ڈیل نہ ڈھیل ، 70دن اسیری کے بعد دلیل پر رہائی ملی

ڈیل نہ ڈھیل ، 70دن اسیری کے بعد دلیل پر رہائی ملی
ڈیل نہ ڈھیل ، 70دن اسیری کے بعد دلیل پر رہائی ملی

  

تجزیہ سہیل چوہدری

ڈیل نہ ڈھیل بلکہ دلیل کی بدولت سابق وزیراعظم محمدنوازشریف انکی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدر کو تقریباً70دن کی اسیری کے بعد رہائی نصیب ہوئی ،تیسری دنیا بالخصوص پاکستان میں مسلسل بنتے بگڑتے سیاسی عمل میں جیل سیاستدانوں کا زیور تصور کیا جاتا ہے،تاہم ن لیگ کے قائدنوازشریف کی اسیری اگرچہ زیادہ طویل نہ تھی لیکن یہ نہ صرف ان کی ذاتی زندگی بلکہ ملک کے سیاسی نقشہ پر انمٹ اور تلخ نشانات چھوڑ گئی،نوازشریف ،مریم نواز نے بستر مرگ پر بیگم کلثوم نوازکو چھوڑ کر آخری وقت میں انکی تیمارداری سے محروم ہوکر اسیری کے چیلنج کو ازخود گلے سے لگایا ۔دوران اسیری بیگم کلثوم نواز کے آخری دیدار سے محروم ہونیوالے شوہر نوازشریف اوربیٹی مریم نواز کو تاحیات سیاسی انتقام کی تلخ یادیں ستائیں گی۔جہاں شریف خاندان کو دوران اسیری بیگم کلثوم نوازکی وفات جیسے المیہ کاسامنا کرنا پڑا تو وہیں پاکستان مسلم لیگ ن کو عام انتخابات میں ناقابل تلافی نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑا،جس کی بنا پر عام انتخابات کے نتیجہ میں ایک حکومت کے وجود میں آنے کے باوجود ملک میں سیاسی کشیدگی کی فضاء برقرار ہے ۔نوازشریف ،مریم نوازشریف کی اسیری میں ن لیگ کی عام انتخابات میں شکست اورپھر بیگم کلثوم نواز کی رحلت کے واقعہ نے بالعموم ملک بھرمیں اور بالخصوص وسطی پنجاب میں ن لیگ کے حامیوں اور کارکنوں کو قدرے مشتعل کررکھا ہے۔انہی جذبات کی بنا پر ن لیگ ایک سرکش گھوڑے کی مانند ہورہی ہے جس پر شہبازشریف اپنے مصالحتی رویہ کی بدولت قابو پانے میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیے۔جس کی بنا پر اس سرکش گھوڑے کی باگ دوڑ اڈیالہ جیل سے ہی سنبھالی جارہی تھی،تاہم نواز شریف اب جیل سے باہر آگئے ہیں اور اگرانہوں نے آکر وکٹ کاایک سرا سنبھال لیا تو شہبازشریف اپوزیشن لیڈرکی حیثیت سے شاید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں ابھی تک تو انہوں نے صرف وکٹ کو سنبھالنے پر ہی اکتفا کیا ہوا ہے،نوازشریف,مریم نوازاور کیپٹن صفدرکی رہائی سے جہاں شریف خاندان کو قدرے ریلیف ملا ہے وہاں اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ شاید ن لیگ کے غصہ میں قدرے کمی واقع ہوسکے اور ملک کا مجموعی سیاسی درجہ حرارت معمول کے مطابق آسکے کیونکہ عام طور پر ملک میں عام انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی حکومت کے بعد ملک میں محاذ آرائی کی فضا میں کمی واقع ہوجاتی ہے لیکن اس بارایسا دیکھنے میں نہیں آرہا جس کی بدولت حکومت کو ابتدائے حکمرانی کے ہنی مون پیریڈ میں ہی اپوزیشن کی طرف سے غیرمعمولی ٹف ٹائم مل رہا ہے ۔ایک بھرپور حکومت کے قیام کے بعد بھی پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال نارمل ہوتی دکھائی نہیں دے رہی تھی اب ہوسکتا ہے کہ شریف خاندان کو ملنے والے ریلیف کے بعد حکومت کو کچھ سکھ کاسانس مل پائے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ روز نوازشریف،مریم نوازاور کیپٹن صفدر کی سزامعطل کرکے انہیں اڈیالہ جیل سے ضمانت پر رہا کردیا یہ خبرملک بھر کے الیکٹرانک میڈیا میں شہہ سرخیوں کیساتھ بریکنگ نیوز بنی،عالمی میڈیا نے بھی اس خبر کو غیرمعمولی اہمیت دی۔ن لیگ کے قائدین،ورکروں اور حامیوں میں بھی غیرمعمولی ولولہ دیکھنے میں آیا ،جڑواں شہروں کی بعض مارکیٹوں میں مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں،شہبازشریف نے خود اڈیالہ جیل جاکر اپنے بھائی اور قائد کا خیرمقدم کیا ۔تاہم نوازشریف نے غالبا اپنی صحت کے پیش نظر اورمرحومہ بیگم کلثوم نواز کے سوگ کی بدولت جی ٹی روڈ جیسے کسی سیاسی ایڈونچر سے احتراز کرنا ہی مناسب سمجھا ۔