٹ کردیا ہو یا وہ ایک نوزائیدہ جماعت ہو، جسے ابھی لوگ جانتے بھی نہ ہوں۔ یہ دیکھ کر مجھ جیسے پرانے پپلئے کے دل میں دکھ اور مایوسی کا ایک جھکڑ تو چلنا ہی ہے۔


ایک بڑی سیاسی جماعت، جسے بجا طور پر وفاقی جماعت کہا جاتا ہے، ایسی حالت سے کیوں دو چار ہوگئی ہے کہ اس کے امیدوار اپنی ضمانتیں ضبط کرارہے ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں، جو پیپلز پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا، آج پیپلز پارٹی اگر محض دوسو ووٹوں کی جماعت بن گئی ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی سبب تو ضرور ہوگا۔ آصف علی زرداری خیبر پختونخوا میں بیٹھ کر جب یہ دعویٰ کررہے تھے کہ وہاں آئندہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہوگی تو لاہور میں اُن کے امیدوار ووٹروں کی تلاش میں مارے مارے پھررہے تھے، حتیٰ کہ انہیں پورے پولنگ سٹیشنوں پر بٹھانے کے لئے پولنگ ایجنٹ بھی میسر نہیں تھے، جہاں پیپلز پارٹی ایک مضبوط سیاسی جماعت ہوا کرتی تھی، وہاں اس کی یہ پتلی حالت ہے اور جہاں اس کی کبھی گرفت نہیں رہی، وہاں آصف علی زرداری کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کی نوید سنارہے ہیں۔ آج پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو اس بات کا شدت سے احساس ہورہا ہے کہ انہوں نے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار کرکے بڑی غلطی کی۔ آصف علی زرداری اب یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف سے کہہ دیا تھا کہ چار سال تک ان کی حکومت کو بچائیں گے اور پانچویں برس سیاست کریں گے، گویا انہوں نے خود اس امر کا اقرار کر لیا ہے کہ چار سال پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو سپورٹ کیا اور بطور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کردار صرف دکھاوے کی حد تک رہا۔


یہ بات عوام تو پہلے ہی جان چکے تھے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ تحریک انصاف نے بڑھ چڑھ کر اپوزیشن کا کردار ادا کیا، حتیٰ کہ پاناما لیکس کے مسئلے پر بھی پیپلزپارٹی اگر مگر سے کام لے کر معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ معاملے کو سپریم کورٹ لے جانے پر بھی شدید مخالفت کا اظہار کیا، لیکن جب یہ دیکھا کہ سپریم کورٹ سے سابق وزیر اعظم نوازشریف کو سزا یقینی ہو چکی ہے تو کریڈٹ لینے کے لئے سپریم کورٹ کا طواف شروع کر دیا۔۔۔ عوام سے کون سی بات ڈھکی چھپی رہتی ہے۔ سو ان سب باتوں نے پیپلزپارٹی کو اس لئے شدید نقصان پہنچایا کہ اس کی جگہ تحریک انصاف ابھر کر سامنے آتی رہی اور اس نے ایک سرگرم اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔اب تو پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما بھی یہ کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو اگر زندہ کرنا ہے توآصف علی زرداری کو پیچھے اور بلاول بھٹو زرداری کو آگے آنا ہوگا، لیکن لگتا نہیں کہ آصف علی زرداری یہ کر پائیں گے۔ وہ ہر صورت پارٹی پر اپنی گرفت رکھنا چاہتے ہیں۔ اب بھی پشاور میں انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو تیار ہو رہا ہے، گویا جیسے ایک پہلوان اپنا پٹھہ تیار کرتا ہے اور پھر اپنی سرپرستی میں اسے لڑاتا ہے، وہی کام آصف علی زرداری کر رہے ہیں۔


سوال یہ ہے سیاست میں آپ کس قسم کی تیاری کے بعد کسی کو میدان میں اتارتے ہیں؟ سیاست میں تو تجربہ اسی وقت حاصل ہوتا ہے، جب کوئی اس کے دریا میں کود پڑتا ہے۔ مریم نواز کو کون سا سیاسی تجربہ تھا، لیکن شریف فیملی نے انہیں میدانِ سیاست میں اتار دیا اور فری ہینڈ دے کر سیاست کرنے کی اجازت دی، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ حلقہ 120 کی نشست جیتنے میں کامیاب رہیں۔

