یوم الوطنی

مملکت خداداد سعودی عرب کی بات کریں تو ہر علاقے کی اپنی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں جو اس کو دیگر علاقوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ سعودی عرب اپنے محل وقوع، تہذیب و ثقافت، مذہبی شناخت، جغرافیائی حیثیت اور اپنے باشندوں کے اعتبار سے ایک اہم حیثیت کا حامل ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سیدنا ابو الانبیاء ابراہیم علیہم السلام کے مبارک قدم پڑے، خانہ خدا اسی ارض مبارک پر ہے۔ پیغمبر اسلام کی بعثت کے لیے اللہ نے اسی زمین کو منتخب کیا، انعام و اکرام کی بارشیں یہیں برستی ہیں، دنیا جہاں کے پھل یہیں کھنچے چلے آتے ہیں، آب زمزم اسی کی چھاتی سے نکلتا ہے، کائنات کا مرکز اور وسط یہی مقدس سرزمین ہے۔ حرمتوں والی زمین یہیں ہے۔ ہر مسلمان اس سر زمین سے دل وجان سے محبت کرتا ہے اور ہر لمحہ منتظررہتا ہے،ہمیں کب اللہ کے گھر کی زیارت نصیب ہو گی۔ایک طویل جدوجہد ہے کہ کیسے سعودی عرب کا قیام ممکن ہوا لیکن مختصراً بات کریں تو آل عبدالعزیز کے جد امجد ملک عبدالعزیز نے 19ستمبر 1932ء میں یہ شاہی فرمان جاری کیا کہ 23 ستمبر 1932ء سے ہمارے ملک کا نام ”مملکہ عربیہ سعودیہ“ ہوگا، اسی لیے اس دن کو ”الیوم الوطنی“ قومی دن (National Day) کے طور پر منایا جاتا ہے۔سعودی عرب کے محل و قوع کی بات کریں تو سعودی عرب کا کل رقبہ 22 لاکھ 17 ہزار نو سو انچاس مربع کلو میٹر ہے۔ یہ جزیرہ نمائے عرب میں سب سے بڑا ملک ہے، شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین، مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں عمان اور جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہے جب کہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے۔ اس پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو واضح ہو جائے کہ سعودی عرب یہ قومی دن کیوں مناتا ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے۔
اگر موجودہ سعودی عرب کے حکمرانوں کی بات کریں تو خادم الحرمین شریفین ملک سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان بھی اپنے پیشروؤں کی طرح نہ صرف سعودی عرب میں آنے والے زائرین کی خدمت میں مصروف ہیں بلکہ مسلمانوں کو جہاں ضرورت ہوتی ہے ان کی خدمت کیلئے کوشاں ہوتے ہیں۔دوسری طرف اگر ہم پاکستان اور سعود ی عرب کے تعلقات کا جائزہ لیں تو دونوں دو ایسے ممالک ہیں جو نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے اور نظریے کی بنیاد پر دونوں کے درمیان دوستی کا رشتہ قائم ہوا۔ 23ستمبر 1932ء کو سعودی عرب بھی احیائے اسلام کے نام پر وجود میں آیا تو پاکستان بھی کلمے کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ پاکستان کو تسلیم کرنے میں بھی سعودی عرب نے دیر نہ لگائی۔ اسی طرح دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی کی بنیاد ابتدا میں ہی قائم ہو گئی جو اب تک قائم و دائم ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز پاکستان سے اسی طرح محبت و الفت رکھتے ہیں اسی طرح پاکستان نے بھی کڑے وقت میں ہمیشہ سعودی عرب کا ساتھ دیا ہے۔ سعودی عرب کے حکمران، جس اخلاص اور فراخ دلی سے اسلام کی خدمت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی معاونت کرتے ہیں،اس کے باعث بھی پوری دنیا کے مسلمان ان کے ساتھ خصوصی عقیدت رکھتے ہیں جبکہ بحیثیت پاکستانی ہم پر سعودی عرب کا اکرام یوں بھی لازم ہے کہ پوری دنیا میں مملکتِ خداداد پاکستان سے مخلصانہ دوستی جس طرح سعودی عرب نے نبھائی ہے اور نبھا رہا ہے، وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔ سعودی عرب کی کوشش رہی ہے کہ مسلم امہ میں اتحاد قائم کرے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے۔ سعود بن محمد سے لے کر شاہ سلمان بن عبدالعزیز تک اس خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی اسلامی مملکت بنانے میں نہ صرف عظیم قربانیاں دی ہیں، بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرہ قائم کر دیا ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی پاکستان کے ساتھ خصوصی محبت کرتے ہیں،انہوں نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی مدد کی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے سفراء بھی پاکستان میں کافی متحرک رہے ہیں۔سعودی عرب کی بات کریں تو عمرہ اور حج کے شعائر کیلئے جانے والے زائرین کی خدمت کیلئے جو سہولتیں سعودی عرب وہاں مہیا کر رہا ہے وہ بھی قابل تعریف ہے، راقم الحروف کو بھی حج کی سعادت حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اور وہاں جو سہولتیں سعودی حکومت فراہم کر رہی ہے اس کا مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آیا تو پتہ چلا کہ یہ صرف سعودی حکومت کا ہی کارنامہ ہے کہ وہ دنیا بھر سے لاکھوں مسلمانوں کی میزبانی اس احسن انداز میں کر رہا ہے، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی مملکت سعودی عرب کے حکمرانوں کو اسی طرح قائم و دائم رکھے اور جس طرح وہ مسلمانوں کی میزبانی کر رہے ہیں اور ان کی خدمت کر رہے ہیں،للہ سے دعا ہے کہ وہ مملکت توحید مملکت سعودی عرب کی حفاظت فرمائے اور اس کو دشمنوں کے شر سے بچائے۔ آمین