کثرت کی خواہش

کثرت کی خواہش
کثرت کی خواہش

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار لندن میں ہیں۔ وہ کلثوم نوازشریف کی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے منظر عام پر آئے۔ اپنا زیادہ وقت وہ دنیا کی نظروں سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں لندن کی ایک سڑک پر ان کے خلاف آوازیں لگائی جا رہی تھیں۔ ان کا پاکستانی پاسپورٹ منسوخ ہو چکا ہے۔عدالت انہیں اشتہاری مفرور قرار دے چکی ہے اور انہیں وطن واپس لانے کے لئے متعدد اقدامات پر غور کیا جا رہا ہے۔ برطانیہ نے فی الحال انہیں ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ برطانوی قانون میں ایسی گنجائش موجود ہے کہ اسحق ڈار کو پاکستان کے سپرد کیا جا سکتا ہے۔ ان کی برطانیہ اور دبئی کی جائیدادوں کو تلاش کیا جا رہا ہے۔ ایک ایسا شخص جو کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے مالیاتی امور کے سیاہ و سفید کا مالک تھا اب اس پر زمین تیزی سے تنگ کی جا رہی ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔


ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے ڈرائیونگ سیکھی تو انہیں گاڑی کو اڑانے کا شوق تھا۔ گاڑی کی سوئی ڈیڑھ سو کلومیٹر سے آگے جاتی تھی تو انہیں اطمینان ہوتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک روز وہ شیخوپورہ سے گوجرانوالہ جا رہے تھے اورگاڑی کو طیارہ بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اچانک انہیں خیال آیا کہ راستے میں ایک ایسا ہوٹل ہے جس کی دال پورے پنجاب میں معروف ہے۔ انہوں نے اس ہوٹل پر گاڑی روکی۔ دال کا آرڈر دیا اور اخبار اٹھا کر خبروں پر نظر ڈالنے لگے۔ کچھ دیر بعد ایک گاڑی رکی۔ اس میں سے ایک بزرگ باہر نکلے۔ ان کے ساتھ ایک عمررسیدہ خاتون بھی تھیں۔

خاتون عورتوں کے حصے کی طرف چلی گئیں اور بزرگ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میرے پاس آ گئے۔ انہوں نے بیٹھنے کی اجازت لی۔جگ میں سے پانی نکال کر گلاس میں ڈالا اور چند گھونٹ لینے کے بعد مجھ سے مخاطب ہوئے ’’بیٹا آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ آپ محسوس تو نہیں کریں گے۔‘‘ مجھے ان کی اس بات پر قدرے حیرت ہوئی تاہم میں نے مودب ہوتے ہوئے کہا ’’ضرور کیجئے۔‘‘ بزرگ نے چند لمحے مجھے دیکھا اور پھر بولے ’’بیٹا جب آپ نے ہماری گاڑی کو کراس کیا تو میری بیوی نے کہا کہ یہ بچہ کسی مصیبت میں ہے۔ کیونکہ تم بہت افراتفری سے ڈرائیونگ کر رہے تھے۔ میں اور میری بیوی پورا راستہ تمہاری سلامتی کے لئے دعائیں مانگتے رہے ہیں۔ بیٹے اگر دال ہی کھانی تھی تو گاڑی کو اتنی تیزی سے دوڑانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘


جناب اسحق ڈار زندگی کی گاڑی کو غیر معمولی رفتار سے اڑاتے رہے ہیں۔ اب وہ غیر معمولی برے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے بہت سے حامی اسے سیاسی انتقام کا نام دیں گے۔ مگر اس کے باوجود ان بے پناہ اثاثوں کی وضاحت خاصی مشکل نظر آتی ہے جو جناب اسحق ڈار کی ملکیت قرار دیئے جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ہمیں اکثر اپنے مرحوم استاد پروفیسر منور مرزا یاد آتے ہیں جو کہا کرتے تھے کہ پاکستان کا مال یتیم کے مال کی طرح ہے۔ اسے لوٹنا بہت آسان ہے مگر اسے ہضم کرنا بہت مشکل ہے۔ جناب اسحق ڈار عمر کے اس حصے میں ہیں جس میں دال ہضم کرنا بھیْ خاصا مشکل ہوتا ہے تو پھر مال و دولت کے لئے آخری حد تک جانے کی کیا ضرورت ہے؟ برسوں پہلے یہودی سکالر لیوپولڈ کے سامنے بھی یہ سوال ایک دوسری صورت میں آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ برلن کی زیرزمین ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ ان کے سامنے آ کر ایک نوجوان جوڑابیٹھ گیا۔ لباس اور زیورات سے اس جوڑے کی غیرمعمولی امارت کا اظہار ہو رہا تھا۔مگر لاکھوں ڈالر کے زیورات کے ساتھ یہ جوڑا انتہائی مضطرب تھا۔ ان کے انگ انگ سے پریشانی ٹپک رہی تھی۔ لیوپولڈ کو اپنے وہ بزرگ یاد آ رہے تھے جنہوں نے اسے بتایا تھا کہ دنیا میں دولت سب سے اہم ہے۔