اگرچہ ن لیگ کے پرجوش کارکنوں اور رہنماؤں کی طرف سے استقبالی جلوس اور ریلیاں منعقد کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا لیکن ن لیگ کی قیادت نے جوش کی بجائے ہوش کا اسلوب اپنانے کو ترجیح دی جبکہ 9محرم کاتقدس اور سکیورٹی کی حساسیت بھی ان کے زیرنظررہی ہوگی۔اسلام آبادہائیکورٹ سے گزشتہ روز شریف خاندان کو ریلیف تو دیاگیا لیکن گزشتہ چند روزسے جس طرح سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب پراسیکیوٹر اور شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث کے مابین دلائل کاتبادلہ اور معزز جج صاحبان کے ریمارکس سے یہ تاثرمل رہا تھا کہ نیب عدالت سے دی جانیوالی سزا میں قانونی سقم موجود ہیں ۔ایک موقع پر نیب پراسیکیوٹر بالکل بے بس نظرآرہے تھے ،نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے روایتی تاخیری حربوں کا استعمال بھی نظرآیا لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی،دلچسپ امر یہ ہے کہ اسلام آباد ئیکورٹ کا نوازشریف کی سزاکی معطلی کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب وزیراعظم عمران خان سرکاری دورہ سعودی عرب پرشاہ سلمان کے ظہرانے میں شریک تھے ۔اگرچہ کئی دنوں سے یہ لگ رہا تھا کہ نوازشریف کو ریلیف ملنے کا امکان ہے لیکن پھر بھی یہ چونکا دینے والی خبر تھی ۔دلچسپ امریہ ہے کہ جیسے جیسے اسلام آباد ہائیکورٹ کی سماعت سے مسلسل ایسے اشارے مل رہے تھے کہ شریف خاندان کو ریلیف ملنے کے امکانات ہیں ویسے ویسے دارالحکومت میں پاکستان تحریک انصاف کے حلقوں سے غیررسمی اندازمیں ن لیگ کی کسی ممکنہ ڈیل پر قیاس آرائیاں جاری تھیں جس دن پاکستان میں سعودی سفیر شاہ سلمان کی جانب سے نوازشریف سے تعزیت کرنے کیلئے جاتی امراء پہنچے تو اس وقت سے ڈیل کی قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی تھیں لیکن یہ قیاس آرائیاں کسی ٹھوس اطلاع یا خبر میں تبدیل نہ ہوسکیں،ڈیل یا ڈھیل کی ایسی قیاس آرائیاں تاحال قیاس آرائیاں ہی ثابت ہوئیں کیونکہ درحقیقت اسلام آباد ہائیکورٹ میں دلیل نے ہی ڈیل یا ڈھیل کی قیاس آرائیوں کے غبارے سے ہوانکال دی ۔نوازشریف کی رہائی سے ن لیگ کو بہت سیاسی تقویت ملی ہے نوازشریف کیلئے اگرچہ ابھی عشق کے امتحان اوربھی ہیں کے مصداق آگے بہت سے مشکل چیلنجز ہیں ،کیونکہ نیب نے بھی ان کی رہائی کے احکامات کے فوری ردعمل’’غیرضروری عجلت‘‘سے ایک اجلاس منعقد کیا کہ نیب اپیل میں سپریم کورٹ جائے گی حالانکہ نیب کا سپریم کورٹ میں اپیل میں جانا ادارہ جاتی تصور کے لحاظ سے ایک معمول کا معاملہ ہے اس کیلئے فوری طور پر نیب کے بورڈ کا اجلاس طلب کرنا غیرمعمولی بات تھی ،علاوہ ازیں نوازشریف کی اس کیس میں اپیل زیرالتوا ء ہے جبکہ دوسرے ریفرنسز نیب عدالتوں میں چل رہے ہیں ،ان تمام طویل اورپیچیدہ قانونی موشگافیوں کی بدولت شریف خاندان کو طویل عرصہ عدالتوں کے چکر تو لگانے ہوں گے لیکن اس حالیہ ریلیف سے شریف خاندان کا سیاسی بیانیہ مزید مضبوط ہوگا وزیراعظم عمران خان کی حکومت کیا ملک میں جاری اس محاذ آرائی اورکشیدگی کے سیاسی ماحول میں اپنے معاشی اور اصلاحاتی ایجنڈے کی تکمیل کے چیلنجز سے عہدہ براں ہو پائے گی؟ اس حکومت کیلئے یہی سب سے بڑا سیاسی ٹریپ ہے ۔معاشی قرضوں کے ٹریب سے نکلنے کیلئے سیاسی ٹریپ سے نکلنا ناگزیر ہے دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے اس پیچیدہ داخلی سیاسی صورتحال کے تناظرمیں سعودی عرب کاایک انتہائی اہم دورہ کیا ہے وہ منگل کی شام سعودی عرب پہنچے اور سعودی عرب کے وقت کے مطابق رات10بجے ان کی سعودی عرب کے طاقتور ترین کراؤن پرنس محمد بن سلمان سے ملاقات ہوئی یہی وہ ملاقات تھی جس سے پاکستان اور سعودی عرب کے آئندہ کے تعلقات کی وسعت اور گہرائیوں کاتعین کرنا تھاشنید ہے سعودی عرب پاکستان سے یمن کے ایشو پر مزید کھلے دل سے تعاون کا خواہاں ہے اس کے بدلے پاکستان کی مالی ضروریات کیلئے ’’بلینک چیک ‘‘دے سکتا ہے ۔اب دیکھنا ہے کہ وزیراعظم کیا دے کے اورکیا لیکرآتے ہیں۔

تجزیہ،سہیل

مزید :

تجزیہ -