کیا نئی مذہبی جماعتیں آئندہ انتخابات میں موثر کردار ادا کرسکیں گی؟

کیا نئی مذہبی جماعتیں آئندہ انتخابات میں موثر کردار ادا کرسکیں گی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت تقریروں کی حد تک تو بڑی پر جوش تھی حلقہ این اے 120 کے ایک جلسے میں ہمیں بھی شرکت کا موقع ملا، جس جگہ جلسہ تھا وہاں رات تین بجے بھی ٹریفک جام ہوتا ہے کیونکہ ارد گرد کھانے پینے کی دکانیں ہیں جن لوگوں کو رات کے اس وقت بھوک ستاتی ہے یا وہ کڑک چائے پینے کے موڈ میں ہوتے ہیں وہ اس علاقے کا رخ کرتے ہیں گاڑیاں سڑک کے دائیں بائیں اس انداز میں پارک کردی جاتی ہیں کہ اس سڑک پر گذرنا مشکل ہوجاتا ہے، دن کے وقت اس جگہ تو ہر وقت جلسے کا گمان ہوتا ہے سو اس روز بھی تھا بعض لوگ تو گھر سے جلسے کے مقررین کو سننے آئے ہوں گے لیکن کچھ دوسرے جو قریب سے گذر رہے تھے ان کے کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو وہ رک کر گوش بر آواز ہوگئے، مقرر اعلان کررہے تھے جو لوگ کہتے ہیں لاہور میں پیپلز پارٹی ختم ہوگئی وہ آئیں اور دیکھیں کہ پارٹی موجود ہے اور نتیجہ بتا دے گا کہ اس جماعت کو کوئی آمر ختم نہیں کرسکا، یہ کیا کریں گے وغیرہ وغیرہ، جلسے سے واپس آئے تو ساتھیوں نے پوچھا پیپلز پارٹی کتنے ووٹ لے جائے گی انہیں جو جواب دیا وہ اپنے تجزیئے میں لکھ چکے ہیں، حرف مطبوعہ کی شکل میں موجود ہے، پیشگی معذرت کرلی تھی کہ اگر یہ اندازہ غلط ہوگیا تو دوست معاف کردیں، عرض کیا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی کا امیدوار ضمانت بچا سکا تو بڑی کامیابی ہوگی لیکن یہ بچتی نظر نہیں آتی، لیکن نتیجے سے تو یہ بات سامنے آئی کہ صرف پیپلز پارٹی کیا 42 امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئی ہیں۔ البتہ دو جماعتیں ایسی ہیں جن کے امیدوار اگرچہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہے تھے کیونکہ ان کی جماعتیں ابھی رجسٹر نہیں ہوئیں، اسلئے انہیں جماعتوں کا مستقل نشان بھی الاٹ نہیں ہوا لیکن ان جماعتوں کی کارکردگی ہر لحاظ سے بہتر رہی، ایک پارٹی تیسرے نمبر پر آگئی تو دوسری چوتھے نمبر پر، تاہم ضمانتیں ان امیدواروں کی بھی ضبط ہوئیں البتہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ اگر یہ جماعتیں انتخابی سیاست میں مستقل مزاجی سے حصہ لیتی رہیں تو اگلے انتخابات میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ بھی کرسکتی ہیں، دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ جماعت اسلامی کا ووٹر ان سے مزید دور ہوگیا ہے، ورنہ یہ تو نہ ہوتا کہ ضیاء الدین انصاری اتنے ووٹ بھی نہ لے پاتے جتنے 2013ء میں حافظ سلمان بٹ لے گئے تھے، حالانکہ جماعت کے امیر متحرک شخصیت ہیں ہر وقت کسی نہ کسی جلسے سے خطاب کررہے ہوتے ہیں، کسی مارچ کی قیادت کررہے ہوتے ہیں، روزانہ بلا ناغہ حکمرانوں کے خلاف ان کا بیان اخبارات میں شائع ہوتا ہے، سال کے 365 دنوں میں وہی ناغے ہوتے ہیں جب تعطیل کے باعث اخبار نہیں چھپتے کئی ماہ سے وہ کرپشن کے خلاف مہم کے سرخیل ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ جب تک ملک سے آخری رشوت خور کا خاتمہ نہیں ہوجاتا وہ سڑکوں پر رہیں گے وہ چوراہوں میں عدالتیں لگانے کا اعلان کرچکے ہیں لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد اگر ان کے امیدوار کو 592 ووٹ پڑیں تو کہنا پڑتا ہے ایسی بلندی اور ایسی پستی، قاضی حسین احمد یاد آتے ہیں۔ جنہوں نے ایک اسلامک فرنٹ بنانے کا تجربہ کیا اور جماعت اسلامی کو اس کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑایا، نشستیں پھر بھی تین سے زیادہ نہ مل سکیں، ویسے سراج الحق سے ان کی جماعت کی شوریٰ کو یہ تو پوچھنا چاہئے کہ حضور یہ سارا میلہ صرف پانچ سو نوے ووٹوں کی خاطر لگایا تھا؟
آزاد امیدوار شیخ اظہر حسین رضوی نے 7013 ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی جبکہ شیخ یعقوب کو 5822 ووٹ ملے ان سب امیدواروں نے اگر اپنی جماعت کا وزن تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کے پلڑے میں ڈالا ہوتا تو وہ جیت سکتی تھیں یا کم از کم جیت کے بہت قریب پہنچ سکتی تھیں لیکن عجیب بات ہے کہ خیبر پختونخوا میں شریک حکومت جماعت اسلامی نے بھی اس کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کرنا ضروری سمجھا حالانکہ کسی بھی تجزیے میں ان کے امیدوار کی جیت کا کوئی امکان تو سرے سے نہیں تھا لیکن جماعت کے امیدوار کو اتنے کم ووٹ ملیں گے یہ بھی شاید بہت کم لوگوں نے سوچا ہو، اب سوال یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کا ووٹ کس طرف جائیگا کیا تحریک لبیک یا رسول اللہ یا ملی مسلم لیگ یہ ووٹ اڑا لے جائیں گی اور مذہبی سیاسی جماعتیں اپنا اثر و رسوخ مزید کھو دیں گی؟ پچھلے دنوں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی بحث بھی چلتی رہی اور اس کے لئے رابطے بھی ہوئے تھے لیکن یہ بیل منڈ ھے نہ چڑھ سکی حالانکہ 2002ء کے الیکشن میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی میں اچھی نمائندگی حاصل کرلی تھی اور صوبہ سرحد میں تو باقاعدہ مخلوط حکومت بنائی جس نے پانچ سال تک حکومت چلائی لیکن اس کے بعد اس اتحاد کا شیرازہ بھی بکھر گیا اور دوبارہ حکومت سازی کا موقع بھی نہ ملا البتہ متحدہ مجلس عمل میں شامل ایک جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) اب بھی سیاست پر اپنی گرفت کا مظاہرہ کررہی ہے سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین کا تعلق اس جماعت سے ہے، وفاقی حکومت میں اس کے وزراء ہیں، بلوچستان میں بھی شریک حکومت ہے، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ مذہبی جماعتوں کا ووٹ متذکرہ دونوں جماعتیں لے اڑیں گی لیکن یہ کہنا ابھی مشکل ہے کہ انہیں اگلے کسی انتخاب میں کوئی ایسی قابل ذکر کامیابی حاصل ہوسکے گی کہ وہ ملکی سیاست پر اپنا اثر چھوڑ سکیں، دونوں جماعتوں کے کارکنوں نے نظم و ضبط کے ساتھ کام کیا اور جہاں جہاں سے کارکن بلا کر لاہور میں جمع کرسکتے تھے کرلئے، چونکہ ایک حلقے میں الیکشن ہورہا تھا عام انتخابات میں ایسا ممکن نہیں ہوگا اس وقت امیدواروں کو مقامی کارکنوں پر انحصار کرنا ہوگا اس کے لئے جس تنظیم سازی کی ضرورت ہے اس جانب توجہ درکار ہوگی۔

مزید :

تجزیہ -