ہمارے دن کب بدلیں گے؟
جب سے کورونا آیا ہے۔ لگتا ہے باقی بیکٹیریا اور وائرس چھٹی پر چلے گئے ہیں۔ ستمگر، ستمبر کا مہینہ چل رہا۔ روالپنڈی، اسلام آباد میں مقیم میرے کلاس فیلو پروفیسر آف میڈیسن سے معلوم ہوا۔ ڈینگی کے روزانہ کی بنیاد پر کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ دو دن پہلے میرے بیٹے کو بھی بخار نے آن لیا۔ زوجہ محترمہ نے اپنی دیسی فلاسفی جھاڑتے کہا۔ رات نہا کر فوری ایئرکنڈیشنڈ کے سامنے ٹھنڈی ہوا میں سو گیا۔ موسم کی تبدیلی کی بنا پر بخار ہو گیا ہے۔ پیراسیٹامول کی گولی لینے پر ٹھیک ہو جائے گا۔ اگلے دن شام کو بخار 105 تک جا پہنچا۔ فزیشن سے مشورہ کیا۔ اس نے اینٹی بائیوٹک، پیراسیٹامول کے ساتھ اچھی خوراک، مکمل آرام کے ساتھ خون کے ٹیسٹ کروانے کا کہا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو سوال داغا۔ اتنے تیز بخار کی وجہ کیا ہے؟ ٹائیفائیڈ، ڈینگی اور وائرل ہو سکتا ہے۔ ابھی اینٹی بائیوٹک دینے سے پہلے ٹائیفائیڈ کا مستند ٹیسٹ بلڈ کلچر کروا لیں۔ کل ڈینگی سمیت باقی خون کے نمونے دے دیجئے گا۔
خاکسار نے فوری نجی لیباریٹری والوں کو فون کیا۔ وہ آکر سیمپل لے گئے۔ خیر سے ہمارے محکمہ صحت کے کرتا دھرتاؤں سے بڑھکیں جتنی مرضی مروا لیں، تقریریں جتنی مرضی کروا لیں، 74 سال میں پنجاب کے کسی بھی ٹیچنگ اسپتال میں شاید ہی بلڈ کلچر کی سہولت دستیاب ہو۔ اگر ہوگی بھی تو اس کا نتیجہ قابل بھروسہ نہ ہو گا۔ ہاں اسپتالوں کی نئی نئی عمارتیں بنا کر اپنی بلے بلے، سرخ ربن کے فیتے کٹوانے میں ہمارا کوئی مقابلہ نہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی بچے کے بخار کی۔ ابھی ایک بچے کے بخار سے پریشان تھا۔ ایک دن کے وقفہ سے چھوٹے 2 بچوں کو بھی بخار ہو گیا۔ خون کے ٹیسٹ سی بی سی میں ڈینگی کی تشخیص ہوئی۔ ایک بچے کے پلیٹ لیٹس کافی حد تک گر گئے تھے۔ خاکسار سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ گھر میں اے سی کے خارج شدہ پانی، غسل خانہ کی بالٹیوں کے پانی سے لیکر صاف پانی کو فوری انڈیلنے، بازار سے لائے گئے مچھر مار سپرے سے بھی بچت نہ ہوئی۔
مجھے رہ رہ کر جناب شہباز شریف کے ڈینگی کے حوالہ سے کئے گئے انقلابی اقدامات یاد آئے۔ 200 روپے کا ٹیسٹ، سیزن میں گھر گھر ڈینگی سپرے اور گھروں میں پانی کھڑا ہونے کے تمام ذرائع کے خاتمے سے ڈینگی کا تدارک ہوا۔
ہوشربا مہنگائی کے اس دور میں لیبارٹریوں کے ٹیسٹ کروانا کتنا مشکل ہے یہ تو ٹیسٹ کے لئے جیب خالی کروانے والا ہی بتا سکتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم؟ سرکاری اسپتالوں کی لیبارٹری رپورٹس پر ڈاکٹر حضرات تحفظات کا اظہار کیوں کرتے ہیں؟ کیا واقعی سرکاری لیبارٹریوں کا معیار اچھا نہیں؟ کیا رپورٹس بدل دی جاتی ہیں؟ یا خون کے نمونے گم کر دئیے جاتے ہیں یا دئیے گئے وقت پر ٹیسٹوں کے نتائج نہیں دئیے جاتے۔
کیا کبھی وزیر صحت یا سیکرٹری صحت نے ٹیچنگ اسپتالوں کے پرنسپل، ایم ایس و پروفیسر صاحبان کے ساتھ مل کر کوئی لائحہ عمل تیار کیا کہ عوام نجی لیبارٹریوں کے بجائے سرکار کے اداروں سے ٹیسٹ کروانا اپنی اولین ترجیح سمجھیں۔ جہاں تک میرا مشاہدہ ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے۔ میڈیکل کالج کے پرنسپل اور اسپتالوں کے ایم ایس تعینات کرنے کے لئے میرٹ، میرٹ کا واویلا ضرور کیا جاتا ہے، ہوتا اس کے برعکس ہے۔
بڑی نشستوں کے لئے ایم پی اے، ایم این اے، مشیر، وزیر سے رشتہ داری کا زریں اصول اپنایا جاتا ہے۔ جس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مجھے ہیلتھ رپورٹر دوست نے کہا۔ آپ پنجاب کے کسی بھی ٹیچنگ اسپتال میں چلے جائیں۔ مریض کو مفت دوا حتیٰ کہ ٹیکہ لگانے کی سرنج، آپریشن میں استعمال ہونے والے گلوز مل جائیں۔ آپ دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہوں گے۔ اینٹی بائیوٹک ڈرپس تو پھر دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔
یہ بات اس وقت بھی سچ ثابت ہوئی۔ میری بھابی صاحبہ کی بیٹی جناح اسپتال لاہور آپریشن سے ہوئی۔ میری زوجہ نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا۔ اللہ کسی کو گائنی وارڈ کے قصاب خانے کے درشن نہ کروائے۔ ڈاکٹرز کا مریضوں کے ساتھ سخت رویہ تو ایک طرف وارڈ میں پنکھے تو تھے لیکن ان کا چلنا دوبھر تھا۔ اگست، جان نکالتے حبس کے موسم میں مریض کا تڑپنا کس کو سنایا جائے۔ اوپر سے دوران و بعد آپریشن استعمال ہونے والی ادویات بازار سے منگوا کر رہی سہی کسر پوری کر دی گئی۔
کم و بیش تمام ٹیچنگ اسپتالوں میں یہی حال ہے اور تو اور میو اسپتال لاہور میں مریض اپنے گھر سے پنکھے لانے پر مجبور ہیں، اس کے عینی شاہد میرے ایک دوست تھے جن کی ہمشیرہ وہاں داخل تھی جن کا بعدازاں انتقال ہو گیا۔ قابل تعریف عمل یہ ہے کہ ڈاکٹرز بیچارے زکوٰۃ، صدقات یعنی ڈونیشنز سے کام چلاتے ہیں۔ مریضوں کے لئے ادویات کے ساتھ ساتھ میو اسپتال سرجیکل ٹاور میں اے سی خراب ہونے پر پنکھوں کی فراہمی بھی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ڈاکٹرز نے کی۔ اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
قابل تشویش امر یہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں کے سربراہان اسپتالوں کی ناگفتہ بہ حالت پر ماتم کرنے کے بجائے اپنی نشست پکی کرتے پی ٹی آئی حکومت کو گالیاں پڑوا رہے۔ مریض اسپتالوں میں طبی آلات اور ادویات کی کمی سے رل رہے ہیں۔ ڈینگی دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ ڈینگی سرویلنس و سپرے کرنے والی ٹیمیں سرے سے غائب ہیں۔ میڈیا پر کورونا کی تازہ ترین لمحہ بہ لمحہ صورت حال سے آگاہ کرنے اور ویکسی نیشن کی افادیت اور ویکسی نیشن نہ کروانے والوں کے کان کھولنے والا کوئی نہیں۔
جناب عثمان بزدار کو سب اچھا، سب سچا کی رپورٹ پیش کر کے اپنے نمبر ٹانکے جا رہے ہیں۔ وزراء اور مشیران یہ بتانے پر ساری قوت لگا رہے کہ پچھلی حکومت کرپٹ تھی۔ پیارے دیس میں سرکاری اسپتالوں میں کسی ریفرنس کے بغیر دھکے کھانے، مہنگی دوائیں خریدنے اور نجی، لیبارٹریوں و اسپتالوں کا عذاب جھیلنے والی مفلوک الحال قوم یہ پوچھنے پر مجبور ہے کہ ہمارے دن کب بدلیں گے؟