یونیورسٹی ٹاؤن ریزیڈنٹ ویلفیئر کی جانب سے تعلیمی اداروں کی بندش کا اقدام مسترد

  یونیورسٹی ٹاؤن ریزیڈنٹ ویلفیئر کی جانب سے تعلیمی اداروں کی بندش کا اقدام ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


        پشاور (سٹی رپورٹر)یونیورسٹی ٹاؤن ریزیڈنٹ ویلفیئر سوسائٹی نے حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے یونیورسٹی ٹاؤن میں تعلیمی اداروں،کلینکس کیفیز اور دیگر کاروباری مراکز کی بندش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ عدالتی حکم کی اڑ میں معاشی اور تعلیمی قتل عام کا سلسلہ فوری بند کیا جائے اور ہزاروں طلبہ کی مستقبل کو بچانے سمیت شہریوں کو روزگار کرنے دیا جائے بصورت دیگر غیر معنہ مدت کیلئے احتجاج جاری رہے گا اس سلسلے میں یونیورسٹی ٹاؤن ریزیڈنٹ ویلفئیر سوسائٹی نے شیرین محلل ٹاون سٹور ز کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے جسمیں سوسائٹی کے عہدیداران ڈاکٹر نواز خان شانگلہ،ہوپ کے عہدیدارا عقیل رزاق،سعدیہ بلور،اویس بلال،خالد ایوب نازیہ شہزاد،بشریٰ حیدر،ڈاکٹرتجمل،ڈاکٹر طیبہ،نجی اللہ خٹک،  اور ڈاکٹر اکرام اللہ گنڈاپور  سمیت کثیر تعداد میں متاثرہ افراد شریک رہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سرداد حسین بابک نے بھی کیمپ کا دورہ کیا۔ کیمپ شرکا ء کا کہنا تھا کہ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز کی بندش کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے،واضح کرنا چاہتے ہے کہ یہ جو بھی حربے استعمال کریں اپ بچوں اور مزدوروں سے انکا بنیادی حق نہیں چھین سکتے اور یہ تعلیم دشمن اور کاروبارر دشمن پالیسی نہیں چلے گی انہوں نے الزام لگایا کہ حکمران جماعت کی خاتون ایم پی اے کے کہنے پر  ادارے بند کئے گئے ہیں ،انصاف کی حکومت میں عوام پر نا انصافی کے سائے منڈالانے لگے  انہوں نے کہا کہ انتظامیہ اور صوبائی حکومت کو اس قابل شرم فعل پر بچوں اور عوام سے معافی کا طلبگار ہونا چاہیے۔عدالتی حکم کی آڑ میں یہ معاشی اور تعلیمی قتل عام فی الفور بند ہونا چاہیے۔وزیر اعلی خیبر پختونخوا اور چیف سیکریٹری کو اس اقدام کے پس پشت عناصر کی نشاندہی کرنی چاہیے اور ان سے اس کا جواب طلب کرنا پڑے گا۔ معاشی اور تعلیمی طور پر تباہ حال صوبہ ایسے کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ صوبائی حکومت سے بھی یہ لوگ جواب مانگیں گے کہ سکولوں اور دیگر اداروں کے لیے تو درخواستیں 25 سال سے التوا میں ہیں مگر یہی حکومت اپنے صوبائی اسمبلی کے سپیکر کو سکول کی زمین ایک ٹیلی فون پر دے دیتی ہے۔ پھر اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کا دفاع کرنے پر شرم کیوں؟ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ فیصلہ واپس لیکر تعلیمی اداروں اور دیگر کاروباری مراکز کو کھولا جائے بصورت دیگر احتجاج کا دائر کار وسیع کرینگے۔