نوازشریف کے خلاف نیب عدالت کا فیصلہ معطل

نوازشریف کے خلاف نیب عدالت کا فیصلہ معطل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے سابق وزیراعظم نوازشریف ، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو نیب عدالت کی طرف سے دی گئی سزائیں معطل کر دی ہیں اور انہیں پانچ پانچ لاکھ روپے کی ضمانتوں پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ مچلکے جمع کرانے کے بعد تینوں رہنماؤں کی رہائی عمل میں آ چکی ہے اور وہ خصو صی طیارے کے ذریعے لاہور پہنچ گئے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بنچ نے منگل کے روز نیب کے پراسیکیوٹر کو تحریری حکم دیا تھا کہ وہ بدھ کو اپنے دلائل مکمل کر لیں اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو ان کے تحریری دلائل کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ بدھ کو نیب پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل مکمل کرلئے جس کے بعد فاضل بنچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا اور تین بجے سنا دیا۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی صدارت میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر غور کیا گیا اور فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا اعلان کیا گیا، جب یہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت تھا اس وقت بھی چیئرمین کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں سزا معطلی کا مقدمہ روکنے کی استدعا کی گئی تھی سپریم کورٹ نے نہ صرف یہ درخواست مسترد کر دی بلکہ نیب کو 20ہزار روپے جرمانہ بھی کیا۔ اس درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہائی کورٹ نیب کی صوابدید پر مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتی۔کیا نیب اس طرح کی درخواستیں دائر کرکے ہائی کورٹ کے اختیارات محدود کرنا چاہتی ہے۔ مقدمات کی سماعت کے دوران فریقین کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے دورانِ سماعت یہ بھی استفسار کیا تھا کہ ہائی کورٹ نے سزا معطلی کی اپیلوں کی سماعت پہلے کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس میں غیر قانونی بات کیا ہے؟
نوازشریف کے خلاف دو مزید ریفرنس بھی نیب عدالت میں زیرسماعت ہیں تاہم ان میں کوئی دوسرا ملزم نامزد نہیں ہے۔ اسلام آباد کورٹ کے فیصلے کے تحت نوازشریف کی رہائی کے سیاسی اثرات بڑے دوررس ہوں گے اور مسلم لیگ(ن) کی صفوں میں ایک نیا جوش و خروش دیکھنے کو ملے گا۔ چند روز پہلے جس کی ایک جھلک بیگم کلثوم نواز کے انتقال اور بعدازاں ان کے جنازے اور تجہیز و تکفین کے تمام عمل میں دیکھی گئی۔ 14اکتوبر کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی ان نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں جو ایک سے زیادہ نشستیں جیتنے والوں نے خالی کی ہیں اس لئے اس رہائی کے اثرات ان ضمنی انتخابات پر بھی مرتب ہوں گے اور مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم میں جوش و جذبہ پیدا ہو گا اور کارکنوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ میاں نوازشریف اور مریم نوازشریف انتخابی مہم چلائیں گی تو ووٹروں کو بھی مضبوط پیغام ملے گا۔
نیب عدالت نے 6جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ اس وقت سنایا تھا جب نوازشریف اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی عیادت کے سلسلے میں لندن میں مقیم تھے جو کینسر کے علاج کے دوران وینٹی لیٹر پر تھیں ان کی جانب سے عدالت میں استدعا کی گئی تھی کہ فیصلے کا اعلان چند روز کے لئے موخر کر دیا جائے تاکہ وہ خود عدالت میں حاضر ہو کر فیصلہ سن سکیں لیکن ان کی درخواست مسترد کر دی گئی اس سے پہلے ان کی جانب سے عدالت میں حاضری سے استثنا کی درخواستیں بھی مسترد ہوتی رہیں اور کیس کی سماعت بھی تیز رفتاری سے ہوئی نواز شریف نے لگ بھگ ایک سو پیشیاں بھگتیں۔ ان کی غیر حاضری میں سزاؤں کا اعلان کر دیا گیا، تاہم وہ فیصلے کے ایک ہفتے کے اندر 13جولائی کو اپنی صاحبزادی مریم کے ساتھ واپس آ گئے۔ لاہور کے ہوائی اڈے پر اترتے ہی انہیں سخت حفاظتی پہرے میں گرفتار کرکے بذریعہ طیارہ اڈیالہ جیل پہنچایا گیا ان کی آمد کے بارہ روز بعد 25جولائی کو عام انتخابات ہوئے جس میں ان کی پارٹی شکست کھا گئی وفاق اور تین صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومتیں بن گئیں۔
28جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ نے نوازشریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا جس کے بعد ان کی حکومت ختم ہو گئی اور مسلم لیگ(ن) نے شاہد خاقان عباسی کو نیا قائد ایوان منتخب کر لیا جو تقریباً گیارہ ماہ تک وزیراعظم رہے یہ تمام عرصہ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی تاہم نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے بھی ہٹا دیا گیا اور ان کے جاری کردہ ٹکٹ بھی غیر موثر قرار دیئے گئے شاہد خاقان عباسی سمیت پوری جماعت کو یہ شکایت رہی کہ انہیں انتخابات میں ہرانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ نوازشریف کی خالی کی ہوئی نشست پر ضمنی انتخابات کے موقع پر بھی مسلم لیگ(ن) شکایت کرتی رہی کہ اس کے متحرک کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں اس وقت بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی لیکن برسرِاقتدار جماعت کی بے بسی دیدنی تھی۔ انتخاب والے دن بھی بہت سی ایسی شکایات سامنے آئیں کہ ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا اور انتخابی پراسیس کو سست کیا گیا اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) یہ نشست جیت گئی۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر عام انتخابات کی انتخابی مہم سے دو ہفتے پہلے نوازشریف جیل میں نہ ہوتے اور آزادی سے انتخابی مہم چلا رہے ہوتے تو وہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتے تھے۔ ان کی گرفتاری اور پھر جیل یاترا کی وجہ سے انتخاب نوازشریف اور مریم نواز کے بغیر لڑے گئے جس کا مسلم لیگ (ن) کو نقصان بھی پہنچا۔
جب سے نوازشریف کی وزارتِ عظمیٰ ختم ہوئی ہے اس کے بعدیہ پہلا موقع ہے کہ مسلسل ہزیمتوں کے بعد نوازشریف کو اس فیصلے کی شکل میں ایک ریلیف ملا ہے۔جس پر مسلم لیگی حلقوں میں بجا طور پر اظہار مسرت کیا جا رہا ہے اگر چہ کلثوم نواز کی موت کا حادثہ جانکاہ ابھی تازہ ہے جو مسرت کے کھل کر اظہار سے روکتا ہے ابھی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ ہوا ہے باقی مقدمے کی سماعت جاری رہے گی اور اس کا فیصلہ جو بھی ہو زیر سماعت ریفرنسوں کو بھی متاثر کرے گا کیونکہ ان کی سماعت بھی جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں ہو رہی ہے۔ اگر ایون فیلڈ ریفرنس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سوال اٹھ گئے تو باقی ریفرنس بھی اس فیصلے کی اثر پذیری سے محفوظ نہیں رہیں گے۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے بعد نوازشریف فیملی کی آزمائشوں کا سلسلہ خاتمے کی طرف بڑھ جائے گا اور ان کی سیاست کو مثبت طور پر متاثر کرے گا ۔

مزید :

رائے -اداریہ -