سیلاب زدگان اور مربوط کوششوں کا فقدان
بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے یونیسف نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں 34لاکھ بچے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں موجود ہیں، فوری مدد نہ کی گئی تو بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ ادھر عالمی ادارۂ صحت نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں سیلاب زدگان جو لاکھوں کی تعداد میں بے سروسامانی کے عالم میں آسمان تلے بیٹھے ہیں، میں بیماریاں پھیلنے کا شدید خدشہ موجود ہے جس سے بڑے پیمانے پر اموات ہو سکتی ہیں۔ عالمی اداروں کی ان رپورٹوں سے حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے،جو اعداد و شمار عالمی اداروں اور بیرونی ممالک کے پاس ہیں وہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مشتہر نہیں کئے جا رہے یا یوں کہنا چاہئیے کہ ہمارے ادارے ابھی اس طرح کے وسائل سے لیس نہیں جو ایسی آفات کے بعد نقصانات کا اندازہ لگانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ ہم ابھی تک کوئی ایسا نظام بھی وضع نہیں کر سکے جو روزانہ کی بنیاد پر سیلاب زدگان کے لئے امدادی سرگرمیوں کے اعداد و شمار جاری کرے۔ یہ خبریں تو آتی ہیں کہ دور دراز علاقوں میں اب بھی امداد پہنچانا کٹھن ہے مگر کسی مستند ادارے کی طرف سے یہ نہیں بتایا جاتا کہ ایسے کون سے علاقے ہیں جہاں امداد نہیں پہنچی اور وہاں متاثرین کو کس طرح کی امداد چاہیے،اس بارے میں اگر مصدقہ اعداد و شمار سامنے آئیں تو کئی این جی اوز اور رفاہی ادارے ان علاقوں تک امداد پہنچا سکتے ہیں۔ بحالی کا عمل تو نجانے کب شروع ہو گا، فی الحال تو سیلاب زدگان کے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا ہی ایک بڑا سوالیہ نشان بنا ہوا ہے، کہنے کو ہر طرف سے یہ آوازیں آ رہی ہیں کہ سیلاب زدگان کی امداد زور و شور سے جاری ہے، بیرونی امداد سے لدے جہاز بھی آ رہے ہیں مگر مربوط نظام نہ ہونے کی وجہ سے صورت حال میں بہتری کی خبر نہیں آ رہی۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیلاب کی وجہ سے انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے، راستے مسدود ہو چکے ہیں، پانی اب بھی ہر جگہ کھڑا ہے، اس لئے متاثرین تک رسائی حکومتی وسائل کے بغیر ممکن نہیں، اس وقت حکومت کے تین ادارے اس آفت سے نمٹنے کے لئے کام کر رہے ہیں، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوارڈی نیشن سنٹر، افواجِ پاکستان علیحدہ سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ریسکیو کے ساتھ ساتھ خوراک اور علاج معالجے کی سہولتیں بھی فراہم کر رہی ہیں۔
اس ساری صورت حال میں جو بات ہماری بے حسی کو ظاہر کر رہی ہے وہ سیاسی قوتوں کا رویہ ہے،سیاسی جماعتیں ایک ایسی لایعنی کشمکش میں الجھی ہوئی ہیں جو اس وقت سیلاب زدگان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ انتخابات کب ہوں گے؟ کب نہیں ہوں گے؟ یہ وقت اس بحث کا نہیں، پوری دنیا اس بات کو تسلیم کر رہی ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے بہت بڑے پیمانے پر تباہی آئی ہے،کسی اور ملک میں ایسی صورتِ حال ہوتی تو پوری قوم سب کام چھوڑ کر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی پر اپنی توجہ مرکوز کر دیتی، سیاستدان سب اختلافات بھلا کر اس ایک نکتے پر اکٹھے ہو جاتے کہ پہلی ترجیح ملک کو اس آفت کے اثرات سے نکالنا ہے۔ اس وقت ہماری حالت یہ ہے کہ دنیا پاکستان کی طرف متوجہ ہے مگر ہماری سیاسی اشرافیہ نے اس معاملے کو ثانوی حیثیت دے رکھی ہے، یہ کروڑوں پاکستانیوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے جو اپنے گھربار،روزگار، اثاثوں اور زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہو کر کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، ان میں لاکھوں خواتین اور بچے ہیں، ایسی خواتین کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جو حاملہ ہیں۔ یونیسف نے 34لاکھ بچوں کی نشاندہی کی ہے لیکن یہ تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے، مسلسل یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے خود تسلیم کیا ہے کہ تین لاکھ خیمے تقسیم کئے گئے ہیں جبکہ 15لاکھ خیموں کی ضرورت ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سیلاب زدگان کھلے آسمان تلے موجود ہیں،مچھروں کی بہتات اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث ان میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بیشتر سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین کو بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں، ملک اس وقت ایک بڑی آفت کے حصار میں ہے جس کے اثرات سے نکلنا چند ہفتوں یا مہینوں کا کام نہیں، اس پر برسوں لگ سکتے ہیں تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی سمت کا تعین کریں۔ حکومت کا اس حوالے سے کیا منصوبہ ہے، ابھی تک اس کے خدوخال سامنے نہیں آ سکے، مطلوبہ شاٹ ٹرم اور لانگ ٹرم اقدامات کی تفصیلات بھی ابھی تک سامنے نہیں آسکیں یہ تفصیلات سامنے آئیں تو دنیا سے امداد کی بھرپور اپیل بھی کی جا سکتی ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف 23 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے، ان کے خطاب میں سیلاب سے پاکستان میں ہونے والی تباہی کا موضوع سرفہرست ہوگا۔ یہ دنیا بھر کی قیادت کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا، اس میں اگر ہم نے اپنا کیس موثر طور پر مستند اعداد و شمار کے ساتھ پیش کیا تو دنیا ہماری طرف متوجہ ہو جائے گی اور ہمیں سیلاب زدہ علاقوں میں انفراسٹرکچر کی بحالی، لاکھوں گھروں کی تعمیر اور متاثرہ افراد کو دوبارہ ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے جتنے بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے اس کی فراہمی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں تاہم اس امداد کا انتظار کئے بغیر ہمیں اپنے وسائل سے کم از کم ابتدائی نوعیت کی امدادی سرگرمیوں کو یقینی بنانا چاہیے۔ روزانہ کی بنیاد پر اعداد و شمار کا جاری کیا جانا ضروری ہے تاکہ حقیقت احوال سامنے آتی رہے اور جہاں امداد نہیں پہنچتی وہاں سرکاری و غیر سرکاری ذرائع سے امداد پہنچانے کا بندوبست کیا جا سکے۔ اس وقت کوارڈینیشن کا ادارہ قائم ہونے کے باوجود باہمی ربط کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ سندھ سے مسلسل سیلاب متاثرین کے احتجاج کی خبریں آ رہی ہیں کہ ان تک امداد سرے سے پہنچی ہی نہیں، یہی حال بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے سیلابی علاقوں کا ہے۔ بیماریوں کے پھوٹنے کی اطلاعات تشویشناک ہیں کہ اس مسئلے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو بڑے پیمانے پر اموات کا خدشہ ہے، ان علاقوں میں معمول کی زندگی بحال کرنے میں تو نجانے کتنا عرصہ لگتا ہے تاہم ان کروڑوں پاکستانیوں کو زندہ رہنے کے لئے خوراک، ادویات اور سر چھپانے کے لئے عارضی بندوبست کرنا تو حکومت اور معاشرے کی ایسی ذمہ داری ہے جس سے پہلوتہی ہمیں ایک بڑے انسانی المیے سے دوچار کر سکتی ہے۔