اب یہ اتنا بڑا سیاسی تجربہ ہے جس کی بنیاد پر مریم نواز کوئی بھی سیاسی منصب سنبھال سکتی ہیں۔ نوازشریف انہیں اپنا سیاسی جانشین تو پہلے ہی کہتے ہیں ،تاہم اب انہیں مسلم لیگ (ن) کی صدارت سنبھالنے کا ٹاسک بھی دیا جا سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو ان کے بارے میں کسی کے ذہن میں یہ تاثر نہیں اُبھرے گا کہ وہ اپنے فیصلے آپ نہیں کریں گی۔ بدقسمتی سے بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں یہ تاثر قائم نہیں ہو سکا۔ کہیں سے بھی یہ نہیں لگتا کہ وہ آصف علی زرداری کے ہوتے ہوئے کوئی فیصلہ خود کر سکیں گے۔ اس تاثر کی موجودگی میں پیپلزپارٹی کے لئے ایک عام ووٹر میں ہمدردی کا جذبہ کیونکر پیدا ہو سکتا ہے؟
لاہور کے ضمنی انتخاب میں پیپلزپارٹی کی کارکردگی نے اس کے لئے خطرے کی ایک سنجیدہ گھنٹی بجا دی ہے۔

یہ ایسی صورت حال ہے، جس میں پارٹیوں کے لئے امیدواروں کی تلاش بھی ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔ آج کل قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنا کوئی معمولی بات نہیں۔ کئی کروڑ روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ اب ایسی صورت حال میں، جب پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی تعداد سینکڑوں میں رہ گئی ہے، کون سا امیدوار یہ رسک لے گا کہ اپنا سرمایہ ایک بے کارسرگرمی پر ضائع کرے۔ میں جنوبی پنجاب کی صورت حال جانتا ہوں۔ مجھے تو یہاں پیپلز پارٹی کی حالت بہت کمزور نظر آتی ہے۔ ملتان میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور رحیم یار خان میں مخدوم احمد محمود ہی وہ ایسے لیڈر نظر آتے ہیں، جو پارٹی کو منظم کرسکتے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ دیگ ابھی چڑھی نہیں کہ اختلافات پہلے موجودہیں۔

سید یوسف رضا گیلانی اپنے اور بیٹوں کی حد تک پیپلز پارٹی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ پورے جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کوزندہ رکھنے کا اُن کا بھی کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔۔۔ پھر وہ اپنے ذاتی دوستوں اور مہربانوں کو آگے لانے کی کوشش کررہے ہیں، جبکہ نظریاتی کارکن بددل ہورہے ہیں۔ اُدھر احمد محمود بطور صدر جنوبی پنجاب پیپلز پارٹی کو میرٹ پر منظم کرنا چاہتے ہیں، لیکن رحیم یار خان کی حدود سے نکلنے کے بعد انہیں بخوبی علم ہوجاتا ہے کہ ڈیرہ غازی خان، ملتان اور بہاولپور، ڈویژن میں جو لوگ پیپلز پارٹی پر مسلط ہیں،وہ اب پارٹی پر بوجھ ہیں، لیکن اگر وہ اس بوجھ کو نظر انداز کریں تو پارٹی میں انتشار پھیلنے لگتا ہے۔


قصۂ مختصر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو مفاد پرستانہ فیصلوں اور پالیسیوں نے آج اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اسے پولنگ ایجنٹوں کی تعداد سے بھی کم ووٹ مل رہے ہیں۔پنجاب میں کوئی جادہ کی چھڑی ایسی نہیں جو آئندہ چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو زمین سے اُٹھا کر آسمان پر پہنچا دے۔ ہاں ایک چانس ہے کہ آصف علی زرداری پارٹی سے باقاعدہ اعلان کرکے پیپلز پارٹی سے کنارہ کش ہو جائیں اور اس کی مکمل اور با اختیار چیئرمین شپ بلاول بھٹو زرداری کو سونپ دیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں پیپلز پارٹی کے پاس ایک جادو کی چھڑی ہے، جو پیپلز پارٹی کے تن مردہ میں جان ڈال سکتی ہے، مگر یہ ممکن نہیں، کیونکہ آصف علی زرداری اس وقت پارٹی کے معاملات سے الگ نہیں ہوئے تھے، جب بے نظیر بھٹو سب کچھ تھیں، آج کیسے علیحدہ ہو سکتے ہیں، جب وہ خود کو سب کچھ اور بلاول بھٹو زرداری کو ایک بچہ سمجھتے ہیں، اس لئے موجودہ حالات میں تو پیپلز پارٹی کے لئے دعائے خیر ہی کی جاسکتی ہے۔

مزید :

کالم -