اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 40
میرے میزبان کا چہرہ بالکل سیاہ رنگت اختیار کر گیا۔ پھر اس نے ایک گہرا سانس اندر کو کھینچا اور جب سانس باہر کو چھوڑا تو اس کی جگہ وہی سات فٹ کا لمبا کالا سیاہ سانپ کنڈلی مارے بیٹھا تھا جس کو میں نے گذشتہ رات اس کی کوٹھری میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ اس کے سر پر سفید کلغی ستاروں کی طرح چمک رہی تھی اور سرخ آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ اگرچہ مجھے موت کا خوف نہیں تھا اور کسی شے سے نہیں ڈرتا تھا لیکن اپنے سامنے ایک جیتے جاگتے انسان کو کالے سیاہ سانپ میں تبدیل ہوتے دیکھ کر میرے جسم پر دہشت اور خوف کی ایک سرد لہر دوڑ گئی اور میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ مجھے خواب میں بھی کبھی خیال نہیں آسکتا تھا کہ اپنے جس میزبان قنطورکو میں ایک سانولا عام قسم کا نوجوان سمجھ رہا تھا وہ اصل میں سانپ ہے۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 39 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
علم الحیوانات اور خاص طور پر حشرات الارض کے خفیہ علوم کے مطالعے سے مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ اگرچہ ایک خاص قسم کا اعلیٰ نسل کا سیاہ سناپ اپنی زندگی کے سو سال پورے کرلے او راس دوران وہ نہ تو زخمی ہو اور نہ کبھی بیماری میں مبتلا ہو تو اس میں اتنی طاقت اور شکتی پید اہوجاتی ہے کہ وہ انسانوں کا روپ بدل کر انسان کی شکل اختیار کر کے ایک عام آدمی کی طرح جب تک چاہے زندگی بسر کر سکتا ہے، یہ باتیں یہ رموز میں نے قدیم مصری کی دقیق کتابوں میں پڑھے تھے لیکن اس کی زندہ مثال میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ میرا میزبان حقیقت میں ایک سانپ تھا جو زمین پر اپنی عمر کے سوبرس پورے کرنے کے بعد اب انسان کے روپ میں چل رہا تھا۔ اب جو سوال مجھے پریشان کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ انسانی سانپ مجھے وہاں میرا مطلب ہے کہ میری لاش کو وہاں کیوں لایا ہے؟
بہت جلد یہ نکتہ بھی حل ہوگیا۔ انسانی سانپ قنطور اپنا چوڑا پھن اٹھائے سر پر چمکتی کلغی سجائے آہستہ آہستہ جھوم رہا تھا۔ اس کی دوشاخہ زبان بار بار اس کے منہ سے نکل کر لہرا رہی تھی۔ پہلے میرے ’’ لاش‘‘ بھی گرم تھی مگر قنطور کو سانپ کی شکل بدلتے دیکھ کر اب میرا سارا جسم خوف کے مارے ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ قنطور سانپ نے اپنے پھن جھلاتے ہوئے سامنے والی دیوار پر اپنی مقناطیسی نگاہیں مرتکز کر دیں۔ اس نے ایک پھنکار ماری اور پھر سامنے والی دیوار پر روشنی کا ایک ہالہ نمودار ہوگیا۔ میں اس روشنی کے ہالے کو دیکھنے لگا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس ہالے میں ایک بہت بڑے سفید سانپ کی شکل نمودار ہوئی یہ کوئی برگزیدہ سانپ تھا۔ اس کی تھوڑی پر سفید بال جھالر کی طرح لٹک رہے تھے۔ گول گول سرخ آنکھیں قندھاری انار کی طرح دہک رہی تھیں جوں ہی اس بزرگ سانپ کی شبیہہ نمودار ہوئی قنطور سانپ کا پھن اس کی تعظیم کے لئے اپنے آپ جھک گیا پھر اس نے اپنا پھن اوپر اٹھایا اور مجھے اپنے میزبان قنطور کی آواز سنائی دی۔ وہ رک رک کر کہہ رہا تھا۔
’’ اے ناگوں کے دیوتا رشی ناگ! میں آپ کی آمد پر تہہ دل سے آپ کی تعظیم بجا لاتا ہوں۔ میں نے آپ کو اس لئے زحمت دی ہے کہ آپ کو بخوبی علم ہے کہ سو برس تک ایک اعلیٰ خاندانی سانپ کی شکل میں روئے زمین پر زندگی بسر کرنے کے بعد آپ نے میرے اندر اتنی طاقت ، اتنی شکتی پیدا کردی کہ میں سانپ سے پلٹ کر انسان کے روپ میں آگیا ہوں اور چند ایک شرائط پورے کرتے ہوئے زندہ رہ سکتا ہوں لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ابھی میں اپنی نئی انسانی زندگی کی ایک بہت بڑی کرامت سے محروم ہوں۔ یعنی میں انسان سے سانپ اور سانپ سے دوبارہ انسان کی شکل تو اختیار کر سکتا ہوں اس کے علاوہ کوئی تیسری شکل تبدیل کرنے پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے لیکن کتابوں میں لکھا ہے اور ہم نے اپنے بوڑھے دادا سانپوں سے سن رکھا ہے کہ اگر کوئی سانپ سو برس گزارنے کے بعد انسان بن جائے اور وہ اپنے اندر تیسری کرامت کی شکتی بھی پیدا کرنی چاہے تو اسے ایک ایسی رات کو جب کہ آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہوں اور بارش نہ ہو رہی ہو وہ کسی ایسے انسان کی لاش پیدا کرے جس کو گردن میں پھندہ ڈال کر پھانسی دی گئی اور لاش ابھی گرم ہو اور یہ لاش کسی پہاڑی سرنگ کی تاریکی میں لے جا کر منتر پڑھ کر رشی ناگ کے سامنے پیش کرے تو پھر اسے تیسرے کرامت بھی مل سکتی ہے اور وہ انسان اور سانپ کے علاوہ جو شکل چاہے اختیار کر سکتا ہے مگر صرف ایک شرط پر کسی جانور ، حیوان یا انسان کا ہم شکل یا مثنیٰ نہیں بن سکتا۔۔۔ اے عظیم رشی ناگ! یہ میری خوش قسمتی تھی اور آسمانوں کے سارے دیوتا مجھ پر مہربان تھے کہ میرے ہاں آدھی رات کو ایک انسان مہمان بن کر اترا۔ پھر صبح صبح شاہی فوج کے سپاہیوں نے اسے میری آنکھوں کے سامنے درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دی۔ دیوتاؤں کی مہربانی تھی کہ آسمان پر بادل بھی چھائے ہوئے تھے مگر بارش نہیں ہو رہی تھی۔ ہر بات میرے حق میں جا رہی تھی۔ میں ایک عرصے سے کسی ایسی لاش کی تلاش میں تھا۔ اگر لاش کا سراغ ملتا تھا تو آسمان پر بادل نہیں ہوتے تھے۔ اگر بادل چھائے ہوتے تھے تو بارش بھی ساتھ ہی ہو رہی ہوتی تھی لیکن ایسا حسین اتفاق آچ ہوا کہ ایک انسان کو میری آنکھوں کے سامنے پھانسی دی گئی اور آسمان پر بادل بھی گرج رہے تھے اور بارش کی ایک بوند بھی نہیں گر رہی تھی۔ اب میں اس تازہ پھانسی پائی ہوئی لاش کو تمہارے حضور میں لے آیا ہوں۔ اب تم مجھے تیسری کرامت کی طاقت عطا کرو۔ ‘‘
میں دم بخود سرد لاش بن کر زمین پر لیتا قنطور سانپ کی تقریر سن رہا تھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ بزرگ سانپ رشی ناگ کے ہونٹ آہستہ سے کھلے اور ایک تیز سنسناتی ہوئی آواز سنائی دی جو کہہ رہی تھی۔
’’ قنطور ناگ ! تم جس لاش کو مردہ سمجھ رہے ہو، اسے غور سے دیکھو، وہ مردہ نہیں زندہ ہے۔‘‘
