مکتب کی کرامت (3)

اگلے روز جنرل عتیق الرحمن، ڈپٹی کمشنر اور چند دیگر افسران کالج تشریف لائے۔ جنرل صاحب پرنسپل صاحب کے ہمراہ بڑی پھرتی سے کالج کا راؤنڈ لگاتے رہے۔باقی لوگ پیچھے رہ گئے جب کہ پرنسپل صاحب پوری تن دہی سے ان کا ساتھ دے رہے تھے۔طلبہ و اساتذہ اپنی اپنی مجا لس سجائے ہوئے تھے۔ سوئمنگ پول کے قریب کھلاڑی موجود تھے،اسکاؤٹس اپنی مشق جاری رکھے ہوئے تھے۔ بڑے گراؤنڈ میں ہاکی کا میچ جاری تھا۔ محمد رفیق اور رشید احمد ڈی پی ای صاحبان ان کی نگرانی اور راہنمائی کر رہے تھے۔ یہ دونوں ڈی پی ای تمام کھیلوں کے بہترین کوچ تھے۔انہی دنوں کالج ہال میں بہترین مزاحیہ ڈرامہ دکھایا گیا جو چار دن تک جاری رہا۔ پروفیسر ارشاد غالب شعبہ جغرافیہ اس کھیل کے ہدایت کار تھے۔ وہ سٹیج کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے کیونکہ ان کے بھائی باری اسٹوڈیو لاہور میں فلم ہدایت کارتھے، میک اپ مین اور موسیقاربھی لاہور سے منگوائے گئے۔ طلبہ میں اکبر کوریا اور قاسم علی بہترین مزاحیہ اداکارتھے۔ قاسم علی بٹالہ مسلم ہائی اسکول سے میرا ہم جماعت تھا بعد میں ڈی پی ای تعین ہوا۔
زیادہ تر ملازمت لاہور کے مضافات کے کالجز میں رہی۔ اکبر کوریا لاہور میں فلموں میں اداکاری کرنے لگا، پروفیسر ارشادغالب نے بہترین ڈرامہ پیش کیا جو مدتوں یاد رکھا گیا۔ وہ کچھ عرصہ یہاں رہے پھر گورنمنٹ کالج شیخوپورہ تبدیل ہوگئے۔پروفیسر قمرالزمان خان جغرافیہ کے استاد تھے وہ کالج کے چیف پراکٹر بھی تھے۔ ان کا انتظامی لحاظ سے مکمل کنٹرول تھا۔ بعد میں وہ کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ سب شرارتی طلبہ بھی ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ شعبہ کیمیا کے سامنے والی گراؤنڈ میں فلم پراجیکٹر لگا ہواتھا،جہاں تین روز فلم دکھائی جاتی تھی۔ ایک روزانٹر میڈیٹ کے طلبہ،دوسرے روز بی اے، بی ایس سی کے طلبہ اور تیسرے روزکالج اسٹاف فیملی کے ساتھ فلم دیکھتے تھے۔ یہ سلسلہ پرنسپل پروفیسرمیاں انور علی نے شروع کیا تھا۔کسی نے ان سے پوچھا طلبہ کو فلم دیکھنے سے منع کرنے کی بجائے آپ نے فلم پروجیکٹر لگوا دیا ہے۔ پرنسپل میاں انور علی صاحب نے کہا طلبہ نے کسی نہ کسی طرح سینماہال میں فلم تو دیکھ لینی ہے،ہم نے کالج میں فلم دکھانے کا اہتمام اس لیے کیا ہے کہ سینما میں ہونے والی ہاؤ ہو اور دیگر فضول نعروں اور سیٹیوں سے طلبہ کو دور رکھا جاسکے۔پرنسپل آغا امجد علی کے بعد یہ پروجیکٹر بند ہو گیا۔ 1983ء میں پرنسپل فخر بہادرزار نے فلم کمیٹی کے مشورہ کے مطابق اسے فروخت کر دیا۔ گراؤنڈ میں فلم پروجیکٹر کے لئے بنی کوٹھری بھی گرا دی گئی:
نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
طور مضطر ہے اُسی آگ میں جلنے کے لیے
میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے فلسفہ کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج مظفرگڑھ میں لیکچرار فلسفہ تعین ہو اتھا۔پانچ سال وہاں رہا پھر انتہائی کوشش کے بعد اپریل 1983ء میں گورنمنٹ کالج ساہیوال میں تبادلہ ہوگیا۔ یہاں اس وقت پروفیسر فخر بہادر زار پرنسپل تھے۔ وہ چونکہ مظفرگڑھ سے تبدیل ہو کر یہاں آئے تھے،اس لیے کالج کے لیے میری خدمات اور صلا حیتوں سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے فوری طور پر مجھے پروفیسر سید محمد اکبر شاہ کے ہمراہ طلبہ یونین کا معاون نگران اور کالج گزٹ کا معاون مدیر مقرر کر د یا۔انہی دنوں پاکستان فلسفہ کانگرس کا سالانہ اجلاس پشاور یونی ورسٹی میں ہونا طے پایا۔ اس کے صدر پروفیسر سی اے قادر تھے ان کا بیٹا مظفر قاد ر ساہیوال کا ڈپٹی کمشنر رہ چکا تھا۔انہوں نے موجودہ انور لائبریری تعمیر کروائی اور اس کا نام پبلک لائبریری رکھا۔ اس کا افتتاح کمشنر ملتان ڈویژن انور پاشا نے کیا تھا ان کے نام کا پتھر لائبریری دروازہ کے بائیں جانب نصب ہے۔
مجھے فلسفہ کانگریس کا لائف ممبر ہونے کی وجہ سے سالانہ اجلاس میں شرکت لازمی کرنا تھی اور تحقیقی مقالہ بھی پڑھنا تھا جس کا موضوع تھا ”آزادی اور ذمہ داری“۔میں اپنے بی اے کے دو طلبہ نعیم احمد اور مسعود احمد فریدی کو کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے پشاور ساتھ لے گیا، وہ دونوں بہت خوش تھے،وہ پہلی بار کسی اعلیٰ درجہ کی کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔ میں نے شیر پاؤ ہال (پشاور یونی ورسٹی) میں اپنا مقالہ بھر پور انداز میں پیش کیاجو بے حد پسند کیا گیا۔ کانفرنس کے جنرل سیکرٹری پروفیسر خواجہ غلام صادق صدر شعبہ فلسفہ پنجاب یونی ورسٹی لاہور تھے جبکہ دیگر مقررین سمیت پروفیسر وارث میر نے بھی موضوع کی مناسبت سے خطاب کیا۔ مسعود احمد فریدی آج کل ڈائریکٹر کالجز ساہیوال ڈویژن کام کر رہے ہیں اور مجھے اپنی علمی و فکری کارکردگی سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔(جاری ہے)