شہباز شریف اہم مشن مکمل کرکے لاہور واپس آگئے

شہباز شریف اہم مشن مکمل کرکے لاہور واپس آگئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور میں ہونے والے سنسنی خیز اور کانٹے دار الیکشن میں شاندار کامیابی کے جھنڈے گاڑھ کر مریم نواز لندن چلی گئی ہیں،جبکہ اپنے خاص مشن میں کافی حد تک کامیابی حاصل کر کے شہباز شریف واپس لاہور آ چکے ہیں۔ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے قرار دیا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف آئین کی دفعہ61 (ون۔ایف) کے تحت صادق اور امین نہیں،لہٰذا وہ نااہل ہیں۔ان کی قومی اسمبلی کی نشست این اے120 خالی ہونے پر ضمنی الیکشن ہوا تو مسلم لیگ(ن) کی طرف سے بیگم کلثوم نواز کو امیدوار نامزد کیا گیا جبکہ تحریک انصاف نے یاسمین راشد کو اپنا امیدوار بنایا۔بیگم کلثوم نواز کچھ عرصے سے علیل تھیں۔انہوں نے اپنی نامزدگی کے فوراً بعد لندن جا کر میڈیکل ٹیسٹ کرائے تو ڈاکٹروں نے انہیں کینسر کی مریضہ قرار دے دیا۔میاں نواز شریف فوری طور پر لندن پہنچے تو بیگم کلثوم نواز کے گلے کا دو بار کامیاب آپریشن کر کے کینسر کی گلٹیاں نکالی گئیں۔ڈاکٹروں نے ان کے لئے ایک اور آپریشن بھی تجویز کیا، جو ماہِ رواں میں ہو گا۔یوں کلثوم نواز صاحبہ مسلسل زیر علاج ہونے کی وجہ سے واپس لاہور نہ آ سکیں۔مریم نواز نے اپنی بیمار والدہ کی انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا اور پھر انہوں نے اس قدر زور دار الیکشن مہم چلائی کہ مخالفین بھی داد دینے پر مجبور ہو گئے۔17ستمبر کو این اے120 کی سیٹ پر بیگم کلثوم نواز61ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہو گئیں۔ یاسمین راشد نے ڈور ٹو ڈور کمپین کو اہمیت دی،بعدازاں عمران خان اور دیگر رہنماؤں نے بھی ان کا ساتھ دیا، جلسوں اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔ تاہم سخت اور کانٹے دار مقابلے کے بعد وہ47ہزار66ووٹ حاصل کر پائیں۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ مقابلہ تو یاسمین راشد نے خوب کیا۔اس الیکشن کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے کہا تھا کہ میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے فیصلے کے خلاف عوامی عدالت اپنا فیصلہ دے گی۔ ادھر عمران خان اِس بات پر زور دیتے رہے کہ حلقے کے لوگ یاسمین راشد کو کامیابی سے ہمکنار کر کے سپریم کورٹ کے ججوں کا شکریہ ادا کریں گے،لیکن ایسا نہ ہو سکا،جس پر مریم نواز نے17ستمبر کی رات لیگی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سازشوں کے باوجود شیروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔اب عمران کے رونے کا وقت شروع ہو گیا ہے۔ شاندار کامیابی حاصل کر کے مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن(ر) صفدر کے ہمراہ لندن چلی گئیں،جہاں وہ اپنی بیمار والدہ کی عیادت کرتے ہوئے مبارکبادیں بھی وصول کر رہی ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہم نے پاکستان الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا تھا کہ تحریک انصاف کی امیدوار یاسمین راشد اور پیپلزپارٹی کے امیدوار فیصل میر نے29 ہزار ووٹروں کا بائیو میٹرک ٹیسٹ کا ایشو اٹھا رکھا ہے۔اس پر دونوں امیدواروں کی تسلی کرا دی جائے ورنہ الیکشن رزلٹ کے بعد یاسمین راشد تو ’’پھڈا‘‘ ضرور ڈالیں گی۔ ہمارے مشورے پر عمل نہیں کیا گیا۔ یاسمین راشد نے اب عدالت عالیہ میں یہ ایشو لے کر جانے کا اعلان کر دیا ہے۔اس معاملے میں پیچیدگی کوئی نہیں۔ٹیکنیکی لحاظ سے یاسمین راشد کا اعتراض رفع کرنے کی ضرروت ہے۔ سیاسی حلقے تو یہ کہتے ہیں کہ یاسمین راشد کو ان کی قیادت نے اس ایشو پر ڈٹ جانے کی ہدایت کی ہے تاکہ پُرامن ماحول میں ہونے والے الیکشن کے بعد بھی سیاسی چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہے اور کلثوم نواز کی کامیابی پر اعتراضات ہوتے رہیں جہاں تک عمران خان کی بات ہے،وہ حقیقت بیانی کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز کی کمپین بوجوہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی، کیونکہ ہم نے این اے120 میں ضمنی الیکشن کو معمول کی کارروائی سمجھتے ہوئے بروقت زیادہ اہمیت نہ دی۔دراصل عمران خان کو اِس حلقے میں زیادہ کام کرنے کا خیال اِس وقت آیا جب انہوں نے یاسمین راشد کی حمایت میں قرطبہ چوک مزنگ میں جلسہ کیا اس کے فوراً بعداُنہیں ایک ہفتے کے لئے لندن جانا پڑا۔ واپسی پر انہوں نے جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان،اعجاز چودھری، محمود الرشید اور دیگر رہنماؤں سے صلاح مشورہ کیا۔ پہلے اس پر غور کیا گیا کہ یاسمین راشد کے ساتھ میاں محمود الرشید حلقے میں کمپین کریں،لیکن پھر اعجاز چودھری کا نام فائنل کیا گیا، کیونکہ اعجاز چودھری جب پی ٹی آئی پنجاب کے صدر رہے تو انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ لاہور کے لئے خاص طور پر ہوم ورک کیا تھا۔اب وہ ساری محنت کام آئی۔یاسمین راشد اور اعجاز چودھری نے ڈور ٹو ڈور، کارنر میٹنگز اور ریلیوں کا کامیاب سلسلہ شروع کیا۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد عمران خان نے پنجاب کے چار حلقوں میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا۔2017ء میں این اے120 کے ضمنی الیکشن کے بعد اُن کا کہنا تھا کہ باقی تو سب ٹھیک ہے، ہمیں حلقے کی تین یو سیز میں گڑ بڑ دکھائی دیتی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ تین یوسیز اور29 ہزار ووٹروں کی شناخت کے معاملات کو ایشو بنا کر گلشن کا کاروبار چلانے کی پالیسی اختیار کی جائے گی۔
مریم نواز نے الیکشن کمپین کے دوران مسلم لیگ(ن) اور میاں نواز شریف کی حمایت کرنے والوں سے بھی رابطے کئے۔سیاسی جماعتوں میں سے جمعیت اہلحدیث اور جمعیت العلمائے پاکستان(مولانا نورانی) کے قائدین سے خود ملاقاتیں کر کے حمایت حاصل کی۔مولانا ساجد میر نے اُنہیں یقین دلایا کہ اس ضمنی الیکشن میں ان کی جماعت بیگم کلثوم نواز کی بھرپور عملی حمایت کرے گی۔اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2018ء کے جنرل الیکشن میں بھی ہماری جماعت مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کا پورا ساتھ دے گی۔اِسی طرح جے یو پی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے مریم نواز جب جے یو پی کے صدر پیر اعجاز ہاشمی سے ملنے ان کی رہائش گاہ واقع گارڈن ٹاؤن پہنچیں تو پیر اعجاز ہاشمی اور دیگر رہنماؤں نے مریم نواز کا پُرجوش اور پُرتپاک استقبال کیا۔مریم نواز نے کہا کہ میری والدہ کلثوم نواز کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے لندن میں زیر علاج ہیں۔ میرے والد نواز شریف صاحب ان کی بیماری کی وجہ سے لندن گئے ہوئے ہیں۔مَیں ایک بیٹی کی حیثیت سے آپ کے پاس بھرپور حمایت کے لئے آئی ہوں۔مجھے یقین ہے،آپ مجھے مایوس نہیں لوٹائیں گے۔پیر اعجاز ہاشمی نے کہا کہ آپ کو مایوس لوٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔آپ ہماری بیٹی ہیں۔آپ کا احترام ہم پر لازم ہے ویسے بھی ہماری جماعت(جے یو پی) کی تاریخی روایت ہے کہ اس جماعت کے قائدین نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک فوجی آمروں کی مخالفت کی اور ان کے ہتھکنڈوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ہمیشہ جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا۔ ماضی میں بھی ہم نے مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کا پورے خلوص سے ساتھ دیا۔ البتہ ایک مسئلہ درپیش رہتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت مشاورت کے ساتھ سیاسی مقابلے کے لئے فیصلے نہیں کرتی باہم مشاورت کا بطور خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ہم اِس الیکشن میں آپ کو پوری سپورٹ کریں گے اور یہ سیٹ جیتنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔اس پر مریم نواز شریف نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یقین دلایا کہ باہمی مشاورت کا خیال رکھا جائے گا۔
ہم نے انہی کالموں میں گزشتہ ہفتے یہ بتایا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف ایک خاص مشن پر لندن گئے ہیں،ان کے مشن کا پہلا حصہ یہ تھا کہ خاندان کے بعض افراد کے گلے شکوے ختم کرائے جائیں اور آنے والے دِنوں میں سیاسی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمت عملی تیار کی جائے۔اس کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ بعض ’’دوستوں‘‘ کی مدد اور تعاون سے کس طرح بُرے وقت کو گزارا جائے۔ذرائع کے مطابق شہباز شریف اِس مشن میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔مسلم لیگ(ن) کے معاملات کے حوالے سے بھی بنیادی فیصلے کر لئے گئے ہیں،جبکہ سپریم کورٹ کی طرف سے نظرثانی کی درخواستوں کو مسترد کئے جانے کے بعد نیب کیسز بھگتنے کی پالیسی بھی طے کی گئی ہے۔لندن میں رہتے ہوئے نواز شریف اور شہباز شریف کے رابطے بھی مفید قرار دیئے جا رہے ہیں۔ترکی میں صدر رجب اردوان کے ساتھ خصوصی ملاقات کے بعد لاہور میں سعودی عرب کے نئے سفیر نواف سعید المالکی سے اہم ملاقات ہوئی ہے۔جسے سیاسی اور سفارتی حلقے بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ملاقاتوں کے مثبت نتائج جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ شہباز شریف لاہور میں بیٹھ کر حالات کے مطابق اہم فیصلے کرتے ہوئے سیاسی معاملات بہتر بنائیں گے۔

مزید :

ایڈیشن 1 -