ہود بھائی کی بے ہودگی ۔۔۔۔
مسئلہ ایک ہود بھائی کا نہیں ہے، نجانے کتنے ہود بھائی ٹائپ لوگ یہاں دندناتے پھر رہے ہیں اور دیمک کی طرح معاشرے کے تانے بانے کاٹ رہے ہیں، ان کے دماغ روشن خیالی کے ابلتے ہوئے گٹر بن چکے ہیں اور ان سے اٹھنے والا تعفن پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، دیدہ دلیری سے قرآنی احکامات اور اسلامی روایات کا تمسخر اڑایا جاتا ہے،اللہ رب العزت کے فیصلوں کو چیلنج کیا جاتا ہے، اس کے مقابلے میں مغرب کافحش اور بیہودہ کلچر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
14سو سال پہلے ابوجہل کے دماغ میں ایسے خیالات نہیں آئے جیسے اس ٹولے سے جڑے لوگوں کے دماغوں میں آتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اس ٹائپ کے اسلام بیزار لوگ اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے بھی اسلام اور اسلامی اقدار پر حملے نہیں کرتے تھے، اُس وقت ان کی تان بیچارے کسی مولوی پر آکر ٹوٹتی تھی، کسی مولوی کا کوئی سکینڈل ان کے ہاتھ لگنے کی دیر ہوتی تھی یہ برساتی مینڈکوں کی طرح کونے کھدروں سے نکل کر ایسی ٹر ٹرکرتے کہ آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے لیکن آج یہ طبقہ اس قدر بے خوف ہوچکا ہے کہ اسلام پر حملہ کرنے سے بھی باز نہیں آتا۔
ایک ایسا ہی حملہ گزشتہ دنوں فزکس کے پروفیسرپرویز ہود بھائی نے حجاب کی آڑ میں کیا۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’میں نے 1973ء میں قائداعظم یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا تھا تب وہاں ایک لڑکی بھی بمشکل برقعے میں دکھائی دیتی تھی، اب تو حجاب(برقع) عام ہو گیا ہے،آپ کو شاذ ونادر ہی نارمل لڑکی وہاں نظر آتی ہے۔ جب وہ کلاس میں بیٹھتی ہیں تو برقعے یا حجاب میں لپٹی ہوئی، تو ان کی کلاس میں شمولیت بہت گھٹ جاتی ہے"۔ ہود بھائی کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو خواتین حجاب پہنتی ہیں وہ نارمل نہیں بلکہ ابنارمل ہوتی ہے ۔
ہود بھائی کا یہ بیان سن کر مجھے ایک واقعہ بار بار یاد آرہا ہے۔ دبئی سے ٹورنٹو جانے والی ایک نان سٹاپ فلائٹ پر پاس بیٹھی باحجاب لڑکی سے ہود بھائی ٹائپ نام نہاد لبرل خیالات کے حامل مسافر نے پوچھا' سفر بہت طویل ہے ہم کیوں نہ کچھ بات چیت کر لیں، سنا ہے اس طرح سفر بآسانی کٹ جاتا ہے'۔
کتاب پڑھنے میں مصروف باحجاب لڑکی نے کتاب سے نظر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور کہاکہ'ضرور کیجئے، مگر آپ کس موضوع پر بات کرنا چاہیں گے؟'ہود نے کہاکہ ' ہم حجاب پر بات کر سکتے ہیں کہ اسلام عورت کو پردے میں کیوں قید کرتا ہے یا اسے مرد کے برابر وراثت میں حصہ کیوں نہیں دیتا؟ لڑکی نے پوری دلچسپی کے ساتھ سوال سنا اور تھوڑا توقف کے بعد گویا ہوئی کہ 'موضوع تو بہت دلچسپ ہے لیکن پہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دیجئے'۔ ہود نے پوچھا 'کیا؟'
لڑکی نے کہا کہ ' گائے، گھوڑا اور بکری ایک جیسا چارہ یعنی گھاس کھاتے ہیں لیکن ان کا فضلاء مختلف ہوتا ہے مثال کے طور پر گائے گوبر کرتی ہے، گھوڑا لید کرتا ہے اور بکری مینگنی کرتی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟' ہود سوال سن کر چکرا گیا اور ندامت بھرے لہجےمیں بولا: 'مجھے اس کا پتا نہیں۔'اس پر لڑکی بولی: 'کیا آپ سمجھتے ہیں کہ، آپ خدا کے بنائے قوانین، پردہ، وراثت اور حلال و حرام پر بات کرنے کے اہل ہیں جبکہ خبر آپ کو جانوروں کی غلاظت کی بھی نہیں ؟'۔جواب سن کر ہود کے دماغ میں روشن خیالی کے جتنے بلب تھے سب کے سب ایک دم فیوز ہوگئے اور اس کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ بیچارے کا نا محرم خاتون سے بات کرنے کا شوق بھی اتر گیا اور اس کے اندر پایا جانے والا لبرل ازم اور روشن خیالی کا کیڑا بھی سکون کی نیند سوگیا۔ نام نہاد لبرلز کا یہی حال ہوتا ہے لیکن انہیں اس طرح کی 'عزت افزائی' سے فرق نہی پڑتا، ایسی چیزوں کو وہ اپنی 'ریٹنگ' بڑھانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں ، ریٹنگ بڑھے گی تو آقاؤں کی قربت بھی ملے گی اور مال پانی بھی۔