میں تو سر سے پاؤں تک لرز اٹھا اور میں نے جلدی سے آنکھیں بند کر لیں اور پھر نیم وا نظروں سے قنطور سانپ کی طرف دیکھا۔ وہ اپنا پھن میرے طرف گھمائے مجھے گہری مقناطیسی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا میرے اندر خود اتنی طاقت تھی کہ مجھ پر اس کی مقناطیسی نظروں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ رشی ناگ کا چہرہ غائب ہوگیا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے قنطور نے ایک بار پھر پھنکار کی آواز نکالی اور وہ سانپ سے دوبارہ انسانی شکل میں واپس آگیا اور اسی طرح آلتی پالتی مارے سینے پر ہاتھ باندھے بیٹھا تھا۔ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر وہ لپک کر میری طرف آیا۔ میرے چہرے پر جھکا۔ میں نے اب اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں اور دل کی دھڑکن کو اپنے ارادے سے پھر سے آہستہ جاری کر دیا تھا تاکہ وہ مجھے زندہ سمجھے۔ کیونکہ اب مجھے لاش بنے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔میں دل ہی دل میں رشی ناگ کی کشفی طاقت پر حیران تھا کہ اس نے میری لاش پر نگاہ ڈالتے ہی اپنے کشف کے ذریعے معلوم کر لیا تھا کہ میں رمدہ نہیں بلکہ زندہ ہوں۔
قنطور نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا۔ میرا دل بہت آہستہ آہستہ دھڑک رہا تھا۔ اب میرا جسم گرم ہوگیا تھا۔ میر آنکھیں بند تھیں لیکن مجھے یقین ہے کہ قنطور نے مجھے زندہ حالت میں پاکر اپنا سر پیٹ لیا ہوگا۔ اس کی شدید ناامیدی کی کیفیت کا صحیح اندازہ لگا سکتا تھا۔ اس کی زندگی میں اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا تھا کہ جب پھانسی پاجانے والی لاش بھی موجود تھی۔ آسمان بھی ابر آلودہ لیکن افسوس کہ لاش زندہ ہوگئی۔ میں نے اپنے منہ سے کچھ اس قسم کی کراہ کی آواز نکالی جیسے طویل بے ہوشی کے بعد ہوش میں آرہا ہوں۔ میں نے آہستہ سے آنکھیں کھول دیں اور کہا۔
’’ میں کہاں ہوں؟ قنطور ۔ میرے بھائی، کیا میں زندہ ہوں؟ اف میرے خدا! میں سچ مچ زندہ ہوں ؟ تم نے مجھے بچا لیا۔ میرے دوست قنطور۔ میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھلا سکوں گا۔ شاہی سپاہی تو مجھے پھانسی چڑھا کر چلے گئے تھے لیکن تم نے مجھے بچا لیا۔‘‘
میں اس قسم کی اداکاری کر کے قنطور پر یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ میں اصل میں زندہ تھا۔ مردہ نہیں تھا۔ گلے میں پھندہ پڑے سے بے ہوش ہوگیا تھا اور میں دیکھ رہا تھا۔ قنطور کو میری اس وضاحت پر یقین آگیا تھا۔ کیونکہ اس کے چہرے پر ناامیدی تھی۔ تجسّس اور حیرت نہیں تھی۔ یعنی وہ اس حقیقت پر حیران نہیں ہورہا تھا کہ میں مرنے کے بعد بھی زندہ رہا بلکہ اسے صرف اس بات پر شدید افسوس ہو رہا تھا کہ میں اصل میں مرا نہیں تھا بلکہ زندہ تھا۔ صرف دم گھٹنے کی وجہ سے مجھ پر ایک طویل بے ہوشی طاری ہوگئی تھی۔اب میرے میزبان قنطور نے بھی اداکاری شروع کر دی اور بولا۔
’’ دیوتاؤں کا شکر ہے کہ تمہیں ہوش آیا۔ بستی والے تمہیں مردہ سمجھ کر تمہاری لاش چیل کوؤں کے آگے ڈالنا چاہتے تھے مگر میں تمہیں میدان سے اٹھا کر اس سرنگ میں لے آیا کیونکہ میرا دل کہہ رہا تھا کہ تم مرے نہیں ہو بلکہ بے ہوش ہو اور تمہیں ضرور ہوش آ جائے گا۔ اب تمہیں ہوش میں دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے۔