اگر آپ کے پاس دولت ہے تو آپ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ دولت میں آپ کی ہر پریشانی کے خاتمے کی طاقت ہے۔ مگر لیوپولڈ حیران تھے کہ یہ امیر نوجوان جوڑا اتنا پریشان کیوں ہے؟ آخر ان کی دولت ان کی پریشانیوں کا علاج کرنے میں ناکام کیوں ہے۔ انہوں نے نوجوان جوڑے سے تو کوئی سوال نہ کیا مگر خود پریشانی کے عالم میں گھر آ گئے۔ لیوپولڈ کے پاس بے شمار کتب تھیں جو انہوں نے پوری دنیا سے ذوق وشوق کے ساتھ اکٹھی کی تھیں۔ لائبریری میں ٹہلتے ہوئے بھی وہ اس سوال کا جواب تلاش کر رہے تھے کہ آخر اس جوڑے کی پریشانی کی وجہ کیا تھی؟ ٹہلتے ٹہلتے وہ کتابوں کی ایک الماری کے پاس رکے۔

ایک کتاب نکالی اور بے خیالی میں اس کی ورق گردانی کرنے لگے۔ ایک صفحہ پر ان کی نظریں جم کر رہ گئیں۔ انہیں اپنی زندگی کے سب سے پریشان کن سوال کا جواب مل گیا تھا۔ وہ کتاب قرآن مجید تھی اور انہوں نے سورۃ التکاثر کھول رکھی تھی۔ قرآن بتا رہا تھا کہ ’’تمہیں کثرت کی خواہش نے غفلت میں رکھا حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔‘‘ لیوپولڈ حیران تھے کہ عرب کے صحرا میں جنم لینے والے پیغمبراسلام محمدؐ پر چودہ سو سال پہلے نازل ہونے والی کتاب انہیں زندگی کی ابدی سچائی سے آگاہ کر رہی تھی۔ لیوپولڈ مسلمان ہو گئے۔ علامہ اسد کے نام سے انہوں نے اسلام کی بے پناہ خدمت کی۔ اسلام پر ان کی کتب نے عالمی شہرت حاصل کی۔ کلام مجید نے علامہ اسد کو زندگی کی اس دائمی سچائی کے متعلق آگاہ کر دیا تھا کہ انسان کثرت کی خواہش میں ایسی غفلت میں رہتا ہے کہ قبر تک پہنچ جاتا ہے۔


احدچیمہ اور فواد حسن فواد غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ان کے مخالفین بھی ان پر نالائق ہونے کا الزام نہیں لگا سکتے۔ تاہم اب وہ نیب کے پاس ہیں اور اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ان دونوں کی کام کرنے کی رفتار بھی ان کے رفقائے کار کو حیران کر دیتی تھی۔ انہوں نے اپنی ذہانت سے زندگی کے متعلق خاصی پلاننگ کی ہو گی مگر اس میں نیب کی دال نہیں ہو گی۔ بلکہ اس طرح جیسے ہر انسان اپنی پلاننگ میں موت کے امکان کو شامل نہیں کرتاہے۔


وزیراعظم عمران خان نے سرکاری ملازمین سے بہت سی توقعات وابستہ کی ہیں۔ وہ۔۔۔19ء کے عشرے کے سرکاری ملازمین کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ انگریز بیوروکریسی کو اپنی حکومت کا سٹیل سٹرکچر قرار دیتا تھا۔ اس کے بل بوتے پر اس نے برصغیر پر صدیوں حکومت کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریز کو برصغیر سے رخصت ہونا پڑا۔ بہت سے انگریز مورخین کا خیال ہے کہ اس وقت برصغیر میں نہ تو قابل بیوروکریٹ تھے اور نہ ہی لارڈ کلائیو جیسے شاطر اور نڈر فوجی کمانڈر تھے جنہوں نے چند سو سپاہیوں کی مدد سے نواب سراج الدولہ کی بہت بڑی فوج کو شکست دی تھی اور برصغیر میں انگریزی حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔ انگریزی حکومت نے بھی بیوروکریسی کے لئے غیرمعمولی عزت اور مراعات کا اہتمام کیا تھا۔ منٹگمری، لائل پور، جیکب آباد اور فورٹ منرو جیسے بے شمار شہر ان سرکاری افسروں کے نام پر رکھے تھے جنہوں نے سلطنت برطانیہ کے لئے غیرمعمولی خدمات انجام دی تھیں۔


بہت سے سرکاری ملازمین ملازم کو ملزم کی جمع قرار دیتے ہیں جبکہ اکثر غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک سرکاری افسران کے متعلق شکایت کی جاتی ہے کہ ان کی دیانت شک و شبہ سے بالاتر نہیں ہوتی۔ پاکستان میں نئی حکومت بڑی تبدیلی کا دعویٰ کر رہی ہے۔جہاں سرکاری افسروں کو یہ سوچنا چاہیے کہ انہوں نے نیب یا جیل کی دال نہیں کھانی ہے وہاں حکومت پر بھی لازم ہے کہ وہ اہل اور دیانت دار سرکاری ملازمین کی خدمات کے اعتراف کے لئے خصوصی اہتمام کرے۔ ہمارے ایک سابق بیوروکریٹ دوست کے مطابق اگر آپ بیوروکریٹ کو عزت حاصل کرنے کے نشے میں مبتلا نہیں کریں گے تو وہ کرپشن کی دلدل میں ضرور گر جائے گا اور جس کا نتیجہ نیب یا جیل کی دال کھانے کی صورت میں برآمد ہو گا۔مگر اس قومی ذہانت کا بھی غیر معمولی نقصان ہو گا۔

مزید :

رائے -کالم -