روس اور یوکرائن…… چند تاثرات
اگلے روز ازبکستان کے ایک مشہور شہر سمرقند میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی ایک چوٹی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ہمارے وزیراعظم شہبازشریف صاحب نے بھی شرکت کی۔ ازبکستان کا درالحکومت تاشقند بھی ایک تاریخی شہر ہے جس میں اسلامی تہذیب و تمدن کے بہت سے آثار پائے جاتے ہیں لیکن سمرقند اس لئے مشہور ہے کہ آج سے تقریباً سات سو برس پہلے (1336ء میں) اس کے ایک نواحی قصبے سبزار میں امیر تیمور پیدا ہوا جو چنگیز خان کی اولاد میں سے تھا۔
یہ کالم تیمور کے کارہائے نمایاں پر نہیں لکھا جا رہا بلکہ SCO کی اس حالیہ کانفرنس میں روسی صدر پیوٹن کے اس بیان پر تذکرہ مقصود ہے جس میں انہوں نے یوکرائن کو وارننگ دی ہے کہ وہ اپنی جوابی یلغار (Counter Offensive) وغیرہ سے باز آ جائے اور روس کے صبر کا زیادہ امتحان نہ لے وگرنہ اس کو پچھتانا پڑے گا۔
پاکستان میں بعض تجزیہ نگار، روس۔ یوکرائن جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ روس کی فوج یوکرائن کی فوج سے شکست کھا رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب روس کی عسکری عظمت کا یوکرائنی سرزمین پر تیاپانچہ کر دیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تبصرہ نگار حضرات امریکی اور یورپی پراپیگنڈہ مشین سے متاثر ہو کر ایسا لکھ رہے ہیں۔ مغربی ممالک اور خاص کر ناٹو افواج، دن رات اس طرح کا جھوٹ بول رہی ہیں جیسا وہ افغانستان کی 20سالہ جنگ کے دوران بولتی رہی تھیں حالانکہ ناٹو اور افغان طالبان کی عسکری قوت کا تقابل جس لحاظ سے بھی کیا جائے، افغانستان اس جنگ کے کسی کھاتے میں بھی نہیں آتا۔
یوکرائن کا موازنہ افغانستان سے نہیں کیا جا سکتا اور ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ امریکہ کو افغانستان میں عسکری شکست نہیں ہوئی تھی۔ گزشتہ برس کابل و قندھار سے امریکی پسپائی ایک سٹرٹیجک انداز کی پسپائی ضرور کہی جا سکتی ہے، لیکن شکست ہرگز نہیں …… بالکل اسی طرح آج اگر یوکرائن میں رشین فورسز کا ایڈوانس آہستہ رو ہے، اگر روس، یوکرائنی شہروں پر قبضہ نہیں کر رہا، اگر اپنی فوج کا تھوڑا سا جانی اور مادی نقصان اٹھا رہا ہے تو یہ اس کی جنگی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، اسے رشین ہزیمت سے تعبیر کرنا عسکری تاریخ سے پرلے درجے کی بے خبری ہے۔
صدر پیوٹن نے سمر قند میں ایک اخباری کانفرنس میں یہ واضح کیا کہ آج کیف (یوکرائن) رشین فوج پر دہشت گردانہ حملے کر رہا ہے۔ لیکن ان کے نتائج یوکرائن کے لئے بہت بھیانک ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ: ”یہ جنگ، کوئی باقاعدہ جنگ نہیں۔ یہ ہمارے لئے صرف ایک ”سپیشل ملٹری آپریشن“ ہے۔ اور اس میں اب تک ہم تحمل و بردبادی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے بعض یوکرائنی اہداف پر جو حملے کئے ہیں اور جن کو ”حساس حملے“ کہا جا رہا ہے، یہ محض ’وارننگ شاٹس‘ ہیں“۔
اگرچہ پیوٹن نے ان ”حساس حملوں“ کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی لیکن ان کا اشارہ یوکرائن کے کئی بجلی گھروں اور ڈیموں پر میزائلی حملوں کی طرف تھا۔
