تونسہ سے گدو تک کشتی کے سفر میں ہمیں 3دن لگیں گے، یہ سفر جھوٹ، نفرت، مصنوعی روشنیوں سے دورقدرت اور سندھو کی رفاقت میں ہو گا

 تونسہ سے گدو تک کشتی کے سفر میں ہمیں 3دن لگیں گے، یہ سفر جھوٹ، نفرت، مصنوعی ...
 تونسہ سے گدو تک کشتی کے سفر میں ہمیں 3دن لگیں گے، یہ سفر جھوٹ، نفرت، مصنوعی روشنیوں سے دورقدرت اور سندھو کی رفاقت میں ہو گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید

قسط:133

ڈیرہ غازی خاں کے رہنے والے قاسم نقوی(رٹیائرڈ سپرنٹنڈنٹ انجینئرمحکمہ بلدیات) یہاں ہمارے میزبان ہوں گے۔ تونسہ سے گدو تک کا سفر ہم کشتی میں ہی کریں گے۔اس سفر کو طے کرنے میں ہمیں 3دن لگیں گے۔ گدو تک کے سفر میں دوستوں کے علاوہ ڈولفن، غیر ملکی مہمان مر غابیاں، ہنس، سر خاب بھی ہمارے ہمسفر ہوں گے۔ ٹھنڈ بھی خوب ہو گی اور راستے میں کچے کے مکینوں اور ڈاکوؤں سے بھی ملاقات ہو گی۔ سب سے بڑی بات یہ سفر جھوٹ، فریب، نفرت، مصنوعی روشنیوں، مشنینی آوازوں سے دور اور قدرت، فطرت، ستاروں، سورج اور چندا ماموں اور سب سے بڑھ کر سندھوکی رفاقت میں ہو گا۔ نین بھی ہو گی، مشتاق بھی ہو گا، باس بھی ہوں گے۔ سندھو سنانے لگا؛”دوست! ڈی جی خاں میں زراعت کا نظام زیادہ تر بارش اور ”رودکوہی“ نظام سے سیراب ہوتا ہے۔یہاں 3 بڑے نالے”وہودا“، ”سانگھڑ“اور”کہا“ کوہ سیلمان کی تنگ گھاٹیوں اور دروں سے سر رگڑتے ہوئے نکلتے ہیں اور راستے میں اپنے چھوٹے چھوٹے معاونوں کے ہمراہ پہاڑی ڈھلوانوں سے لاکھوں ٹن سنگ ریزے، ریت اور مٹی کریدتے پہاڑ کی تلہٹی اور میری درمیانی پٹی میں انڈیل کر اس عمل مسلسل سے”پچد“ کا شمال سے جنوب تک پھیلا ہوا طویل بارانی میدان بناتے ہیں۔اپنی ساخت کے اعتبارسے پچد باریک گندھی ہوئی مٹی کا زرخیز قطعہ ہے۔ اس میں بارش کی قلت کے سبب زراعت کا انحصار زیادہ یر ان پہاڑی نالوں پر ہے جن کی گزرگاہوں میں پتھروں کے پشتے باندھ کر پانی جمع کیا جاتا ہے اور وہاں سے کھالوں کے ذریعے ان کھیتوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ نالوں سے زمین سیراب کرنے کا پرانا طریقہ رودکوہی کہلاتا ہے۔راجن پور کی ”جام پور“ تحصیل میں ”کہا“ نالے سے آب پاش ہونے والی زمینوں اور ان کے پانی کو ”کالا پانی“ کہا جاتا ہے۔ان زمینوں میں عمدہ چاول اور گہیوں پیدا کی جاتی ہے۔ رودکوہی نظام سے باہر کی زمینیں غیر مزروعہ چھوڑ دی جاتی ہیں یا ان میں کاشت کے لئے برساتی پانی کا انتظار کیا جاتا ہے۔“ غازی گھاٹ کا پل پارکرکے سندھوکے مشرقی کنارے ”بستی سرور والی“ گاؤں پہنچے ہیں۔ جمشید بزدار کے جاننے والے دریا واسیوں کا گاؤں۔ کشتی بنانا اس گاؤں کے لوگوں کا قدیم پیشہ ہے۔ خود بھی کشتیوں یا کچے جھونپڑوں میں رہتے ہیں۔ہمارے دریائی سفر کے لئے ایک 2منزلہ بڑی کشتی کنارے آن لگی ہے۔ اس پر ہمارا سامان لادا جا ئے گا، دوران سفر استعمال ہونے والی اشیاء مثلاً خیمے، کھانے پینے اور پکانے کا سامان وغیرہ۔ کشتی کے مستول پر دو جھنڈے لگے ہیں ایک سبز رنگ کا (شاید کسی آستانہ کا ہے)اور دوسرا پیپلز پارٹی کا سہ رنگا۔ کشتی کے بیچ سرکنڈوں کی”چک“کا بنا کمرہ ہے۔ جس کے فرش پر رنگ برنگا درمیانی کوالٹی کا قالین اور روئی کے گدے بچھے ہیں۔ یہ سونے کا کمرہ ہے۔ اس کمرے میں جانے کیلئے جوتے باہر اتارنے پڑتے ہیں۔ ویسے بھی جوتے اتار کے کمرے میں جانا یہاں کا رواج ہے۔ پہلی منزل پر لکڑی کے دو بنچ ہیں اور ان کی اطراف لکڑی کا مضبوط جنگلہ ہے۔نین کیلئے کشتی میں سونے کا ایک علیٰحدہ عارضی کمرہ بنایا گیا ہے۔ اس کمرے میں داخل ہوں تو سامنے آئینہ پر سانولی سلونی انڈین اداکارہ ریکھا کی نین عریاں تصویر ہے جس میں اُس من مہونی کا آدھا پیٹ، گھٹنے تک ٹانگیں اور کندھے عریاں بلکہ نیم برہنہ ہیں۔ آئینے کے ساتھ کیل پر ایک بیگ ٹنگا ہے جس میں میک اپ کا معمولی سامان ہے، لپ سٹک، کاجل، مسکارا، وغیرہ۔ مجھے خیال آیا کشتی والے کی بیوی کا ہو گا۔ یہ سوچ کر ایک خوشگوار مسکراہٹ میرے لبوں پر پھیل گئی ہے کہ بیلے کے علاقے کی نازنین بھی خوبصورت نظر آنے کیلئے ان مصنوعی چیزوں کا استعمال کرتی ہیں اور خوب سج دھج کے اپنے مرد کا انتظار کرتی ہوں گی اور جیسے ہی بنجارے کی نظر اپنی سلونی پر پڑتی ہو گی تو وہ دن بھر کی تھکن بھول جاتا ہو گا۔ ویسے بھی محبت اور حسن کے آنچل تلے ہر مرد کائنات کی ہر تھکن بھول جاتا ہے۔میرے ساتھ تو ہمیشہ ہی ایسا ہوا ہے۔(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)
 
 
 
 
 

مزید :

ادب وثقافت -