ہود کی بیہودگی کو چھوڑتے ہیں۔ آئیے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں کہ وہ حجاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کیا فرمان پیش کرتا ہے۔ سورۃ کا نام ہے سورۃ النور، آیت نمبر 31 ، اللہ کریم فرماتے ہیں'اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے، اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بیٹوں یا خاوند کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ'۔
اللہ رب العزت کے اتنے واضح حکم کے بعد کسی دلیل کی ضرورت ہے نہ کسی وکیل کی۔ جس نے کلمہ پڑھ لیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا،اس کے لئے اللہ کریم کا یہ حکم حجت ہے، کسی مسلمان کی غیرت ایمانی اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس حکم پر رتی برابر بھی شک کرے۔ حجاب پر تو قرآن و حدیث سے لیکر ہماری ثقافت و اقدار کی روشنی میں بے شمار کتابیں موجود ہیں اور مزید لکھی جاسکتی ہیں مگر جو لوگ حجاب کے خلاف ہیں، حجاب کو عورتوں پر ظلم اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں، انکے لئے اگر قرآن و حدیث کے اوامر اور نواہی کافی ہوتے اور وہ اسے دلیل سمجھتے تو کبھی ایسا نہ کرتے۔ یہ لوگ مغرب پرست ہیں ، مغرب کے ٹکڑوں پر پلنے والے ہیں اور مغربی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔ یہی ان کی روٹی روزی کا ذریعہ ہے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے،ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے، یہ خود کو مسلمان کہتے ہوئے بھی اسلام کی روشنی دیکھنے سے قاصر ہیں، ان کے دماغ اسلام کی حقانیت جاننے سے معذور ہیں۔
یہ طبقہ جس قسم کا مادر پدر آزاد معاشرے کا خواب دیکھ رہا ہے ، وہ تباہی کے سوا کچھ نہیں، مغرب کا حال ہمارے سامنے ہیں۔ تہذیبِ جدید اور مغربی معاشرہ جرائم کی روک تھام کے بجائے ان کو فروغ دینے میں موثر کردار ادا کرتا ہے کیوں کہ تہذیب وتمدن اگر شرم وحیا سے خالی ہے تو وہ صرف تباہی ہے۔انسانوں میں مخالف جنس کے جسم کو نہ صرف یہ کہ دیکھنے کی اجازت ہو بلکہ صنف مخالف کے لیے ہر صنف میں نوع بہ نوع کی جاذبیت پیدا کرکے دعوت نظارہ دیتا ہو یہ تباہی کا سیلاب اپنے ساتھ لاتی ہے۔
مغربی معاشرہ ایک طرف اگربلاروک ٹوک ہر شخص کو جنسی تسکین کی اجازت دیتا ہے تو دوسری طرف ہم جنس پرستی کی وکالت کرتا ہے، ایک طرف بے حیائی اور بے غیرتی کو رواج دینے اور عام کرنے کے لیے خواتین کو آزادیِ نسواں اور مساوات کا دل فریب نعرہ دے کر خوش گمانی میں مبتلا کرتا ہے تو دوسری طرف ان کو بازاروں، کلبوں، کالجوں، کھیل کے میدانوں، پارکوں اور ہوٹلوں اور دفاتر کی زینت بناکر بے وقوف بناتا ہے، وہاں مرد وعورت کے نکاح اور شادی کے بندھن میں بندھنے کی تعریف وتوصیف کرنے کی بجائے ایسا کرنے والے حضرات وخواتین کو بے وقوف خیال کیا جاتا ہے، اولاد کی تعلیم وتربیت کی وکالت کرنا تو دُور، ان کی تعلیم گاہوں میں ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جہاں اچھی تربیت ناممکن ہے جب کہ صالح معاشرہ اور اچھے سماج کا جوہراچھی تعلیم اور اچھی تربیت ہی ہے۔
یہ تمام چیزیں تباہی و بربادی کا سبب ہیں، کسی اسلامی معاشرے میں ان چیزوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان میں اس قسم کا کلچر پرموٹ کرنے کا بیڑہ اٹھانے والے ہود بھائیوں کو یہاں کوئی موقع نہیں ملے گا ، انہیں اگر ایسا مادر پدر آزاد معاشرہ چاہئے تو یورپ کے دروازے ان ایسوں کے لئے ہمیشہ کھلے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو اور بالخصوص مسلمانوں کو عقل وسمجھ عطا فرمائے اور مغربیت سے بچ کر اپنے پروردگار اور آقائے نامدار تاجدار مدینہ سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصول پر زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