کیا اسی کا نام تبدیلی ہے
بالآخر وزیرِ خزانہ اسد عمر نے نو ماہ کے لیئے نیا بجٹ پیش کر دیا جس میں مزید ٹیکسز لگائے گئے ہیں جبکہ ایک روز پیشتر گیس کی قیمتوں میں بھی ایک سو اکتالیس فیصد تک اضافہ کیا جا چکا ہے ۔ بتایا یہی جارہا ہے کہ اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔کوئی ہمیں عام آدمی اور خاص آدمی کی قانونی تعریف بیان کر دے تو پرکھنے میں آسانی رہے گی کہ کب کس نے کتنا متاثر ہونا ہے۔
سیمنٹ سیکٹر۔ پاور سیکٹر اور سی این جی کے لئیے گیس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا گیا ہے بس عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔وزیراعظم کی گاڑیاں اور بھینسیں بیچ کر قوم کو سادگی کا درس دے رہے ہیں اور عوام کو ٹیکس تلے دبانے کے لئیے ہر وہ حربہ استعمال کیا جارہا ہے جو سابقہ حکومتیں استعمال کرتی آئی ہیں۔کہیں ڈیم کے لئیے اورسیز پاکستانیوں سے عطیات طلب کئیے جارہے ہیں نہ ہی دہری شہریت سے متعلق انکے مسائل حل کئے جارہے ہیں دوسری طرف وزیراعظم صاحب نے پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم بنگالی اور افغانی باشندوں کو شہریت دینے کا شوشہ چھوڑ دیا ہے تاہم زیادہ امید یہی ہی کہ بہت جلد اس پر روایتی یو ٹرن سامنے آجائے گا۔ابھی تک بہت سارے معاملات پر واضح پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے ۔ایک پاکستان سب کے لئیے کیونکر تشکیل دیا جا سکتا ہے یہ سلوگن بھی کاغذی نعرہ بن کر رہ گیا ہے۔
بلین ٹری منصوبہ کیسے مکمل ہوگا اسکی کوئی فزیبلٹی سامنے نہیں آئی ، یہی حال پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا ہوگا۔خان صاحب کے پاس بھی مشیروں کی فوج در فوج ہے مگر وہ بھی سارے تقریر کے آدمی ہیں ۔ تحریر والا ریسرچ والا کوئی نمایاں چہرہ نظر نہیں آرہا ہے جو خان صاحب کو زمینی حقائق کا ادراک کروا سکے۔اگر یہی صورتحال برقرار رہتی ہے اور معاملہ گفتار کے غازی بننے تک محدود رہتا ہے تو ہنی مون پیریڈ بہت مختصر لگتا ہے۔حکومت میں ہونے کے باوجود سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی کردار دندناتے پھر رہے ہیں ۔یوں تو خان صاحب کے، سیاسی کزن ڈاکٹر طاہرالقادری نے حکومت کے ایجنڈے کی حمایت کا اعلان کیا ہے مگر مظلوموں کو عدالت سے انصاف ملنے کے بجائے تھپڑ پڑتے رہے تو انکے صبر کا پیمانہ کسی بھی وقت لبریز ہو سکتا ہے جسکا نتائج حکومت لے لئیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
باقی باتوں کی کسر وزیرِ اطلاعات اور وزیر ریلوے کے دبنگ بیانات پورے کر دیتے ہیں اور کسی ایک بات کی وضاحت کے لئیے پریس کانفرنس کرنی پڑ جاتی ہے۔
ابتدائی دنوں میں بھرپور عوامی مینڈیٹ کے باوجود کمزوریاں نمایاں نظر آرہی ہیں وہ تو ابھی تک منتشر۔ متحدہ اپوزیشن کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا ہے ورنہ ابتدائی دنوں میں ہی سیاسی ماحول گرم ہوجانا تھا۔ اگر تبدیلی سرکار کی یہی کارگزاری چلتی رہی تو دسمبر بھی ستمگر ہو سکتا ہے کیونکہ سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جائے گا جسکی شدت کی لپیٹ میں تبدیلی سرکار مزید متاثر ہو سکتی ہے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