پاکستانی قارئین کی اکثریت روس، یوکرائن اور دیگر یورپی ممالک کی تاریخ سے کم کم واقفیت رکھتی ہے۔ ہمارے کالم نگار، داخلی سیاسیات کی اکھاڑ پچھاڑ میں اس بُری طرح الجھے ہوئے ہیں کہ علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی صورتِ حال سے اگر بے خبر نہیں تو غافل ضرور ہیں۔ اس بے خبری اور غفلت کی وجوہات پر کچھ لکھنا عبث ہے۔ عالمی خبرگیری اور بین الاقوامی حالات سے آگہی ایک مشکل موضوع ہے۔ ہم پاکستانیوں کو چیدہ چیدہ موضوعات سے آگہی ضرور ہے لیکن اس آگہی کے پسِ پردہ جو محرکات کار فرما ہوتے ہیں، ان کی کچھ خبر نہیں اور ان کی خبر اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک ہم کسی خطہء ارض کی تاریخ، جغرافیہ، مذہب، سیاسی تنازعات، علاقائی جنگوں، ثقافت، تعلیم و تعلّم وغیرہ سے باخبرنہ ہوں۔ مثال کے طور پر اسی روس۔ یوکرائن کی جنگ (یا بقول صدر پیوٹن سپیشل آپریشن) کی تفہیم پانے کے لئے قاری کو درج ذیل نکات و واقعات سے باخبر ہونا ہوگا:
1۔ روس اور یوکرائن کی تاریخ (1990ء تک۔ اور بعدازاں 1991ء سے لے کر اب تک)
2۔ جغرافیائی معلومات جن میں طبعی جغرافیہ اور ٹوپو گرافی پیش پیش ہوں۔
3۔یوکرائن کی عسکری اہمیت اور اس کی وار پروڈکشن کا کیف و کم (کوالٹی اور کواونٹٹی)
4۔پاکستانی قارئین کے لئے زبان کی مشکلات اور محدودات (روس، یوکرائن اور وسط ایشیائی ریاستوں کی لسانیات سے بے خبری)۔
ہم پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ برطانوی انگلشن کے لب و لہجہ، تلفظ اور الفاظ و مرکبات کا علم ہے۔ لیکن یورپ کے دوسرے ممالک (فرانس، جرمنی، پولینڈ، ہالینڈ، ڈنمارک، سیکنڈے نیویاکے ممالک، اٹلی، سپین، پرتگال، یونان، رومانیہ، بلغاریہ، آذربائیجان وغیرہ) کی زبانوں کا کچھ علم نہیں۔ ترکی ایک مسلمان مملکت ہے لیکن وہاں جا کر انگریزی زبان کی بے توقیری اور بے خبری ملاحظہ کریں۔ وہاں نہ تو فارسی بولی جاتی ہے نہ انگریزی۔…… مصطفی کمال اتاترک نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔
5۔ یوکرائن کی صنعتی اور زرعی اہمیت کے پہلو۔ اس کی معاشیات میں زرعی اجناس (بالخصوص گندم) اور عسکری پیداوار (ٹینک، طیارے، توپیں، آبدوزیں، بکتر بند گاڑیاں، میزائل، ڈرون اور انفرمیشن ٹیکنالوجی سے جڑے ہوئے سینکڑوں ہزاروں جدید پرزہ جات وغیرہٖ)
6۔ مغربی ٹیکنالوجی نے یوکرائن کے شہروں، قصبوں بلکہ دیہاتوں تک کو جدید علم و ہنر سے آراستہ و پیراستہ کر دیا ہے۔
درج بالا موضوعات پر گوگل میں بڑی تفصیل سے آگہی موجود ہے، نقشے اور خاکے موجود ہیں، تصاویر موجود ہیں، وہ تصانیف موجود ہیں جن میں یہ سب کچھ پایا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ علم و ہنر کی یہ وسعت اور اس کا حجم جس قدر آپ کو اپنے سمارٹ موبائل سے مل سکتا ہے، اتنا کسی بھی لائبریری میں موجود نہیں۔ جدید دنیا میں یہ انقلابی انسائیکلو پیڈیا ایک نعمت ہے جو ایک چھوٹے سے انگریزی گودام میں بند ہے اور اس کی چابی ہے…… ”انگلش“، ”انگلش“…… اور ”انگلش“…… پاکستان کے 22کروڑ عوام میں کتنے لوگ اس زبان سے آگاہ ہیں؟ ہمارے ایک محدود طبقے کو ”نیم آگاہی“ ضرور ہے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ یہ طبقہ نہ تو اس نیم آگاہی کو مکمل آگاہی میں تبدیل کرنا چاہتا ہے اور نہ اسے اپنی زبان (اردو) میں منتقل کرنے کا آرزو مند ہے۔
مجھے از بس یقین ہے کہ اردو اخبارات کے ہمارے کالم نگار، انگریزی کی اس اہمیت و افادیت سے بے خبر نہیں۔ وہ اگر چاہیں تو داخلی سیاسیات سے بے شک توبہ تائب نہ ہوں لیکن ایک آدھ کالم درجِ بالا معلومات کے وسیع گراؤنڈ میں ”پھینک“ دیا کریں تو کیا مضائقہ ہے:
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
ہم کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو