گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈز کا تنازعہ 

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈز کا تنازعہ 
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈز کا تنازعہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور نے اپنے انیسویں کانووکیشن کے موقع پر چھ شخصیات کو لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ دینے کا جو فیصلہ کیا،وہ اس وقت ایک متنازعہ شکل اختیار کر گیا جب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب نے نہ صرف یہ ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا بلکہ اس پر تنقید بھی کی۔ قصہ اس اجمال کا یہ ہے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی نے یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار یہ فیصلہ کیا اس کے کانووکیشن میں چھ شخصیات کو ان کی زندگی بھر کی کامیابیوں کے ایوارڈ سے نوازا جائے۔ اس کیلئے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور نے جن شخصیات کا انتخاب کیا ان میں سابق وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب، ایس ایم ظفر، مستنصر حسین تارڑ، بابر علی، ضیاء محی الدین اور ڈاکٹر پرویز حسن شامل تھے۔ اس ایوارڈ کی اطلاع جب ڈاکٹر خالد آفتاب کو دی گئی اور ان سے کانووکیشن میں شرکت کے لئے کہا گیا تو انہوں نے نہ صرف آنے سے انکار کیا بلکہ ایوارڈ لینے سے بھی معذرت کر لی۔ یہ بات یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی کے لئے حیران کن اور بہت بڑا جھٹکا تھی۔ انہوں نے باردگر ڈاکٹر خالد آفتاب سے رابطہ کیا مگر وہ نہیں مانے اور ایوارڈ دینے کے فیصلے کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا دنیا میں کہیں بھی کوئی تعلیمی ادارہ شخصیات کو لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ نہیں دیتا اس لئے وہ ایوارڈ لے کر اس غلط روایت کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔


یہ بات جب میڈیا تک پہنچی تو ڈاکٹر اصغر زیدی نے کہا جن چھ شخصیات کا انتخاب کیا گیا وہ اپنے شعبے میں نمایاں مقام رکھتی ہیں، ان کی تعلیم اور پاکستان کے لئے گراں قدر خدمات ہیں۔ ایس ایم ظفر نے قانون اور سماجی شعبے میں بہت کام کیا ہے، وہ ایک ایسی بزرگ شخصیت ہیں جن کے کئی حوالے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ نے ادب کے شعبے میں اپنی منفرد پہچان کرائی ہے اور وہ اولڈ راوین بھی ہیں۔ ضیاء محی الدین کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، براڈ کاسٹنگ اور فروغ اردو ادب کے سلسلے میں ان کی خدمات سے سبھی آگاہ ہیں۔ ڈاکٹر بابر علی اور ڈاکٹر پرویز حسن نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں طلبہ کی استعداد بڑھانے کے لئے، انڈومنٹ فنڈ قائم کیا۔ جس سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر خالد آفتاب کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کیلئے عظیم خدمات کو کون نہیں جانتا، انہیں اس لئے اس ایوارڈ کیلئے منتخب کیا گیا۔ ڈاکٹر خالد آفتاب نے اس ایوارڈ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا۔ یہ یونیورسٹی کا کام ہی نہیں، انہوں نے یہ الزام بھی لگایا موجودہ وائس چانسلر اپنی ذاتی شہرت اور مقاصد کے لئے یونیورسٹی کو استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا جن شخصیات کو ایوارڈ دیئے جا رہے ہیں ان کا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی تعلیمی استعداد اور عالمی سطح پر اس کا نام متعارف کرانے میں کیا حصہ ہے، دنیا کی کون سی یونیورسٹی ایسا ایوارڈ دیتی ہے، یہ دیگر حکومتی اداروں اور فلاحی تنظیموں کا کام ہے وہ لوگوں کو لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ دیں۔


کانووکیشن میں یہ ایوارڈ تو تقسیم ہو گئے ہیں تاہم ڈاکٹر خالد آفتاب کے انکار اور اعتراض کے بعد ان ایوارڈز کی حیثیت متنازعہ ہو گئی ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہی اٹھتا ہے جن شخصیات کو ایوارڈز دیئے گئے ان کا انتخاب کس نے کیا اور اس کے لئے کیا طریقہ کار اپنایا گیا، کیا صرف وائس چانسلر نے اس کے لئے اپنا صوابدیدی اختیار تو استعمال نہیں کیا، ملک میں اور بھی بڑی بڑی شخصیات موجود ہیں، اس میں شک نہیں جن شخصیات کو ایوارڈز دیئے گئے وہ ملک کی نامور اور قابلِ فخر شخصیات ہیں تاہم شخصیات تو اور بھی لا تعداد ہیں، جن کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے ایوارڈ کا نام اگر لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ ہے تو ایسی شخصیات کو یہ ایوارڈ کیسے دیا جا سکتا ہے جنہوں نے ادارے میں طالب علموں کے لئے کوئی مالی فنڈ قائم کیا ہو۔

ایسی تو ان گنت شخصیات نکل آئیں گی جنہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے لئے اس طرح کی مثالیں قائم کی ہوں گی۔ صرف ڈاکٹر بابر علی اور ڈاکٹر پرویز حسن کو ہی اس کے لئے کیوں منتخب کیا گیا۔ شاید یہی وہ بات ہے جس کی طرف ڈاکٹر خالد آفتاب نے اشارہ کیا ہے کہ موجودہ وائس چانسلر اپنے ذاتی مقاصد کے لئے یونیورسٹی کا پلیٹ فارم استعمال کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر خالد آفتاب کی یہ بات بھی قابل توجہ ہے دنیا میں کہیں بھی یونیورسٹیاں شخصیات کو ایسے ایوارڈز نہیں دیتیں، یہ ان کا کام ہی نہیں، وہ زیادہ سے زیادہ اعزازی ڈگری تفویض کر دیتی ہیں۔ وہ بھی اس صورت میں جب تعلیم کے شعبے میں کسی شخصیت کی گراں قدر خدمات ہوں۔ پھر ڈاکٹر خالد آفتاب کے اعتراض کا یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے جن شخصیات کو ایوارڈ کے لئے منتخب کیا گیا انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے بطور تعلیمی ادارہ امیج بہتر بنانے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایوارڈ ان اساتذہ اور شخصیات کو دیئے جانے چاہئے تھے جنہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کو ایک بڑا تعلیمی ادارہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔


یہ تنازعہ شاید کھڑا نہ ہوتا اگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور انتظامیہ اس کے لئے ایک بڑی سطح پر مشاورت کرتی مثلاً ڈاکٹر خالد آفتاب سے ہی اس ضمن میں مشورہ و رہنمائی حاصل کی جا سکتی تھی جو اس یونیورسٹی کے طویل عرصے تک وائس چانسلر رہے اور اس کی بنیاد پرداخت میں اہم کردار ادا کیا آپ روایت سے ہٹ کر کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے مشاورت اور بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی نے کبھی ایسے ایوارڈز نہیں دیئے پھر ایسے ایوارڈز کے لئے ہمیشہ ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے، جس میں سینئر اور اپنے شعبوں کی نابغہ روز گار شخصیات شامل ہوتی ہیں۔ یہ کمیٹی پورے منظر نامے کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات پیش کرتی ہے۔ جس کے بعد حتمی کمیٹی ایسے ناموں کی منظوری دیتی ہے۔ کیا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ دیتے ہوئے یہ طریقہ کار اختیار کیا گیا؟ یا ڈاکٹر خالد آفتاب کی بات درست ہے اس میں صرف وائس چانسلر کی ذاتی پسند نا پسند شامل ہے۔ بہرحال اتنی بڑی درس گاہ کے بارے میں یہ تنازعہ خوش آئند نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -