پرائمری تعلیم کا کھوکھلا پن!

پرائمری تعلیم کا کھوکھلا پن!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زلیخا اویس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم کو بجا طور پر انسان کی ’ تیسری آنکھ‘ کہا جاتا ہے۔ انسان کو سچائی کی پہچان‘ حقائق کا ادراک اور معاشرے میں مہذب زندگی گزارنے کا سلیقہ علم ہی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا راز بھی علم ہی ہے۔
انسان کی دیگر مخلوقات پر برتری کا سبب یہی ’ علم‘ بنا۔ یہی علم انسان کے اندر ’جوہر انسانیت‘ پروان چڑھانے کا ذریعہ بھی ہے۔مشہور فرانسیسی مفکر روسیو کہتا ہے کہ ’ ’جس طرح درختوں کا ارتقاء کاشت کاری کے ذریعے ہوتا ہے ‘ اسی طرح انسانوں کا ارتقاء تعلیم کے ذریعے ہوتا ہے‘‘۔
عصر حاضر میں علم کی فراہمی کے لئے سکول و کالجز کی شکل میں ایک باقاعدہ تعلیمی نظام قائم ہے۔اس نظام کی مضبوطی و پائیداری ہی ملک و معاشرے کے مستقبل کی ضمانت ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج علم و تعلیم کی اہمیت کو ہر سطح پرمحسوس کیا جارہا ہے۔ بلکہ مبالغہ نہ ہو گا اگر یہ کہا جائے کہ روٹی ‘ کپڑا اورمکان کی بنیادی ضروریات میں اب ’تعلیم ‘ کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ لیکن یہ بھی بڑی تلخ حقیقت ہے کہ تعلیم جس قدر عام ہوئی ہے اسی قدر معیار تعلیم میں گراوٹ بھی آئی ہے۔ خا ص طور پر پرائمری سطح کی تعلیم کو بہت نقصان پہنچا۔ذیل میں ابتدائی معیار تعلیم کے سلسلے میں درپیش چند اہم مسائل اور ممکنہ حل تحریر کئے جارہے ہیں۔
تعلیم ایک اہم انسانی حق ہے اور انسانی سماجی اور اقتصادی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچپن کی ابتدائی تعلیم انسانی زندگی میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ابتدائی بچپن ایک بچے کی جسمانی فکری جذباتی ذہنی اور سماجی ترقی کے لحاظ سے زندگی کا ایک انتہائی اہم مرحلہ ہے۔ ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی ترقی ایک حیران کن شرح سے ترقی اور سیکھنے کا عمل 6 سال کی عمر سے اصل میں شروع ہوتا ہے کہ جب بچہ صحیح معنوں میں ہوش سنبھالتا ہے اس کا تحت الشعور اجاگر ہونا شروع ہوتا ہے یہ وہ عمر ہوتی ہے جب بچے کی جسمانی اور ذہنی نشو نما عروج پر ہوتی ہے اس کا ذہن چیزوں کو قبول کرنے کے معاملے میں بہت تیز ہوتا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد کے حالات کو بہت تیزی سے محسوس کرتا ہے قبول کرتا ہے اس عمر میں بچے کی ذہنی صلاحیتیں کیونکہ کہ تیزی سے پروان چڑھ رہی ہوتی ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اس کی بنیادی تعلیم کا آغاز کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس عمر میں وہ چیزوں کو تیزی سے سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے باتوں کو فوری طور پر قبول کرتا ہے۔ اس کی ذہنی اور جسمانی نشونما دونوں ہی ساتھ ساتھ اور تیزی سے ہو رہی ہوتی ہیں۔برطانیہ کے ماہر تعلیم سر کین روبنسن نے پرائمری کی سطح پر بچوں کی تعلیم میں تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کے بارے میں زور دیا ہے۔کین روبنسن کے مطابق تعلیم میں تخلیق کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ تعلیم میں خواندگی کی۔ ہمیں سکولوں میں پرائمری کی سطح سے ہی تخلیق کے عمل کو ابھارنا چاہئے۔ کین وربنسن کہتے ہیں کہ اِس وقت کے نظام تعلیم کے مطابق پڑھائی میں غلطی کرنے کو بدترین چیز سمجھا جا تا ہے جس کے نتیجے میں بچوں میں پائی جانے والی قدرتی صلاحیتوں تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ہونے والی پرورش بچوں کی صلاحیتوں سے ہٹ کر ہو رہی ہے۔ہمارے ہاں زیادہ تر نظامِ تعلیم بچوں کی صلاحیتوں کو دبا رہے ہیں اور اس نظام میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔ایک مہذب، تعلیم یافتہ اور باشعور معاشرے کی نظر میں پرائمری تعلیم کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ حکمتِ عملی اور اصلاحات کے عمل کو جاری رکھتے ہیں۔
تعلیمی نظام میں پرائمری تعلیم کو بجا طور پر ’ بنیاد کا پتھر‘ سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ پتھر بہت ہی کمزور ہوچکا ہے۔ پرائمری تعلیم سے نکلنے والی ایک کثیر تعداد بنیادی صلاحیتوں ’تحریر‘ اور ’خواندگی‘ تک سے نا بلد ہے۔ حتیٰ کہ دسویں کلاس تک پہنچنے والی ایک تعداد ایسی بھی ہوتی ہے جو اپنا نام تک بھی لکھنا نہیں جانتی۔ اس کی ذمہ دار صرف پرائمری تعلیم ہے۔ حکومتی سطح پر پسماندہ علاقوں کا تو معاملہ ہی جد ا ہے کہ وہاں کئی کئی کلاس کو صرف ایک استاد پڑھاتا ہے ‘ لیکن پرائیویٹ اداروں میں بھی بھاری فیس وصول کرنے کے بعد ساری توجہ صرف ظاہری چیزوں (عمدہ یونیفارم‘ بھاری بستہ‘ خوب صورت اور پر شکوہ عمارتوں) پرصرف کردی جاتی ہے۔ بچے کیSkil Learning اور اس کی ذاتی نشونما پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ جبکہ ابتدائی بچپن میں ایک بچے کو دی جانے والی تعلیم کی اہمیت سے کسی بھی صورت سے انکار ممکن نہیں ہے اور یہ بچے کی تربیت کی پہلی سٹیج ہوتی ہے اور اس کی بنیاد ہوتی ہے اور یہی بنیادی تربیت آگے جا کر اس کو ایک اچھا انسان بنانے اور بننے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔
مفید اور موثر تعلیم کے لیے جامع معلومات پر مبنی منصوبہ بندی، تعلیم کی ترسیل و فراہمی اور ہمہ وقت جانچ پڑتال کی ضرورت ہوتی ہے ضروری ہے کہ پرائمری سطح پر سکولوں میں جانچ پڑتال کی جائے جس سے یہ معلومات حاصل ہوں گی کہ اس مرحلے پر کتنے طلباء تعلیم جاری نہ رکھ سکے، اور جو پاس ہو کر اگلے مرحلے تک گئے ان کی امتحان میں کارکردگی کیسی تھی اور کیا انھیں مستقبل میں یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل دیا گیا ہے یا نہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ سیکنڈری سکولوں کے منتظم اداروں میں آزادانہ جانچ پڑتال کے پروگرامز موجودہیں جن کی مدد سے ان سکولوں کے طلباء کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے لیکن یہ جانچ پڑتال مناسب وقت پر نہیں کی جاتی کیونکہ اس میں پرائمری کی سطح پر سکولوں سے نکل جانے والے طلبہ شامل نہیں ہوتے اور اس پروگرام کے ذریعے پرائمری سطح پر بہتری لانے کے اقدامات ممکن نہیں ہیں۔قومی سطح پر پرائمری سکولوں کے معیارِ تعلیم کو پرکھنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ہم مختلف تعلیمی نظام جیسے پبلک، پرائیوٹ اور مدرسے کے تدریسی نظام کا موازنہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہم ان تینوں نظام میں موجود عدم مساوات کی نشاندہی اوردرستگی کر سکتے ہیں۔سکولوں کی موثر نگرانی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پرائمری سطح کے سکولوں کے لیے تمام تعلیمی نظاموں کے زیرِ انتظام سکولوں میں مخصوص اہداف مقرر کریں اور ان کی مدد سے ایسی پالیسی مرتب کریں جس میں ان گروپس پر توجہ مرکوز کی جا سکے جو پرائمری سطح پر سب سے ناموافق صورتحال سے دوچار تھے۔
سکولوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا اور ان کی نگرانی کرنے کا عمل کافی مہنگا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اسے نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس عمل کی مدد سے سکولوں کی کارکردگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور سکولوں کو ان کی ضروریات کے حساب سے بجٹ فراہم کیا جاسکتا ہے۔ کارکردگی کے معیار کو پرکھنے کے پروگرام کی مدد سے سکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں کی معلومات اور سکول چھوڑنے والے طلباء کی درست معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں جس سے سکولوں کی کارکردگی بہتر بنانا آسان ہو جاتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پرائمری سکولوں میں بچوں کے داخلے کو فوقیت دی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ داخلہ لینے والے طلباء اپنی تعلیم مناسب طریقے سے مکمل کریں۔ صرف داخلہ لینا اور برائے نام تعلیم حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
تعلیمی نظام میں لائے جانے والی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ خیال اس بات کا رکھنا ہوگا کہ سکولوں میں دی جانے والی تعلیم کے معیار کو جانچا جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ مقررہ تعلیمی اہداف حاصل کئے جاسکیں اور بچے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں۔ان تبدیلیوں کے علاوہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ہمیں ایسا نظام چاہیے جس میں اچھی کارکردگی دکھانے والے سکولوں کو سراہا اور نوازا جائے۔ پرائمری سطح پر اچھی کارکردگی دکھانے والے سکولوں میں اس نظام کو ابتدائی طور پر متعارف کرایا جا سکتا ہے جہاں نئے داخلوں کی تعداد میں اضافہ کرنے یا پڑھائی کا معیار بہتر کرنے والے سکولوں کو نوازا جائے اور بطور مثال پیش کیا جائے تاکہ دوسرے سکول ان کی تقلید کریں۔وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ہمیں معیارِ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے اعدادوشمار اورمعلومات کی اشد ضرورت ہے۔ کئی تھنک ٹینکس اور غیر سرکاری ادارے اعدادوشمار جمع کرتے ہیں اور بہتر اعداوشمار کے حصول کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔لیکن اصولی طور پر یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ اس معلومات کو نہ صرف جمع کرے بلکہ جمع کرنے کے بعد اسے عوام کے سامنے پیش بھی کرے اور شفافیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتائے کے عوام کے دیے گئے ٹیکس کو کس طرح استعمال کیا گیا۔
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے لیے منظم طریقہ کار اپنانا ہوگا اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک سکولوں میں دی جانے والی تعلیم اور ان کے طریقے کار کو جانچنے اور نگرانی کا نظام نہ متعارف کرایا جائے۔
بلاشبہ سکولوں میں یہ نظام متعارف کرانا دشوار اور مہنگا ہے لیکن اگر نچلی سطح پرلاگو کیا جائے تو مستقبل میں ہمیں اس نظام کے فوائد اور اس افادیت کا اندازہ ہوگا۔
نئی حکومت تعلیم کو اپنے ایجنڈے میں مناسب مقام دے گی اور تعلیم کی فراہمی کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو درست کرنے کے لیے مناسب اقدامات اٹھائے گی لہٰذا مضبوط قوت ارادی اور حد درجہ قوت عمل کی ضرورت ہے، اسی سے تعمیر ملت و تشکیل سماج کا خواب شرمندء تعبیر ہوسکتا ہے۔ سچ کہا شاعر مشرق نے
تعلیم ہے فقط امراض ملت کی دوا

مزید :

ایڈیشن 2 -