”آنا تیرا مبارک تشریف لانے والے، خوشیاں منا رہے ہیں سارے سکول والے“ گاؤں میں سکول کا معائینہ کرنیوالے انسپکٹر اور اس کے نائب کی خوب خاطر مدارت کی جاتی

”آنا تیرا مبارک تشریف لانے والے، خوشیاں منا رہے ہیں سارے سکول والے“ گاؤں ...
”آنا تیرا مبارک تشریف لانے والے، خوشیاں منا رہے ہیں سارے سکول والے“ گاؤں میں سکول کا معائینہ کرنیوالے انسپکٹر اور اس کے نائب کی خوب خاطر مدارت کی جاتی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید

قسط:41

لڑکوں کے دو گروپ بن جاتے، ایک وہ جو منشی جی کے ساتھ جا کر نہر کنارے ان کا انتظار کیاکرتا تھا اور دوسرا گروپ اس دوران سکول کی صفائی کا خیال رکھتا تھا اور تیاریوں کا تنقیدی جائزہ لے کر خامیاں دور کرتا رہتا تھا۔انسپکٹر صاحب اور ان کا نائب عموماً اونٹ پر بیٹھ کر آتے تھے، اڑتی ہوئی گرد دور سے ہی ان کی آمد کا پتہ دے دیتی تھی۔ آگے آگے اونٹ والا چل رہاہوتا تھا، اور پیچھے وہ دونوں انتہائی کرب کے عالم میں اس کی پیٹھ پر بیٹھے ہچکولے کھاتے نظر آتے تھے۔ اونٹ کے نیچے بیٹھتے ہی وہ چھلانگ مار کر نیچے اترتے، پہلے ایک انگڑائی لے کر کمر سیدھی کرتے پھر منشی جی سے گلے ملتے اور سفر کی ابتلاء کا گلہ شکوہ کچھ اس انداز میں کرتے جیسے انھوں نے یہاں آ کر سکول والوں پر کوئی بہت بڑا احسان کیا ہو۔ نزدیکی ڈاک بنگلے کی کھوئی پر ان کا منہ دھلا کر ان کی شکل قابل برداشت بنائی جاتی۔وہیں بچے رٹی رٹائی مختصر نظمیں سنا کر ان کو خوش آمدیدبھی کہہ لیتے۔اور یوں پہلا مرحلہ طے ہو جاتا۔ ابتدائی استقبال کے بعد ان کو سکول کی راہ پر لایا جاتا تو وہیں کہیں قریبی جھاڑیوں میں چھپا ہواایک جاسوس بچہ ان کو آتا دیکھ کر گولی کی طرح سکول کی طرف بھاگتا اور دور سے ہی شور مچا کر ان کے پہنچنے کی اطلاع کر دیتا، سکول کے باقی ماندہ پندرہ بیس بچے فوراً راستے میں آ کرکھڑے ہوجاتے اور کورس کی شکل میں منہ بھر بھر کر گانے لگتے ”آنا تیرا مبارک تشریف لانے والے، خوشیاں منا رہے ہیں سارے سکول والے“۔ ان کو موسم کے مطابق اندر یا باہر درختوں کے نیچے بٹھا کرلسی یا گڑ کا شربت پلایا جاتا تھا۔ جہاں وہ نئی بچھائی ہوئی دریوں اور کھیسوں پر تکیہ لگا کر لیٹ جاتے۔ تکیوں پر دو مور بنے ہوتے تھے اور کڑھائی میں ”خوش آمدید“ لکھا ہوتا تھا۔ کچھ دیر آرام فرمانے کے بعد خانہ پری کے لیے وہ حاضری رجسٹر وغیرہ دیکھتے، پھر سکول کی ”عمارت“ کے چاروں طرف گھومتے اور ان کا یہ سفر ظاہر ہے ایک کمرہ ہونے کی وجہ سے شروع ہوتے ہی ختم ہو جاتا تھا۔ ایک دو بچے جن کو پورا مہینہ سکھلایاپڑھایا جاتا تھا، ہاتھ باندھے اور آنکھیں بند کر کے نعت اور نظمیں سناتے تھے۔جس پر انسپکٹر صاحب اپنی جیب سے پسند آنے والے بچے کو 1 روپیہ انعام دیتے اور باقیوں کی سوکھی تعریف و توصیف کر دیتے تھے تاکہ کسی کا دل نہ ٹوٹے۔ اسی دوران کھانا آجاتا، جو ظاہر ہے ہماے گھر سے ہی آتا تھا شاید اس لیے بھی کہ یہ ایک ایسا گھر تھا جس میں چینی کی پلیٹیں اور کانچ کے گلاس اور جگ تھا۔ دیسی مرغ کے ساتھ چاول اور بعد میں حلوہ یا زردہ، اوپر سے لسی کا جگ! صاحب بہادر ہمت ہار دیتے اور دن ڈھلے تک وہیں سوئے رہتے۔ شام کو انھیں بتایا جاتا کہ وقت رخصت آن پہنچا ہے تو تب بھی جاتے جاتے وہ چائے کی فرمائش کر نا نہ بھولتے۔ اس دوران ان کے اونٹ کو بھی بہترین چارہ اور گندم باجرہ وغیرہ فراہم کیا جاتا۔ پھر اسی ترتیب سے ان کو ر خصت کیا جاتا۔ بچے ”الوداع الوداع“ گاتے کچھ دور ساتھ چلتے اور پھر ایک چھوٹا سا قافلہ ان کو نہر کے اس پار اتار آتا۔سب اس وقت تک وہاں کھڑے رہتے جب تک ان کا اونٹ ایک بار پھرصحر ا کی دھول میں غائب نہ ہو جاتا۔ ان کی رخصتی کے بعد منشی جی ایک ٹھنڈی سانس لیتے اور دھڑام سے چارپائی پر گر جاتے اور کچھ دیر کمر سیدھی کر لیتے۔ کامیاب دورے کی خوشی میں اور اپنی اور بچوں کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے وہ اگلے دن چھٹی کا اعلان کر دیتے۔ یہ چھٹی بھی بارش یا آندھی پر دی جانے والی چھٹیوں کی طرح ان کی صوابدید میں شامل تھی اور بڑا مزہ دیتی تھی۔ہم سب ہی تھکے ٹوٹے جسموں کو کچھ سکون پہنچاتے اورسکول نہ جانے والے دوستوں سے دکھ سکھ بھی کر لیتے۔ سکول کھلنے پر منشی جی کچھ بچوں کو آٹھ آٹھ آنے حوصلہ افزائی کے لیے دیتے تھے جنہوں نے ان کے خیال میں صاحب بہادر کے دورے کے دوران دوسروں سے کچھ بہتر کارکردگی دکھائی ہوتی تھی۔ اس کے بعد وہ بھی چھٹی گزارنے اپنے گاؤں چلے جاتے۔ ایسا ہی ایک چھاپہ ہمارے سکول پر محکمہ صحت کے کارندوں نے بھی اچانک آن مارا تھا۔ یہ لوگ بچوں کو چیچک سے بچاؤ کے ٹیکے لگانے آئے تھے۔ان کی آمد کی سُن گن تو پہلے سے تھی کہ وہ کوئی چھ گاؤں چھوڑ کر مصروف کار تھے۔خیال تھا کہ ابھی ان کے یہاں آنے میں ایک ہفتہ اور لگے گا، مگر وہ تو پہلے ہی آ گئے اور ایک میز پر اپنی دکان سجا کر بیٹھ گئے۔ خطرے کو بھانپ کر کچھ بچے تو راہ فرار اختیار کرگئے اور آس پاس کے درختوں پر چڑھ کر چُھپ گئے تھے۔ جو نہ بھاگ سکے وہ پہلے قابو میں آئے اوراُن کو ایک قطار میں کھڑا کرکے اس عمل سے گزارا گیا۔ ان کا ٹیکہ ایک لمبی دندانے دار چھوٹی سی چرخی ہوتی تھی جس کو کاندھے کے اوپر جلد میں گھسیڑ کر گھمایا جاتا تھا پھر اس گول سے زخم پر چیچک کی ویکسین مل دی جاتی تھی سخت ا ذیت سے گذر کر یہ دو ٹیکے لگتے تھے جس سے خون رستا رہتا تھا، اگلے دن ہلکا بخار بھی ہو جاتا تھا۔ پھر عام زخموں کی طرح ہی ایک آدھ ہفتے میں یہ زخم بھی بھرتو جاتے لیکن زندگی بھر کیلئے کاندھوں پر یہ گول اور بڑے نشان چھوڑ جاتے تھے۔ 70سال گزر جانے کے بعد میں آج بھی یہ نشان اپنے داہنے کاندھے پر لیے پھرتا ہوں۔ اس دور کے تقریباً سب ہی لوگ اسی نشان کے ساتھ جیتے اور مرتے ہیں۔ اس دن میں تو تقریباً بچ ہی گیا تھا لیکن ایک پکڑے جانے بچے نے مخبری کردی۔اور یوں مجھے نہر کے پاس ایستادہ ایک گھنے شیشم کے درخت سے اُتار کر لایا گیا تھا۔ اورپھر مجھے بھی لودے لگ گئے۔ یہ اللہ کا بڑا احسان ہے کہ حکومت وقت کے بروقت اقدام سے اس موذی مرض چیچک کا خاتمہ ہو گیا۔ ورنہ ان دنوں تو ہر دوسرے گھر میں ایک مریض ضرور تھا۔(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
 
 

مزید :

ادب وثقافت -