چوتھے سا ل کی بند گلی 

چوتھے سا ل کی بند گلی 
چوتھے سا ل کی بند گلی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عمران خان حکومت اپنے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر سویلین حکومت چوتھے سال کے دوران بند گلی میں پھنس جاتی ہے۔اگرچہ پیپلز پارٹی کا ”اچھا بچہ“ بن کے دکھانے کی کوششوں کی وجہ سے اپوزیشن تقسیم شدہ ہے جس کی وجہ سے حکومت کو مطمئن ہونا چاہئے تھا لیکن ملک میں سیاسی طوفان اٹھنے کے آثار واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ مون سون عموماً شمال کی طرف سے آتا ہے لیکن پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں سیاسی طوفان بلوچستان سے اٹھے۔ ایسے لگتا ہے کہ بلاول بھٹو ”سلیکٹ“ہونے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور اسی وجہ سے گاہے بگاہے قومی حکومت کا شوشہ بھی چھوڑا جا تا ہے کیونکہ سیاسی طور پر پیپلز پارٹی صرف اندرون سندھ تک محدود ہو چکی ہے۔ جب تک کوئی پارٹی پنجاب میں قومی اسمبلی کی پچاس سے زائد سیٹیں نہ لے اس کا مرکز میں حکومت بنانا ممکن نہیں ہوتا۔ قومی حکومت ہی ایک واحد راستہ ہے جس میں بلاول بھٹو کے وزیراعظم بننے کادو چار فیصد امکان پیدا ہو سکتا ہے۔اس کوشش میں انہوں نے اپوزیشن کی سیاسی طاقت کو تتر بتر کر دیا۔

یہ صورت حال وزیراعظم عمران خان کے لئے بہت تسلی بخش ہونی چاہئے لیکن کیا کیا جائے کہ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ چوتھے سا ل میں نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی بھی سویلین حکومت بند گلی میں پھنس جاتی ہے۔فوجی حکمران تو دس دس سال حکومت کرتے رہے لیکن ان کے اپنے بنائے ہوئے وزیر اعظم بھی چوتھے سال میں عجیب و غریب صورت حال سے دوچار ہوتے رہے۔ جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو کو چوتھا سال شروع ہوتے ہی بلا وجہ برطرف کیا۔ جنرل مشرف دور میں مسلم لیگ (ق) کے چوتھے سال میں اکبر بگتی کا قتل ہوااور پھر اگلے سال میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک، سانحہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ اورآخر میں بے نظیر بھٹو کے قتل نے مسلم لیگ (ق) کو شدید شکست سے دوچار کر دیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے پانچ پانچ سال پورے تو کئے لیکن دونوں کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کو چوتھے سال میں عدالتی عمل کے ذریعہ نا اہل کرایا گیا۔ماضی کی تمام سویلین حکومتوں کی طرح اب عمران خان حکومت بھی چوتھا سال شروع ہوتے ہی بند گلی میں پھنستی جا رہی ہے۔  


وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے اہم وزراء ضرورت سے زیادہ(بزعم خود) اعتماد کا شکار ہیں۔ انہوں نے کئی سیاسی اور غیر سیاسی محاذ کھول لئے ہیں۔ میڈیا اور الیکشن کمیشن کے محاذ غیر سیاسی اور غیر ضروری ہیں لیکن عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے حکومت ان میں پھنس چکی ہے۔ ایسے لگتا ہے، حکومت میڈیا کا خون پینا چاہتی ہے۔ ماضی میں جب بھی کسی حکومت نے میڈیا کو کچلنے کی کوشش کی ہمیشہ خود ہی نقصان اٹھایا۔ کئی حکومتیں آئی اور گئیں لیکن میڈیا اپنی ثابت قدمی اور قربانیوں کی وجہ سے اپنی جگہ پر قائم رہا۔ اگر حکومت کے وزیر اور مشیر سمجھدار ہوتے تو PMDA جیسا کالا قانون بنانے سے حکومت کو روکنے کی کوشش کرتے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن کا گلا گھونٹنے کی کوشش بھی حکومت کو بہت نقصان پہنچائے گی۔ الیکٹرا نک ووٹنگ مشین کی ضد حکومت کا واٹرلو ثابت ہو گا۔ اول تو یہ خواہش حسرت ہی رہ جائے گی لیکن بالفرض اگر زور زبردستی سے الیکٹرانک ووٹنگ کروا بھی لی گئی تو وہ غدر مچے گا کہ اسے سنبھالنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔

دنیا کے ترقی یافتہ ترین یورپی ممالک اس کا تجربہ کرکے اس کے نقائص کی وجہ سے الیکٹرانک ووٹنگ کو ختم کر چکے ہیں لیکن ہمارے یہاں پہیہ الٹا گھمانے کی کوشش میں پہلے بھی حکومتیں واپس گھر جاتی رہی ہیں۔ ویسے بھی کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن نے عوام کا موڈ بتا دیا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری نے حکومت کو عوام کے ان علاقوں میں بھی غیر مقبول بنا دیا ہے جہاں اس نے پانچ سال پہلے کنٹونمنٹ  بورڈز میں سویپ کیا تھا۔ کاش حکومت میں کوئی تو ایسا ہوتا جو عوام کا موڈ جاننے کی صلاحیت رکھتا۔ جوں جوں مہنگائی عوام کو خود کشی کی طرف دھکیل رہی ہے، وزیراعظم عمران خان اور ان کے کئی وزراء فرانس کی ملکہ میری بنتے جا رہے ہیں کہ اگر روٹی نہیں ہے تو کیک کھا لیں۔ 


بجلی کے بلوں پر ایڈوانس انکم ٹیکس (5 تا 35 فیصد)کا صدارتی آرڈی ننس عمران خان حکومت کو بہت غیر مقبول بنا دے گا۔ آئی ایم ایف معاہدہ پاکستانی عوام کے سر پر ایٹم بم کی طرح پھٹا ہے۔ پاکستان اس سے پہلے بھی آئی ایم ایف سے معاہدے کرتا رہا ہے لیکن اتنی ظالمانہ شرائط والا معاہدہ پی ٹی آئی حکومت نے کیا جس کے بعد بجلی اور گیس پاکستانی عوام کے لئے ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔ وفاقی حکومت کے اپنے ادارہ شماریات (Bureau of Statistics) نے مہنگائی کی شرح 14.33 فیصد بتائی ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ مہنگائی کی اصل شرح اس سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ ویسے بھی 170 روپے کا مہنگا  ڈالر سونامی کی طرح حکومت کو بہا لے جائے گا۔کسی حکومت کی ناکامی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ دھڑا دھڑ صدارتی آرڈیننس جاری کرکے تمام پارلیمان کو مفلوج کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی ایک انتہائی متنازعہ صدر بن چکے ہیں کیونکہ وہ صدر مملکت کی بجائے پارٹی ترجمان بنے ہوئے ہیں۔

اس سے پہلے بھی جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس جھوٹا ثابت ہوچکا ہے۔ اسی طرح سینیٹ الیکشن کی اوپن بیلیٹنگ کا آرڈی ننس بھی سپریم کورٹ نے آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے سٹرائیک ڈاؤن کر دیا تھا۔ کوئی اور ملک ہوتا توآئین کے خلاف آرڈی ننس جاری کرنے والا کب کا استعفی دے کر گھر جا چکا ہوتا۔اب اگر چئیرمین نیب کو صدارتی آرڈی ننس کے ذریعہ توسیع  دی جاتی ہے تو ملک کی بہت بڑی بد قسمتی ہوگی۔ جب وہ کہتے ہیں کہ دنیا عمران خان کی مرید بن جائے تو شائد ان کی مراد ہوتی ہے کہ دنیا سیاسی اور پارلیمانی عمل چھوڑ کر رات دن پروڈکشن دینے والی آرڈیننس فیکٹریاں لگائیں جہاں عوام سے لاتعلق قوانین جاری ہوں۔ ظاہر ہے ایسا کہیں اور نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے کیونکہ ان ملکوں کی تاریخ بھی نہیں ہے کہ ہر سویلین حکومت اپنے چوتھے سال میں بند گلی میں پھنس جاتی ہو۔ عوام کے حقیقی مسائل سے مکمل طور پر لاتعلق حکومت کا منطقی انجام بہر حال یہی ہوتا ہے۔  

مزید :

رائے -کالم -