‘‘ میں دل ہی دل میں اپنے میزبان سانپ قنطور کی اس اداکاری پر مسکرا رہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ مجھے سب کچھ معلوم ہو چکا ہے او اس کا راز بھی پر فاش ہوگیا ہے لیکن میں اس پر اپنے دل کی کیفیت ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنی محبوبہ نفتانی کو حاصل کرنے میں میں قنطور سے مدد لوں گا کیونکہ وہ حقیقت میں ایک سانپ تھا اور سانپ اگر کسی انسان کے جسم کا کپڑا یا اس کی کوئی شے سونگھ لیں تو انہیں وہ کیڑا یا چیز جہاں کہیں بھی ہو اس کی بو آجاتی ہے۔ میرے پاس نفتانی کے کان کا ایک بندہ تھا اور اس بندے میں اس کے جسم کی بورچی ہوئی تھی۔ قنطور ایسے سونگھ کر مجھے بتا سکتا تھا کہ نفتانی بابل شہر میں کس مقام پر ہے۔ سوال صرف اتنا رہ جاتا تھا کہ میں یہ سبز نگینے والا بندہ قنطور کو کیا کہہ کر سونگھنے کے لئے دوں کیونکہ وہ تو یہی سمجھتا ہے کہ مجھے اس کے سانپ ہونے کا علم نہیں ہے اور میں اس پر یہ بات ظاہر بھی نہیں کرنا چاہتا تھا کہ مجھے اس کے سانپ ہونے کا علم ہے کیونکہ اس طرح وہ میرے ہاتھوں سے نکل جاتا۔ کیونکہ پرانی کتابوں میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر کسی انسانی سانپ کو یہ پتہ چل جائے کہ اس کا بھید کھل چکا ہے تو وہاں سے ہمیشہ کے لئے غائب ہوجاتا ہے۔ بہرحال اس پر سوچ و بچار کرنے کے لئے ابھی میرے پاس کافی وقت تھا۔ میں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس انسانی سانپ قنطور کے پاس ہی رہنے کی کوشش کروں گا اور اس کی مدد سے نفتانی کا سراغ لگاؤں گا۔
میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھ کر بیٹھ اور اپنے میزبان قنطور کر ہاتھ پکڑ کر اس کا بار بار شکرییہ ادا کیا کہ اس نے میرے جان بچائی اور اس سرنگ کے اندھیرے سے باہر کھلی ہوا اور روشنی میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور اس سے وقت پوچھا۔ قنطور نے مجھے تبایا کہ شام ہو رہی ہوگی۔ میں اس کے ساتھ اپنے پاؤں پر چل کر سرنگ سے باہر آگیا۔ آسمان ابر آلود تھا۔ دن غروب ہو رہا تھا اور ریت کے ٹیلوں کے آس پاس شام کا سرمئی اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ ہم بسی کی طرف چل پڑے۔ قنطور مجھ سے باتیں کرنے لگا۔ اسے حیرانی تھی کہ میں اتنی دیر درخت پر لٹکے رہنے کے بعد بھی زندہ کیسے رہا؟ میں نے پھر اپنی بات کو دہرایا کہ یہ محض اتفاق ہے ورنہ میرے مرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ اب میرا کیا ارادہ ہے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ انسانی سانپ قنطور کو اب میری ضرورت نہیں تھی اور وہ مجھے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ مگر مجھے اس کے پاس کچھ دیر رہنے کی ضرورت تھی تاکہ میں اس کی دد سے نفتانی کا سراغ لگا سکوں۔ میں نے قنطور کی میزبانی اور اس کے اخلاق کی بے حد تعریف کرتے ہوئے اسے پھسلانے کی کوشش کی اور کہا کہ ابھی میں کچھ دیر اس کے پاس چھپا رہنا چاہتا ہوں کیونکہ شاہی فوج کے سپاہی میری جان کے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔ اگر میں ان کے ہاتھ آگیا تو اس بار وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ قنطور نے کہا کہ اس صورت میں مجھے گاؤں سے باہر نہیں جانا ہوگا۔ میں نے جھٹ کہا کہ وہ جس طرح کہے گا میں اسی طرح کروں گا۔ (جاری ہے )